"IYC" (space) message & send to 7575

ہندتوا کا ننگا ناچ

ابھی پلوامہ واقعہ کی تلخی پوری طرح فرو نہیں ہوئی تھی کہ مودی حکومت نے ایک اور ڈرامہ سٹیج کر دیا ہے اور حسب معمول اس کا الزام بھی پاکستان ہی پر عائد کیا جا رہا ہے۔ پہلگام میں بے گناہ انسانوں کا اس طرح بے وطنی میں مارا جانا یقینا ہر ذی شعور کے لیے دکھ اور تکلیف کا باعث ہے لیکن ہندتوا کی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے‘ صرف مفادات ہیں۔ اس سانحے کو میں نے ڈرامے کا نام اس لیے دیا کہ جس طرح یہ سٹیج کیا گیا اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
پہلا یہ کہ پہلگام پاک بھارت سرحد یا حتیٰ کہ لائن آف کنٹرول سے بھی 400کلومیٹر اندر ہے۔ حملہ آور اگر بلا روک ٹوک وہاں تک پہنچ گئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں عوام کے تحفظ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسرا سوال اس واقعہ کے بعد دس منٹ میں ایف آئی آر کا درج ہونا ہے حالانکہ وقوعے سے تھانے کا فاصلہ چھ کلومیٹر بتایا جاتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایف آئی آر اردو میں لکھی گئی ہے۔ کیا مقبوضہ کشمیر کے سبھی تھانوں میں ایف آئی آرز اردو میں لکھی جاتی ہیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ پہلگام میں دہشت گردوں نے سیاحوں کو نشانہ بنایا‘ اس کا سندھ طاس معاہدے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ پاکستان نے پہلگام واقعہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ اس پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقصد دہشت گردوں تک پہنچنا اور ان کا قلع قمع کرنا ہے یا پاکستان کا پانی بند کرنا؟ اس سانحہ کے رونما ہونے کے بعد بھارتی قیادت کا سیدھا سرحدیں بند کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا اعلان کرنا بھی ایک بڑا اور واضح ثبوت ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا اور ہے۔
سات نومبر 2015ء کی بات ہے‘ بھارت کے معروف اداکار انوپم کھیر اور مشہور ہدایت کار مدھور بھنڈارکر نے سینکڑوں بی جے پی حامیوں کے ساتھ دلی میں مارچ کیا جسے 'مارچ فار انڈیا‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مارچ ان فلمی اداکاروں‘ ہدایت کاروں‘ ادیبوں اور دانشوروں کے خلاف تھا جو اس وقت بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ انوپم کھیر اور ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ بھارت پوری طرح روادار ملک ہے اور کسی کو بھی اسے عدم روادار کہنے کا حق حاصل نہیں۔ انوپم کھیر کے علاوہ بھی بے شمار ایسے لوگ مختلف ادوار میں موجود رہے جو کور چشمی کا شکار تھے کیونکہ وکی پیڈیا ایک الگ کہانی کا راوی ہے۔ وکی پیڈیا کا بتانا ہے کہ 1950ء سے اب تک بھارت میں ہندو مسلم فسادات یا تشدد کے کم از کم 6933واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں کم از کم دس ہزار افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
کل اپنے پروگرام کیلئے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے سوال و جواب ہو رہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ بھارت میں انتہا پسندی کبھی کم نہیں ہوئی لیکن جب سے نریندر مودی وزیراعظم بن کر آئے ہیں‘ ہندتوا کی انتہا پسندی بے حد بڑھ گئی ہے۔ بھارت میں ایسے ایسے قانون پاس ہو رہے ہیں اور ایسے ایسے اصول و ضوابط وضع کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد وہاں موجود اقلیتوں کا ناطقہ بند کرنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ آئیے نریندر مودی کی انتہا پسندی کی مثالوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نریندرا دامودرداس مودی (Narendra Damodardas Modi) محض آٹھ سال کی عمر میں آر ایس ایس سے متعارف ہوئے۔ 1971ء میں یعنی صرف 21سال کی عمر میں وہ آر ایس ایس کے فل ٹائم ورکر بن چکے تھے۔ آر ایس ایس نے نریندر مودی کو 1985ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل کرایا جہاں وہ مختلف عہدوں پر کام کرتے اور ترقی کرتے کرتے 1998ء میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔ 2001ء میں ان کی پارٹی گجرات کاٹھیاواڑ میں جیتی تو انہیں وہاں کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ وہ 2014ء تک اس عہدے پر براجمان رہے اور اس دوران انہوں نے ریاست کی اقلیتوں کا ناطقہ بند کیے رکھا۔ واضح رہے کہ 27فروری 2002ء کو گجرات کے گودھرا ریلوے سٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آتش زدگی کا واقعہ رونما ہوا تھا جس میں 57ہندو یاتری جو ایودھیا سے آرہے تھے‘ زندہ جل گئے تھے۔ یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا لیکن انتہا پسند ہندوؤں نے اس آتش زدگی کا الزام مسلمانوں پر لگایا جس کے بعد پورے گجرات میں پُرتشدد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اگلے روز یعنی 28فروری کو احمد آباد کے نرودا گام علاقے کے مسلم محلے کمبھار واس میں ایک مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کے مکانوں کو نذرِ آتش اور 11مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی باقاعدہ نسل کشی تھی۔ ان واقعات میں 2500مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ اس دوران سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ ان فسادات کو روکنے کیلئے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا تھا‘ اُلٹا گجرات کے وزیراعلیٰ انہی نریندر مودی نے اس قتل و غارت گری کی مکمل سرپرستی کی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کی بھارت کی وفاقی حکومت‘ جو بی جے پی کی تھی‘ نے گجرات میں فسادات روکنے کی بالکل کوئی کوشش نہیں کی۔ اپریل 2023ء میں احمد آباد کی ایک خصوصی عدالت نے 2002ء میں احمد آباد کے علاقے نرودا گام میں 11مسلمانوں کے قتل کے تمام 67ملزمان کو بری کر دیا۔ ملزمان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابق رکن اسمبلی مایا کودنانی‘ بجرنگ دَل کے لیڈر بابو بجرنگی اور وِشوا ہندو پریشد کے رہنما جے دیپ پٹیل بھی شامل ہیں۔
نریندر مودی کا سیاسی اور مذہبی خمیر کہاں سے اٹھا؟ یہ اندازہ لگانے کے لیے جاننا پڑے گا کہ آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کیا ہے اور یہ کن مقاصد کے تحت قائم کی گئی تھی۔ وکی پیڈیا کے مطابق آر ایس ایس بھارت کی ایک ہندو تنظیم ہے جو خود کو قوم پرست تنظیم قرار دیتی ہے۔ کئی دہشت گردانہ معاملوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا ہے۔ اس کی بنیاد 27ستمبر 1925ء کو ناگپور میں رکھی گئی تھی۔ 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس کی رکنیت 50لاکھ سے 60لاکھ کے درمیان تھی۔ اب ظاہر ہے کہ بڑھ چکی ہو گی۔ یہ تنظیم بھارت کو ہندو ریاست گردانتی ہے اور یہی اس تنظیم کا اہم مقصد بھی ہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار اور آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ وکی پیڈیا ہی بتاتا ہے کہ بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سرفہرست ہے۔ 1927ء کے ناگپور فسادات میں اس کا اہم کردار تھا۔ 1948ء میں اس تنظیم کے ایک رکن نتھورام ونائک گوڈسے نے ہندو تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ 1969ء میں احمد آباد فساد‘ 1971 ء میں تلشیری فسادات اور 1979ء میں بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات میں آر ایس ایس کا مذموم کردار تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کو اس تنظیم کے اراکین (کار سیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اس کو منہدم کر دیا تھا۔
ایسے گھناؤنے کردار کی حامل تنظیم کے سائے بلکہ گود میں پلنے والے شخص سے امن‘ انصاف اور انسانیت کی توقع عبث ہے۔(جاری )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں