پاکستان میں اگر کوئی احتساب کے شکنجے میں آتا ہے تو وہ صرف وزیراعظم ہے۔ وزیراعظم بھی وہ جو سیاستدان ہو۔ ہماری ملکی تاریخ میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج ٹیکنو کریٹ اور دہری شہریت والی شخصیات کے سر بھی رکھا گیا مگر کسی نے اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ سیاستدانوں کے علاوہ اشرافیہ میں شاید ہی کبھی کسی کو سزا ہوئی ہو اور اگر سزا ہوئی بھی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہو پایا۔ ان کو ایک اَن دیکھا استثنا حاصل ہے۔ یہ میں نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کہہ رہی ہے۔ اشرافیہ کو اس ملک میں ہر جرم پر معافی مل جاتی ہے۔ وہ سڑک پر کسی کو گاڑی تلے روند دیں‘ کسی کو غائب کرا دیں‘ لڑکی کو تنگ کرنے سے منع کرنے پر اس کے بھائی کو قتل کر دیں‘ ان کو ہر جرم میں معافی مل جاتی ہے اور قانون ان کے سامنے جھکا رہتا ہے۔ اکثر لوگ اس ملک میں پیدا ہی حکمرانی کیلئے ہوتے ہیں۔ وہ اہم ملکی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں اور اس دوران اپنی اولاد کو باہر بھیج دیتے ہیں۔ پھر مدتِ ملازمت ختم ہونے پر وہ اپنی تمام جمع پونجی سمیٹ کر ترقی یافتہ ملکوں میں شفٹ ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اتنی جلدی میں ہوتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے اگلے روز ہی لندن چلے جاتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کیلئے پاکستان سونے کے انڈے دینے والی مرغی کا نام ہے کیونکہ یہاں ان کو آسانی سے ڈیل اور ڈھیل مل جاتی ہے۔ اس لیے وہ کھل کر کرپشن کرتے ہیں اور پھر اُن محفوظ جنتوں کی طرف نکل جاتے ہیں جہاں ان کے آف شور اکائونٹس ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی یادداشت بھی کچھ کمزور ہے لہٰذا یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے۔ قومی خزانے کو اربوں کا چونا لگا کر بھی لوگ صاف بچ نکلتے ہیں۔ تاہم ملک کے وزیراعظم کو کوئی رعایت نہیں ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں اشرافیہ قتل کر کے بھی صاف بچ نکلتی ہے‘ وہاں وزیراعظم ہر طرح کے مقدمات کی زد میں آ جاتا ہے۔ دورانِ اقتدار بھی جب اس سے کچھ خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے تو اس کی کرسی کے پائے کھینچ لیے جاتے ہیں۔ یہ اقتدار کی کرسی بہت سے سہاروں پر کھڑی ہوتی ہے۔ فردِ واحد اقتدار کا اکیلا حقدار نہیں ہوتا۔ اتحادی‘ ووٹرز‘ سپورٹرز اور نظر نہ آنے والی قوتیں‘ جو اپنا زبردست وجود رکھتی ہیں‘ اقتدار میں شریک اور کرسی پر براجمان ہوتی ہیں۔ ہر وزیراعظم اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کیلئے بہت جتن کرتا ہے لیکن اس کرسی کے پائے ہمیشہ لرزتے رہتے ہیں۔ وہ طاقتور ترین عہدے پر ہونے کے باوجود بااختیار نہیں ہوتا۔ اصل طاقت جن کے پاس ہوتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے طاقت کو جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ اس نظام کو ایک کمزور وزیراعظم اور لاغر جمہوریت ہی اچھے لگتے ہیں۔ جس وزیراعظم کی توجہ ہر وقت اپنی کرسی بچانے پر ہو گی‘ وہ عوام کے مسائل کیسے حل کرے گا؟ پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف وزرائے اعظم پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے۔ بھٹو صاحب کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں یہی پڑھا کہ وہ بڑے لیڈر تھے‘ غضب کے شعلہ بیان‘ خوش گفتار اور مسلم اتحاد کے داعی۔ ان کو ایک آمر نے جیل میں ڈالا اور عوام یہی سوچتے رہے کہ وہ آج نہیں تو کل رہا ہو جائیں گے۔ پاکستان کے علاوہ وہ عرب ممالک میں بھی بہت مشہور تھے۔ تاہم ان کی شہرت اور عوامی مقبولیت بھی ان کو سازشوں سے نہیں بچا سکی۔ وہ خاصا تکلیف دہ دور تھا جب سیاسی کارکنوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن مزاحمت کرنے والے اس وقت بھی ڈٹے ہوئے تھے۔ ایک آمر نے طاقت کے غرور میں ملک کو ایک اعلیٰ پائے کے لیڈر سے محروم کر دیا۔ اس غلطی کو کوئی پانچ دہائیوں کے بعدملک کی سب سے بڑی عدالت نے گزشتہ برس تسلیم کیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ایک عدالتی قتل تھا۔ اُس وقت اگر عدالتیں بروقت انصاف کرتیں تو آج ملک کے حالات کچھ اور ہوتے۔
پاکستان کی ستتر سالہ تاریخ میں یہاں کوئی ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو عہدے سے الگ ہونا پڑا جب ملک غلام محمد نے ان کی حکومت تحلیل کر دی۔ ان کے بعد محمد علی بوگرہ آئے تو ان کی حکومت اسکندر مرزا نے ختم کر دی۔ ان کے بعد چودھری محمد علی وزیراعظم بنے جنہوں نے ایک سال بعد استعفیٰ دے دیا۔ پھر حسین شہید سہروردی آئے‘ وہ بھی ایک سال سے زیادہ کرسی پر نہ ٹک سکے۔ پھر وزارتِ عظمیٰ کا قرعہ آئی آئی چندریگر کے نام نکلا۔ وہ دو ماہ بعد ہی مستعفی ہو گئے۔ فیروز خان نون کومارشل لاء کی وجہ سے عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1958ء سے 1971ء تک ملک آمروں کے نرغے میں رہا اور وزیراعظم کا عہدہ عملاً معطل رہا۔ 1971ء میں نور الامین تیرہ روز کیلئے وزیراعظم بنے اور ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ایک طاقتور وزیراعظم کے طور پر ابھرے لیکن ان کو بھی چلنے نہیں دیا گیا۔ پھر محمد خان جونیجو آئے‘ آٹھویں آئینی ترمیم کے بعد انہیں بھی گھر جانا پڑا۔ پھر عوامی طاقت کے ساتھ بینظیر بھٹو مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ تاہم وہ بھی اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کر سکیں۔ نوے کی دہائی کچھ یوں تھی کہ کبھی نواز شریف کرسی پر تو کبھی بینظیر۔ اس دوران سیاسی عدم استحکام عروج پر رہا۔ صدر غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجنے کا فریضہ بخوبی نبھایا۔ ان دونوں حکومتوں پر کرپشن کے الزامات بھی لگتے رہے اور دونوں وزرائے اعظم کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اس کے بعد لگ بھگ نو سال کا ایک طویل آمرانہ دور پرویز مشرف کا تھا۔ اس دور میں ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز دو‘ ڈھائی سال جبکہ شجاعت حسین مختصر مدت کیلئے وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد یوسف رضا گیلانی متفقہ طور پر وزیراعظم بنے مگر ساڑھے تین سال بعد انہیں توہینِ عدالت کی وجہ سے اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ گیلانی صاحب کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے‘ پھر 2013ء کے الیکشن کے بعد کرسیٔ اقتدار میاں نواز شریف کو مل گئی مگر پونے چار سال بعد ان کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تو یہ کرسی شاہد خاقان عباسی کے پاس آ گئی۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد عمران خان وزیراعظم بنے‘ پونے چار سال بعد وہ بھی عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیے گئے اور اب درجنوں مقدمات کا سامنا کر رہے اور اس وقت جیل میں ہیں۔
اب ملک کے وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ بظاہر تو اس وقت حکومت اور ادارے ایک پیج پر نظر آتے ہیں مگر مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خاص طور پر جب ملکی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے ناپائیدار کرسی وزیراعظم کی ہے۔ گزشتہ ہفتے بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ کیس میں سزا سنائی گئی۔ اس سے پہلے بھی وزرائے اعظم نے مقدمات‘ جیل‘ مصائب اور جلاوطنی کا سامنا کیا۔ اب یہ روایت خاصی مضبوط ہو گئی ہے کہ اور کسی کو سزا ملے نہ ملے‘ سابق وزیراعظم کو سزا ضرور ملتی ہے۔ جو قدرے ہوشیار ہوتا ہے‘ وہ ڈیل یا این آر او لے لیتا ہے۔ جو انقلابی بننے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ یا تو پھانسی کے پھندے پر چڑھ جاتا ہے یا جیل کی کال کوٹھری اس کا مقدر بنتی ہے۔ ایک سابق وزیراعظم کو ملکی سیاست سے بالکل آئوٹ کر دیا گیا اور ایک جیل میں بند ہے۔ اب موجودہ وزیراعظم کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ پاکستان کی 78سالہ تاریخ میں ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت کیوں پوری نہیں کر پایا جبکہ ملک میں 21سال وزیراعظم تھا ہی نہیں۔ مارشل لاء‘ عدالتی برطرفی یا عدم اعتماد میں ہمیشہ وزیراعظم ہی کیوں نشانہ بنتا ہے؟ اس لیے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی سزاؤں پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا یہ حال سب نے مل کر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دشمن مرے تے خوشی نہ کریے‘ سجناں وی مر جانا۔آج جو سابق وزیراعظم کی سزائوں پر خوش ہیں کل کو ان پر بھی یہ وقت آ سکتا ہے۔ اس لیے مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکال لیا جائے تو سب کیلئے بہتر ہوگا۔