ٹریفک کے مسائل

چند سال پہلے تک اسلام آباد بہت ہرا بھرا‘ پُرسکون اور صاف ستھرا شہر ہوا کرتا تھا۔ روایتی چار موسموں کے علاوہ برسات کا موسم بھی شہرِ اقتدار کے حسن کو چارچاند لگا دیتا تھا۔ جب ہم اسلام آباد کی فضا میں سانس لیتے تھے تو سبزے اور پھولوں کی تیز مہک محسوس ہوتی تھی۔ اسلام آباد کے جنگلات اور پارکوں میں پرندے چہچہاتے تھے اور تتلیاں اڑتی تھیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ یہاں ترقی کے نام پر جنگلات کا صفایا شروع کر دیا گیا۔ پل‘ انڈر پاسز‘ نئے نئے رہائشی منصوبے‘ سڑکیں اور بلند عمارتیں اس کے حسن کو نگلنے لگیں۔ یہاں تک کہ پہاڑوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا‘ وہاں بھی تعمیرات ہو گئیں۔ پہاڑوں کی کٹائی اس کے علاوہ ہے۔ سی ڈی اے کے نئے رہائشی سیکٹر تو نہیں کھل سکے لیکن نجی رہائشی منصوبے دھڑا دھڑ کھل رہے ہیں۔ وہ شہر جو کبھی اپنے جنگلات‘ پھولوں اور سبزے کی وجہ سے مشہور تھا‘ اب کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔ اب شہر کے اطراف میں نکلیں تو سبزے کے بجائے ہر طرف دور تک سیمنٹ اور کنکریٹ کا جنگل نظر آتا ہے۔ کہنے کو یہ شہرِ اقتدار ہے مگر اس شہر میں صاف پانی تک میسر نہیں ہے‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ابتر ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ صفائی کا نظام بھی انتہائی ناقص ہے۔ بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے کہیں پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی۔ بچوں کے پارک انتظامی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کتنے ہی علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کام نہیں کرتیں۔ بارش کے بعد گلیاں ندی نالوں میں بدل جاتی ہیں لیکن حکومت کو نکاسیِ آب کا مسئلہ نظر ہی نہیں آتا۔ جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ صرف پل‘ سڑکیں اور انڈر پاس بنا کر خود کو باقی مسائل سے بری الذمہ سمجھ لیتا ہے۔ سڑکوں‘ پلوں اور انڈر پاسز کا سلسلہ بھی محض چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔ شاید یہ حکمران سمجھتے ہیں کہ عوام کو تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور سستی اشیائے ضروریہ کی فراہمی ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اگر علاج معالجے کی سہولتوں کی صورتحال دیکھنی ہو تو صرف اسلام آباد کے دو بڑے سرکاری ہسپتال ہی دیکھ لیں۔ سہولتوں سے عاری ان ہسپتالوں میں جا کر سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے‘ کجا بندہ وہاں جا کر علاج کرائے۔ ان ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی قلت ہے‘ ٹیسٹ کرنے والی مشینیں خراب پڑی ہیں لیکن حکومت کا سارا زور پل‘ سڑکیں اور انڈر پاس بنانے پر ہے کیونکہ حکمرانوں کا ترقی کا وژن یہیں تک محدود ہے۔ سڑکوں اور پلوں کا احوال بھی سن لیں۔ شہرِ اقتدار میں بننے والی نئی سڑکوں اور پلوں کے حوالے سے شہریوں کو یہ خواب دکھائے گئے تھے کہ اسلام آباد میں جو سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں‘ ان کی وجہ سے شہر سگنل فری ہو جائے گا لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اُلٹا یہ منصوبے عوام کیلئے دردِ سر بن گئے ہیں۔ صرف گاڑی والا ہی نہیں‘ پیدل چلنے والا بھی خوار ہو کر رہ گیا ہے۔ تیز رفتار ٹریفک والی شاہراہوں پر پیدل سڑک پار کرنے والوں کیلئے پل بہت کم ہیں۔
شہرِ اقتدار میں درختوں کی کٹائی کی وجہ سے گرمی کے موسم کا دورانیہ اور شدت زیادہ ہو گئی ہے۔ جب مجھ جیسے ماحول دوست لوگ یہ کہتے تھے کہ درخت نہ کاٹو تو سوشل میڈیا پر ہمیں طعنے دیے جاتے تھے کہ آپ لوگ شہر کی ترقی کے خلاف ہیں‘ جبکہ ایسا کچھ نہیں! میں بھی چاہتی ہوں کہ شہر میں ترقی ہو لیکن اس کی قیمت جنگلات کاٹ کر ادا نہ کی جائے۔ شہرِ اقتدار میں اب ہر وقت ٹریفک جام رہتا ہے۔ نہ صرف بڑی شاہراہوں پر بلکہ رہائشی سیکٹرز کو ملانے والی سڑکوں پر بھی ٹریفک جام روز کا معمول ہے۔ ایسے مواقع پر ٹریفک پولیس بالکل نظر نہیں آتی۔ روز روز ہونے والے ٹریفک جام اور بڑھتے حادثات کی وجہ سے شہری کوفت کا شکار ہیں۔ نئی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے اگر آپ یوٹرن لینا بھول جائیں تو پورے سیکٹر کا چکر لگانے کے بعد اگلا یوٹرن آئے گا۔ انسان خود کو کوسنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ خواری کے علاوہ وقت اور پٹرول کا ضیاع الگ‘ لیکن عوام کی کہیں کوئی شنوائی نہیں۔
ایک وقت تھا جب مارگلہ روڈ اسلام آباد میں رومانویت کی علامت تھی۔ یہاں ڈرائیو کرکے انسان قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اب یہاں ہر وقت ٹریفک جام رہتا ہے۔ ایف ایٹ اور ایف نائن کے پاس سگنلز پانچ سے دس منٹ تک بند رہنا معمول بن چکا ہے۔ سگنل ایف نائن کے پاس بند ہوتا ہے تو ایف ایٹ تک گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں بیک وقت دو منصوبوں پر ایک ساتھ کام شروع ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اب جبکہ یہ منصوبے مکمل ہو چکے ہیں‘ ٹریفک کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ایف ٹین راؤنڈ اباؤٹ کی وجہ سے ایف ٹین اور جی ٹین کے رہائشی شدید کوفت کا شکار ہیں۔ وہاں شاپنگ کرنے والوں کو گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ جن دنوں کرکٹ ٹیم اور ابو ظہبی کے ولی عہد کی اسلام آباد تشریف آوری ہوئی‘ اس دن پورے اسلام آباد میں ٹریفک جام رہا۔ اسلام آباد میں ہر جگہ کیمرے لگے ہیں۔ سیف سٹی کے ذریعے ان کو مانیٹر کیا جاتا ہے‘ ان کیمروں کی مدد سے بہ آسانی عوام کو متبادل روٹس پر بھیجا جا سکتا ہے‘ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ یکدم وی وی آئی پی موومنٹ کیلئے ہر طرف ٹریفک بند کردی جاتی ہے۔ اس سے گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں اور عوام کو شدید ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ لوگ میں خوف و ہراس اور سڑکیں بند کرنے والوں کے خلاف نفرت پھیلتی ہے۔ خاص طور پر خواتین بہت خوف محسوس کرتی ہیں کیونکہ ملک میں سٹریٹ کرائمز عام ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے گاڑیوں میں بلک کر رہ جاتے ہیں۔ لوگ اپنی منزلِ مقصود تک وقت پر نہیں پہنچ پاتے۔ یکدم سینکڑوں گاڑیاں ایک جگہ پھنس جائیں تو اس سے جہاں ماحولیاتی آلودگی پھیلتی ہے وہیں صوتی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایک طرف میچ کا رُوٹ‘ دوسری طرف معزز مہمان کیلئے رُوٹ۔ چلیں یہ صورتحال تو کبھی کبھی ہوتی ہے‘ شہرِ اقتدار کو کبھی کبھی ایسی مہمان نوازی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن بیرونی مہمانوں سے زیادہ یہاں کی لوکل اشرافیہ اور ''وی وی آئی پیز‘‘ کیلئے منٹ منٹ بعد روٹس لگا دیے جاتے ہیں۔ ان روٹس کی وجہ سے اسلام آباد میں ٹریفک جام روز کا معمول بن چکا ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ رمضان میں یہ صورتحال شاید نہ ہو لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہت سے لوگوں نے اپنا دوسرا روزہ سرینگر ہائی وے کے ٹریفک جام میں گزار دیا۔ جس وقت مغرب کی اذان ہوئی تو ٹریفک جام میں پھنسے لوگوں کے پاس افطاری کے لیے نہ تو پانی تھا‘ نہ ہی کھانے کی کوئی اور چیز۔ اس کا گناہ کس کے سر جائے گا؟ جن کے لیے روٹ لگا کر سڑکوں کو بند کیا گیا تھا‘ کیا ان کا کوئی ذمہ نہیں؟
دوسری طرف شہر میں تعمیر ہونے والی نئی اور پرانی سڑکوں کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ ایک شخص سڑک پر جھٹکے لگنے کی شکایت کرتا دکھائی دیتا ہے تو دوسرا فاسٹ لین میں یکدم موڑ آ جانے کی شکایت کر رہا ہوتا ہے اور کوئی کھڈوں کی طرف توجہ مبذول کرا رہا ہوتا ہے۔ چند روز قبل جب اسلام آباد میں بارش ہوئی‘ اس روز رجب طیب اردوان ایونیو کی نئی تعمیر شدہ روڈ بیٹھ گئی اور ٹریفک کا مزید مسئلہ پیدا ہو گیا۔ سپیڈ دکھانے اور فیتے کاٹنے کے شوق میں خدارا انسانوں کی جانوں کے ساتھ مت کھیلیں۔ شہر میں کنکریٹ کے جنگل کھڑے کرنے کے بجائے سیدھی سیدھی سڑکیں بنانے سے بھی ٹریفک کی روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ شہر میں کسی بھی صورت ٹریفک کو نہ روکا جائے۔ اس کے ساتھ ٹریفک پولیس کو فعال کیا جائے۔ ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کہیں ٹریفک جام ہوتا ہے تو ٹریفک پولیس اہلکار وہاں نظر نہیں آتے۔شہری اپنی مدد آپ کے تحت ہی ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ شہر میں ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے فوری نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں