"SUC" (space) message & send to 7575

ذرا نصیحتِ ہمسائگاں ملاحظہ ہو

8 اپریل کے اخبارات میں کوئی خبر ایسی خون کھولانے اور دل جلانے والی نہیں ہے جتنی یہ خبر۔ اس خبر سے میری طرح بیشمار لوگوں کے تلووں میں لگی آگ سر تک پہنچی ہو گی۔ جو لوگ اس سے محروم رہ گئے ان کیلئے یہ خبر من وعن پیش ہے:''پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی سے متعلق افغان صدارتی محل ارگ میں اجلاس ہوا ہے۔ اجلاس کابل میں طالبان حکومت کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند کی زیر صدارت ہوا۔ افغان عبوری حکومت کی طرف سے جاری کیے جانیوالے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں افغان مہاجرین کی پاکستان سے ملک بدری کے بارے میں گفتگو کی گئی۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کے معاملے پر پاکستانی قیادت اسلامی اور ہمسائیگی کی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان دہائیوں سے اچھے تعلقات ہیں‘ چاہتے ہیں کہ مذہبی‘ تاریخی اور ثقافتی تعلقات قائم رہیں۔ یہ دونوں ملکوں اور عوام کی ضرورت ہے۔ غلط اقدامات دونوں ملکوں کیلئے نقصان دہ ہیں۔ طالبان قیادت نے اعلامیے میں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔
آپ نے اسلام اور ہمسائیگی کے حقوق ادا کرنے کے پند ونصائح پر مبنی خبر پڑھ لی؟ ملاحظہ کیا کہ کس طرح طالبان قیادت اپنے افغان ہم وطنوں کی پردیس میں بے عزتی اور بے توقیری پر بے چین ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح افغان عبوری حکومت اپنی بردباری ا ور دور اندیشی کی بنا پر یہ سمجھتی ہے کہ غلط اقدامات دونوں ملکوں اور عوام کیلئے نقصان دہ ہیں۔ آپ داد نہیں دیں گے کہ افغان حکومت دہائیوں سے موجود مذہبی‘ تاریخی اور ثقافتی تعلقات کو نہایت اہم سمجھتی ہے اور انہیں بچانا چاہتی ہے۔ جب آپ اس کی داد دے چکیں تو طالبان کے تحمل اور برداشت کی بھی الگ سے داد دیجیے گا کہ اس نے پاکستانی حکومت کو صرف وعظ ونصیحت سے نوازا ہے‘ اپنے ہم وطنوں کی ناقابلِ برداشت بے عزتی پر مشتعل ہو کر کوئی اور قدم نہیں اٹھا لیا۔ بعض خبریں خود اپنے آپ پر تبصرہ ہوتی ہیں۔ ان پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ایسی ہی خبر ہے۔ اس پر کیا بات کروں لیکن اس وقت مجھے ''دہائیوں سے اچھے تعلقات‘‘ کی تاریخ یاد آ رہی ہے۔
افغان وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند! میں آپ کی طرح پند ونصائح کا ماہر تو نہیں ہوں تاہم تاریخ کے چند منظر دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ 1947ء ہے۔ پاکستان ایک نوزائیدہ ملک ہے‘ بھارت سے ابھی الگ ہوا ہے اور اسے ہمسایہ ملکوں سے اچھے تعلقات کی ضرورت ہے۔ طالبان کا افغانستان میں دور دور کہیں نام ونشان نہیں۔ افغانستان ظاہر شاہ کی سربراہی میں ایک بادشاہت ہے۔ واحد ملک جو پاکستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کے خلاف ووٹ دیتا ہے‘ وہ افغانستان ہے۔ وہ نہ اسلامی بھائی چارے کا لحاظ کرتا ہے نہ ہمسائیگی کا‘ نہ ہی مستقبل کے تعلقات کا۔ یہ 1979ء ہے۔ روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو چکی ہیں۔ ہم خیال افغانوں کی حکومت کابل میں قائم کر دی گئی ہے۔ اصولاً افغانستان کی جنگ سے پاکستان کا کچھ لینا دینا نہیں‘ اور اس کے تعلقات روس سے پہلے سے خراب ہیں۔ مزاحمت کار افغانوں کے پاس نہ اسلحہ ہے نہ زمین‘ نہ ہی وسائل۔ چالیس لاکھ کی بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ سارے مزاحمت کرنے والے جنگجو پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہیں یہاں ٹھکانہ‘ رزق‘ ہمدردی اور مدد ملتی ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جو خود بوجھ تلے دبا ہوا اور معاشی تنگدستی کا شکار ہے۔ اسے خود مشرقی ہمسائے سے طرح طرح کے خطرات لاحق ہیں۔ اسے روس کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے لیکن پاکستانی قیادت اسلامی بھائی چارے اور ہمسائیگی کاحق ادا کرتی ہے۔وہ افغانوں کو زمین‘ رزق اور مدد فراہم کرتی ہے۔ کیا صوبہ سرحد (کے پی) اور کیا بلوچستان‘ حتیٰ کہ لاہور اور کراچی میں بھی افغان مہاجرین پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں کاروبار کرتے ہیں‘ جائیدادیں خریدتے ہیں۔ بے شمار وہ ہیں جو جرائم اور اسلحے کی تجارت میں بھی ملوث ہیں۔ ان میں اکثر جھگڑالو‘ بدمعاملہ اور بددیانت ہیں۔ افغان عورتیں اسلام آباد اور پشاور کے بہت سے علاقوں میں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں لیکن باحمیت اور غیرت مند کہلانے والے افغان لیڈروں کو یہ رسوائی اور بے عزتی نظر نہیں آتی۔ 50 سال تک افغان مہاجرین کی کئی نسلیں پاکستان میں پیدا ہوتی‘ تعلیم حاصل کرتی اور یہاںروزگار حاصل کرتی ہیں۔ روس دباؤ ڈالتا اور دھمکاتا ہے لیکن پاکستانی قیادت ڈٹی رہتی ہے۔ یہ 1992ء ہے۔ روس افغانستان سے جا چکا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ جدوجہد سے اسے شکست ہوئی ہے۔ افغانستان اب جنگجو مجاہدین کے قبضے میں ہے۔ نئی حکومت کیلئے پشاور اور اسلام آباد میں مختلف افغان دھڑوں کے بیچ معاہدے کرائے جاتے ہیں۔ تمام افغان رہنماؤں کو خانہ کعبہ میں لے جا کر ان سے حلف لیا جاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ تباہ شدہ افغانستان کو عشروں کی بربادی کے بعد چین اور امن نصیب ہو اور افغان قیادت اپنے ہم وطنوں کو پاکستان اور ایران سے واپس لے جاکر اپنے ملک میں آباد کرے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی اس بے عزتی اور بے توقیری کا خیال کرے‘ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ سب لیڈر اپنے وعدے بھول کر‘ اپنے معاہدے توڑ کر‘ اپنے اقتدار کیلئے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ پرانے مہاجرین تو کیا واپس جاتے‘ افغان خانہ جنگی میں نئے مہاجرین کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔
یہ 1994ء ہے۔ ایک نئے جنگجو گروپ طالبان نے اس خانہ جنگی میں اپنی طاقت منوا لی ہے اور سابقہ رہنماؤں کو بے دخل کرکے اقتدار پر قابض ہوگئے ہیں۔ ان کی سخت گیری کی وجہ سے پوری دنیا میں انہیں پسند نہیں کیا جاتا لیکن پاکستان نے ان سے بہتر تعلقات اور ہمسائیگی کی بنا پر انہیں تسلیم کر لیا ہے۔ بظاہر خانہ جنگی ختم ہو گئی ہے اور اب موقع ہے کہ یہ طالبان بھیک مانگتی عورتوں‘ مہاجر کیمپوں میں رلتے بچوں کا خیال کریں اور انہیں اپنے گھر واپسی کا موقع دیں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ 1994ء سے 2001ء تک کے سات برس میں طالبان کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے ان کے لاکھوں ہم وطن افغانستان واپس آ جائیں۔ انکے ہم وطن مسلسل غریب الوطنی سہنے پر مجبور ہیں۔ یہ 2001ء ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا ہے۔ نیٹو ممالک اس کے ساتھ ہیں۔ طالبان کابل سے فرار ہو چکے ہیں۔ مزاحمت کرنے والوں کے پاس ایک بار پھر جائے پناہ پاکستان ہے۔ وہ ایک بار پھر مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ نئی آزمائش ہے۔ وہ امریکہ اور اتحادیوں سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف وہ افغانوں کی مدد بھی کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے جس میں طالبان کیلئے درپردہ حمایت اور ہمدری موجود ہے۔ طالبان کو پناہ حاصل ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو سفری کاغذات تک فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ پاکستان کیلئے نہایت مشکل وقت ہے۔ ایک طرف بھارت کی حمایت یافتہ کابل حکومت مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہے‘ پاکستان میں دہشتگردی کراتی ہے‘ دوسری طرف امریکہ پاکستان پر دہرے کردار کا الزام لگاتا ہے۔ دنیا بھر میں اور خود پاکستان میں تاثر یہ ہے کہ پاکستان اعلانیہ امریکہ کا اتحادی لیکن درپردہ طالبان کا حامی ہے۔ یہ آسان راستہ نہیں‘ پاکستان اس کی بڑی قیمت ادا کرتا ہے۔ پاکستان کی سڑکیں خون سے رنگی جاتی ہیں اور کوئی شہر خودکش حملہ آوروں سے محفوظ نہیں رہتا۔ پاکستان اپنے مشکل ترین دور سے گزرتا ہے لیکن افغان مہاجرین اور طالبان رہنماؤں کو محفوظ رکھتا ہے۔ جناب ملا محمد حسن اخوند صاحب! ممکن ہے آپ خود بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو اُس وقت پاکستان میں اسلام اور ہمسائیگی کے حقوق کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں