"SUC" (space) message & send to 7575

بھارت۔ مسلمانوں کے لیے نئے خنجر

عید کے دن پاکستان میں تو پُرسکون گزرے لیکن بھارت کے مسلمانوں نے ایک اضطراب کے ساتھ عید گزاری۔ بعض اوقات ہمسایہ ممالک میں جو طوفان ایک جگہ گزر رہا ہوتا ہے دوسری طرف اس کی خبر بھی نہیں ہوتی اور نہ اس کا ٹھیک سے ادراک ہوتا ہے۔ ہم پاکستان میں رہ کر ان سنگین مسائل کا احساس نہیں کر پاتے جو اس وقت بھارتی مسلمانوں کو کئی اطراف سے گھیرے ہوئے ہیں اور جن کا دکھ ہر صاحبِ دل پاکستانی کو محسوس ہوتا ہے۔ نریندر مودی کا یہ نیا دورِ حکومت بھی بھارتی مسلمانوں کیلئے ایک آزمائش کا دور ہے۔ اس وقت جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں‘ بھارتی پارلیمنٹ لوک سبھا میں مسلم اوقاف کا ترمیمی بل پیش کیا جا چکا ہے اور اس پر بحث جاری ہے۔ بی جے پی اپنے حامیوں کے ساتھ اس بل کو ہر قیمت پر پاس کرانے کیلئے تلی بیٹھی ہے۔ جو آثار ہیں‘ ان کے مطابق اپنی عددی برتری سے حکومت یہ بل تمام تر مخالفتوں کے باوجود پاس کرا کر رہے گی۔ چنانچہ جب یہ کالم چھپے گا اس وقت تک وقف ترمیمی بل کا فیصلہ ہو چکا ہوگا۔
ایک مسلم رہنما کے مطابق آزادی کے بعد یہ بل مسلمانوں کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ میں 20 مارچ 2025ء کے کالم ''بھارت۔ مسلمانوں کی ایک نئی آزمائش‘‘ کے عنوان سے اس بل پر بات کر چکا ہوں۔ اُس وقت یہ بل لوک سبھا میں پیش نہیں ہوا تھا۔ اس دوران بھی بل کی حمایت یامخالفت میں کافی سرگرمیاں ہوتی رہیں لیکن رمضان المبارک اور عید کے دنوں میں یہ مسلمانوں کی واحد تکلیف نہیں تھی۔ 14 مارچ کو جمعہ کے دن ہولی کا ہندوانہ تہوار تھا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ جمعہ کے دن ہولی کا تہوار آیا ہو۔ 1947ء کے بعد دس بارہ مرتبہ ایسا ہوا لیکن اس بار بہت سی مسجدوں کو ترپالوں سے ڈھانپنے کا انتظام کیا گیا۔ اس سے پہلے کبھی مسجدوں کو ڈھانپا یا چھپایا نہیں گیا تھا۔ یہ بات مسلمانوں کیلئے تکلیف دہ تھی اور انہیں اس میں تذلیل محسوس ہوئی۔ یہ بات بھی بی جے پی حلقوں کی طرف سے کافی مدت سے اٹھائی جاتی رہی ہے کہ مسلمان عید کی نماز سڑکوں پر پڑھتے ہیں اس لیے ٹریفک میں دشواری پیش آتی ہے۔ مسلمان حلقوں اور خود انصاف پسند ہندوئوں نے اس الزام کو رد کیا تھا اور بہت سے ہندو تہواروں‘ جلوسوں کی نشاندہی کی تھی جن کے دوران سڑکیں مسلسل بلاک رہتی ہیں لیکن خاص طور پر مسلمانوں میں بدنام یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے اس معاملے پر مسلسل بات کی اور مسلمانوں کو تنبیہ کرتے رہے۔ عید کے دنوں میں میرٹھ میں پولیس نے وارننگ جاری کی کہ گھروں کی چھتوں پر‘ سڑکوں پر اور راستوں پر نماز پڑھنے والوں کا ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ منسوخ کر دیا جائے گا۔ شاید ابھی تک ایسا کچھ ہوا نہیں لیکن یہ پہلا قدم ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ اس معاملے کو بھی ایک مسئلہ بنا دیا جائے گا۔
وقف بل کے معاملے میں مسلم جماعتیں باہمی اختلافات کے باوجود یک زبان ہیں۔ ایک بار پھر وقف کے معاملات کو تازہ کر لیجیے۔ اسلام میں وقف ایک مذہبی عطیہ ہے جو مسلمانوں یا کسی مسجد یا درگاہ یا قبرستان یا عطیہ کرنے والے کے گھرانے کی فلاح کیلئے جائیداد کی شکل میں تحفتاً دیا جاتا ہے۔ یہ جائیدادیں نہ فروخت کی جا سکتی ہیں‘ نہ وراثت میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ مساجد‘ مدارس‘ قبرستانوں‘ یتیم خانوں‘ مزارات اور درگاہوں میں ان املاک کی بڑی تعداد استعمال ہوتی ہے۔ بہت سی خالی زمینوں پر تجاوزات بھی قائم ہو چکی ہیں۔ سچر کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف دہلی میں 65 سے زائد وقف املاک پر ناجائز قبضے سرکار کے ہیں۔ پورے بھارت میں سرکاری قبضوں کی تعداد 353 ہے۔ سرکاری مؤقف ہے کہ وقف املاک اور وقف بورڈز میں بڑے پیمانے کی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں۔ مسلم تنظیمیں بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ مانتی ہیں‘ اصلاح کی ضرورت سمجھتی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کی آڑ میں مودی حکومت کی نیت ان زمینوں اور جاگیروں پر قبضے کی ہے۔ حکومت کی نیت یہ ہے کہ اس خالص مذہبی معاملے میں حکومتی افراد اور غیر مسلموں کو بڑی تعداد میں شامل کرایا جائے۔ سب سے زیادہ متنازع بات ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے۔ مجوزہ قوانین میں ''استعمال کے ذریعے وقف‘‘ کا طریقہ موجود ہے‘ جس کے تحت اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات نہ ہونے یا مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ وقف کے استعمال میں رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سینکڑوں سالوں میں مسلمان سلاطین‘ مغلیہ حکومت‘ انگریز دورِ حکومت سے ہوتی آئی ان زمینوں کے کاغذات یا تو ہیں ہی نہیں یا وہ قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئیں کیونکہ ایک زمانے تک قانونی ریکارڈ کے بغیر زمین عطیہ کی جا سکتی تھی۔ بہت سی جائیدادیں ہیں جو نسل درنسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں اور انکے پاس دستاویزات نہیں۔ اب مجوزہ قوانین میں ''استعمال کے ذریعے وقف‘‘ کے طریقے میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ نیز وقف املاک سے متعلق تنازعات اب تک وقف ٹربیونل میں طے ہوتے تھے۔ اب مجوزہ ترامیم کے ذریعے یہ اختیار حکومت کے نامزد افسر کو دینے کی بات کی گئی ہے۔ وقف بورڈ میں غیر مسلم افسران کو شامل کیا جا رہا ہے اور وقف کا غیر مسلم سی ای او مقرر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان تبدیلیوں سے مسلمانوں کی نسل درنسل جائیدادیں بڑی تعداد میں حکومتی اختیار میں چلی جائیں گی۔
مسلمانوں نے کہا ہے کہ مین سٹریم میڈیا فرقہ پرستو ں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈا کو پھیلا رہا ہے کہ ملک میں ملٹری اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمینیں وقف کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آندھرا پردیش اور تامل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اڑیسہ میں مندروں کی املاک مسلم وقف املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے دلائل جو بھی ہوں‘ بی جے پی نے یہ بل لوک سبھا میں پیش کر دیا ہے۔ ایوان میں سیاسی صورتحال یہ ہے کہ بل پاس کرانے کیلئے 272 کی سادہ اکثریت چاہیے‘ بی جے پی کے پاس 240 اپنی سیٹیں ہیں‘ 33 ووٹ اس کے این ڈی اے اتحاد میں شامل مقامی پارٹیوں کے ہیں۔ ان میں بہار اور آندھرا پردیش کی پارٹیاں ہیں۔ بہار میں 17فیصد اور آندھرا پردیش میں 10فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ نتیش کما ر کی جنتا دَل یو‘ چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی‘ چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی اور جنتا دَل سیکولر پارٹی‘ یہ وہ جماعتیں ہیں جو بی جے پی کی اتحادی ہیں۔ اگر یہ بل کے خلاف ووٹ ڈالیں تو وقف بل پاس نہیں ہو سکے گا۔ چونکہ یہ پارٹیاں مسلم ووٹ پر بہت انحصار کرتی ہیں اس لیے مسلمان رہنمائوں نے ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے سربراہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے نائیڈو اور نتیش کمار سے ملاقاتوں کے بعد کہا کہ انہوں نے بل کی مخالفت کا یقین دلایا ہے۔ مسلم رہنمائوں نے‘ جن میں اسد الدین اویسی بھی شامل ہیں‘ متنبہ کیا ہے کہ اگر ان پارٹیوں نے بل کی حمایت کی تو مسلمان انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بہار میں اس سال کے آخر میں انتخابات متوقع ہیں‘ اس لیے ان پارٹیوں کے سیاسی مستقبل کا بھی سوال ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ ملاقاتیں اور تنبیہات بے اثر رہی ہیں اور یہ پارٹیاں وقف ترمیمی بل کی حمایت میں ووٹ ڈالیں گی۔ جو واضح اور مبہم بیانات ان جماعتوں کے آخری مراحل میں سامنے آئے ہیں‘ وہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی امیدیں پوری نہیں ہوں گی۔ اس معاملے میں کانگریس کی اتحادی اپوزیشن ''انڈیا‘‘ نے بل کی مخالفت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بل اقلیتی حقوق پر ڈاکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس لوک سبھا اور راجیہ سبھا‘ دونوں ایوانوں میں وہ اکثریت موجود نہیں جس کی بنیاد پر وہ بل کو روک سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ وقف ترمیمی بل کا خنجر مسلمانوں کے سینے میں داخل ہوکر رہے گا۔ اگر بل منظوری کے بعد مسلمان عدالت میں گئے تو ممکن ہے ریلیف مل جائے لیکن یہ بھی بہرحال امکان ہی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں