"SUC" (space) message & send to 7575

ذرا نصیحتِ ہمسائگاں ملاحظہ ہو …(2)

محمد حسن اخوند!مجھے نہیں معلوم کہ نائن الیون کے بعد مطلوب افراد کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے یا ملک سے بے دخل نہ کرنے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں‘ لیکن کیا طالبان کو اس کا ذرا بھی اندازہ ہے کہ اُس دور میں‘ 2001ء سے 2021ء تک پاکستان پر کیا گزری؟ ہم کیسے کیسے عذاب سے گزرے۔ عسکری اداروں سے لے کر ایک عام شہری تک‘ کون تھا جس نے پھٹتے حملہ آوروں اور خون سے لتھڑی گزرگاہوں کے درمیان زندگی نہیں گزاری۔ ہماری چاند راتیں‘ہماری عیدیں تک افغان جنگ کی نذر ہونے لگیں۔ ہماری مسجدیں لہو لہو ہو گئیں اورہمارے منبروں سے خون ٹپکنے لگا۔ سڑکیں بند ہو گئیں کہ یہاں سکیورٹی چوکیاں اور مورچے ضروری تھے۔ پُرامن بازار اجڑ گئے اور مائیں اپنے بچوں کی گھر واپسی کی خیر منانے لگیں۔ جنگ کابل‘ جلال آباد اور قندھار میں نہیں‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ لاہور اور کراچی میں بھی جاری تھی اور لپیٹ میں ہر پاکستانی تھا۔ پاکستان کئی محاذوں پر لڑ رہا تھا۔ نیٹو اقوام سے‘ کابل حکومت سے‘ ٹی ٹی پی سے اورکابل کی مدد سے پاکستان میں گھستے کلبھوشنوں سے۔ ببرک کارمل ہوں‘ نجیب اللہ ہوں‘ حامدکرزئی ہوں یا اشرف غنی۔ وہ طالبان کے حریف تھے یا حامی‘ یہ الگ بحث ہے لیکن بہرحال سب افغان تھے۔ کئی کی زندگی کا بڑا حصہ پاکستانی اناج کی روٹی کھاتے اور اس کے دریائوں کا پانی پیتے گزرا تھا لیکن ہم ان کی زبان سے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے کلمۂ خیر کے ایک لفظ کو بھی ترستے تھے۔ ان میں سے کئی سربراہ احسان فراموشی اور محسن کشی کی بدترین مثال کے طور پر تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن یاد رکھیے! یہ سب افغان تھے۔ اگر آپ چند پاکستانی افراد کے فیصلوں کا گناہ پوری پاکستانی قوم کے سر مڑھتے ہیں تو ان افغان حکمرانوں کے گناہ ان کے سر کیسے نہیں ہیں؟ یہ بھی تاریخ میں درج ہے کہ 2001ء میں پاکستانی قیادت نے جو چند فیصلے کیے‘ اس کی ان دنوں بھی مخالفت کی گئی تھی اور آج بھی اس کے نقصانا ت سامنے ہیں۔ پھر بھی اس زمانے میں طالبان کیلئے اگر کوئی خطہ جائے عافیت تھا‘ اگر وہ کسی حکومت کی طرف مدد کیلئے دیکھ سکتے تھے تو وہ پاکستان ہی تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ کی اپنی جائیداد پاکستان کے شہروں میں موجود ہے یا نہیں لیکن آپ کے علم میں یہ ضرور ہوگا کہ کتنے افغان جنگجوئوں اور طالبان کی 1979ء سے آج تک کتنی کتنی جائیدادیں پاکستان میں ہیں۔ میں نقد رقم اور بینک اکائونٹس کی بات نہیں کر رہا‘ پشاور سمیت کے پی اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں کئی بازار اور کئی مارکیٹیں افغان مہاجرین کے نام پر آباد ہوئیں اور اب تک چلے آتی ہیں۔ قصہ خوانی بازار‘ پشاور کی ایک گلی اسی زمانے میں محلہ جنگی کے نام سے آباد ہوئی۔ میرا افغانوں کی آمد سے قبل بھی پشاور بہت بار جانا ہوا اور ان کی یلغار کے بعد بھی بہت بار جانا ہوا۔ یقین کیجیے کاروباری معاملات ہی میں نہیں‘ انداز واطوار میں بھی زمین آسمان کا فرق پڑگیا۔ پشاور جو ایک مہمان نواز‘ خوش خلق شہر کے طور پر مشہور تھا‘ اس یلغار نے یکسر بدل کر رکھ دیا۔ یہ تو محض ایک شہر کی بات ہے۔ اس دور میں بیشمار بستیاں اور شہر اپنی اس شناخت سے محروم ہونے لگے جو انہیں منفرد اور پُرکشش بناتی تھی۔
یہ 2021ء ہے۔ طالبان اور امریکہ میں طویل مذاکرات حتمی مرحلے میں ہیں۔ یہ مذاکرات کس کی مدد اور سہولت کاری کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں؟ بھارت؟ ایران ؟ تاجکستان؟ آپ کا کون سا ہمسایہ تھا جو مذاکرات میں آپ کی مدد کر رہا تھا؟ یہ پاکستان ہی تھا جس کی مدد سے آپ بار بار دوحہ جاتے اور امریکی انخلا کیلئے اپنی شرائط پیش کرتے تھے۔ امریکہ جن عوامل کی بنیاد پر افغانستان سے انخلا پر مجبور ہوا اس میں آپ کی جدوجہد کے ساتھ پاکستان کی مدد بھی شامل تھی۔ افغانستان میں موجود رہنے کیلئے پاکستان امریکہ کی مجبوری تھا اور وہ اپنے پورے دبائو‘ نیز حکومت کے کئی غلط فیصلوں کے باوجود پاکستان کو درپردہ طالبا ن حمایت سے ہٹا نہیں سکا۔ یہ اسلام اور ہمسائیگی کے تحت اختیار کی گئی حکمت عملی تھی جو صحیح یا غلط کے فیصلوں کے قطع نظر‘ خیر خواہی کے سوا کچھ بھی نہیں تھی۔ 2021ء میں جب امریکی انخلاشروع ہو گیا اور اشرف غنی کی حکومت پتوں کی طرح ڈھیر ہونے لگی تو ہر پاکستانی نے سکھ کا سانس لیا کہ آزمائش کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کو کیا فرق پڑتا تھاکہ کابل کے محل میں اشرف غنی اور عبد اللہ عبداللہ بیٹھے ہیں یا ملا ہبت اللہ اور محمد حسن اخوند! اس کیلئے تو سبھی برابر تھے اور سبھی افغان تھے۔ یہ اسلام‘ ہمسائیگی کے حقوق اور آپ کی خیر خواہی کے سوا کیا تھا کہ آپ کی کامیابیوں کیلئے مسجدوں اور گھروں میں دعائیں مانگی جاتی تھیں؟ جس دن طالبان کابل صدارتی محل میں داخل ہوئے تھے‘ ہر پاکستانی کو ایسا لگا تھا کہ کامیابی اس کی اپنی ہوئی ہے۔ آئندہ دور سب کیلئے پُرامن ہوگا‘ لیکن آپ نے یہ خیال غلط ثابت کر دکھایا۔
یہ 2025ء ہے۔ آپ کو اقتدار سنبھالے چار برس ہونے کو ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ آپ پہلے ہی سال میں افغان مہاجرین کی واپسی کا ترجیحی بنیادوں پر بندوبست کرتے۔ وہ بوجھ پاکستان اور ایران سے ہٹاتے جس نے چالیس سال سے کمر توڑ رکھی ہے۔ لیکن حالت آپ کی یہ ہے کہ ایک قدم ایسا نہیں اٹھایا گیا جس سے ان کی باعزت واپسی کی راہ ہموار ہوتی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اب آپ کون سی جنگ لڑ رہے ہیں جو اس کام میں مانع ہے؟ ان چار سالوں میں اگر ایک قدم بھی ان مہاجرین کی واپسی اور اس کا نظام وضع کرنے کیلئے نہیں اٹھا سکے تو پھر پاکستان کو اسلام اور ہمسائیگی کے حقوق کی تلقین کرتے ہوئے آپ کو کچھ شرم آتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ اب بھی ایک نئی معرکہ آرائی میں لگے ہوئے ہیں۔ جو نئی جنگ آپ نے چھیڑی ہے اور جس کا کھلم کھلا اعتراف آپ نہیں کرنا چاہتے‘ پاکستان کے خلاف ہے۔ آپ میں اور اشرف غنی کی حکومت میں کیا فرق ہے؟ سکیورٹی اداروں سے لے کر پولیس تک‘ علما سے لے کر عام نمازیوں تک‘ مسجدوں سے لے کر بازاروں تک۔ کوئی ایک چیز ایسی نہیں جس کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔ کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں جس کی تاویل کر لی جائے۔ ایک تسلسل کے ساتھ سرحدوں پر حملے‘ باڑ کاٹنے‘ دہشت گردوں کو منظم حملوں کی تاکید اور تائید کے ساتھ پاکستان میں داخل کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ تازہ ترین وہ واقعہ ہے جس میں چند دن پہلے افغان دہشت گرد پکڑے گئے اور جن کا بھیانک منصوبہ کراچی کے ایئر بیس پر حملہ اور قبضہ تھا۔ افغان وزیراعظم صاحب! جو لوگ ان حملوں میں شہید اور زخمی ہوئے اور جنہیں ہلاک کرنے کا ارادہ تھا‘ وہ سب مسلمان اور آپ کے ہمسائے تھے۔ وہ مدرسے تھے جہاں سے آپ نے اور آپ کے بچوں نے تعلیم حاصل کی۔ وہ علما تھے جو آپ کے اساتذہ کی طرح تھے۔ وہ سکول تھے جہاں آپ کے بچوں کو پڑھنا سکھایا گیا۔ وہ نمازی تھے جو آپ کیلئے چالیس سال دعا گو رہے۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام اور ہمسائیگی کے حقوق کا اطلاق خود آپ پر ہوتا ہے یا نہیں؟ پاکستان کو چھوڑیں‘ اپنے ملک کی بات کریں۔ یہ پشتون‘ یہ ازبک‘ یہ تاجک آپ کے ہمسائے ہیں یا نہیں؟ انہیں آ پ مسلمان مانتے ہیں یا نہیں؟ ان کے کیا حقوق اب تک آپ نے ادا کیے ہیں؟ یہ بھی بتائیں کہ جو افغان مہاجرین اب تک ایران اور پاکستان سے افغانستان واپس جا چکے ہیں ان کی روزی روٹی کا‘ ان کے روزگار کا‘ ان کی چھت کا اور ان کے مستقبل کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ روز وہ وڈیوز اور خبریں سامنے آتی ہیں جن میں افغانستان پہنچنے والے بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح بھوکے پیاسے‘ کھلے آسمان تلے رات بسر کرنے پر مجبور ہیں اور کوئی ان کی خبر لینے والا نہیں۔ مجھے بتائیں کہ یہ مسلمان اور آپ کے ہم وطن ہیں یا نہیں؟ اس ذلت آمیز سلوک کی کیا وجہ ہے اور ان کی عزتِ نفس برقرار رکھنے کی تلقین صرف پاکستان کیلئے کیوں ہے؟ نصیحتیں اپنے پاس رکھیں۔ یہ بتائیں جواب ہے کوئی آپ کے پاس؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں