ملتان سے کراچی براستہ لاہور جانے کیلئے خانیوال انٹر چینج (شام کوٹ) سے موٹروے پر سفر شروع کیا تو حسبِ معمول ڈرائیونگ کے دوران سڑک کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں لگی فصلات پر نظر دوڑانی شروع کی۔ خانیوال سے لے کر لاہور تک سڑک کے دونوں طرف دور دور تک گندم کا سونا بکھرا ہوا تھا۔ پکی ہوئی گندم کے سنہری خوشے اور بالیاں ہوا میں لہرا رہی تھیں۔ چند روز گزرتے ہیں اور گندم کی کٹائی شروع ہو جائے گی۔ تیرہ اپریل کو یکم بیساکھ ہو گی۔ اس علاقے میں صدیوں سے بیساکھ گندم کی کٹائی شروع ہونے کا موسم ہے۔ یعنی روایتی کیلنڈر کو سامنے رکھیں تو اَب کٹائی شروع ہونے میں بس چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ گزشتہ سال گندم کے کاشتکار کے ساتھ جو ہوئی ہے اس کے باوجود اگر اس سال بھی کاشتکار نے گندم کاشت کی ہے تو اس کی ترجیح یا انتخاب نہیں‘ مجبوری ہے۔ موسموں کے حوالے سے اس علاقے کا کاشتکار صدیوں سے مخصوص فصلات کاشت کر رہا ہے اور کسی نئی فصل کی جانب قدم بڑھانے میں ناتجربہ کاری کا خوف مانع ہے۔ دوسری وجہ اس کی گھر کی ضرورت کی گندم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر بار کی طرح اس بار وہ پھر پُرامید تھا کہ اس سال حالات بہتر ہو جائیں گے۔ خدا کرے میرا اندازہ غلط ثابت ہو مگر حالات بتا رہے ہیں کہ یہ گزشتہ سال سے بھی زیادہ خراب ہوں گے اور کاشتکار جو گزشتہ دو سال سے مسلسل ذلیل و خوار ہو رہا ہے‘ یہ سیزن اس کی کمر پر کہیں آخری تنکا ثابت نہ ہو۔
پیر محل سے تھوڑا آگے گیا تو سڑک کے ساتھ سائیڈ پر جنگلے والا خالی چبوترا تھا۔ یہاں عموماً موٹروے پولیس کی کوئی گاڑی کھڑی ہوتی ہے مگر اس وقت یہ چبوترا خالی تھا۔ میں نے گاڑی ادھر روک لی اور باہر نکل کر کھلی ہوا میں سانس لیا۔ عجب سی خوشبو تھی جس میں مٹی کی باس اور سبزے کی مہک ملی ہوئی تھی۔ تاحد نظر گندم کی پکی ہوئی فصل لہلہا رہی تھی۔ فصلوں کے رنگ بھی نرالے ہیں۔ کسی کسی کھیت میں ابھی کہیں کہیں سبز رنگ بھی جھلک رہا تھا مگر آٹے میں نمک کی طرح۔ زیادہ تر‘ بلکہ تقریباً ساری فصل سورج میں سونے کی مانند چمک رہی تھی۔ ممکن ہے اگلی بار گزروں تو یہاں ہارویسٹر اور تھریشر چل رہے ہوں۔ چند ماہ قبل اس سڑک کے کنارے سرسوں کا پیلا رنگ اپنی چھب دکھا رہا تھا اور اب گندم پیلی پڑی ہوئی تھی مگر دونوں پیلے رنگوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دل تو کرتا تھا کہ چند روز بعد گندم اور اس کے کاشتکار کے ساتھ جو ہونے والا ہے اس پر روشنی ڈالوں مگر اس کیلئے جس محنت‘ تردد اور عرق ریزی کی ضرورت ہے طبیعت فی الحال اس پر نہ تو مائل ہے اور نہ ہی قلم اٹھانے کی ہمت ہو رہی ہے۔ ان شاء اللہ اس پر ایک دو روز کے بعد خامہ فرسائی کروں گا۔ اس وقت تو کسی اور معاملے پر دل اَٹکا ہوا ہے۔
کراچی میں برادرِ عزیز رستم لغاری کے بیٹے عمر فاروق لغاری کا ولیمہ تھا اور جانا ضروری تھا مگر اس طرح کہ اس کے آگے پیچھے کی دونوں تاریخوں میں میرا ملتان ہونا بھی بہت ضروری تھا۔ ایک روز آسٹریلیا والی بیٹی نے میلبورن روانہ ہونا تھا اور تیسرے دن اسد نے لندن جانا تھا۔ سب کچھ انہی درمیانی دو دنوں میں کرنا تھا اور ملتان سے کراچی کیلئے ان دو دنوں میں کوئی فلائٹ نہیں تھی۔ کیا زمانہ تھا جب ہمارے حالات اس نہج پر نہیں پہنچے تھے اور پاکستان بھر میں ڈیڑھ دو درجن ہوائی اڈے فعال تھے اور ہوائی سروس اپنی بہترین شکل میں موجود تھی۔ ملتان سے کراچی کیلئے روزانہ دو عدد پروازیں تھیں بلکہ کسی دن تو تین پروازیں تک ہوتی تھیں۔ ایک پرواز صبح اور ایک شام کو آتی اور جاتی تھی۔ یہی حال لاہور اور اسلام آباد کا تھا۔ ایک پرواز صبح اسلام آباد سے براستہ لاہور ملتان آتی اور واپس جاتی تھی جبکہ دوسری پرواز شام کو اسی طرح آتی اور واپس جاتی تھی۔
ہفتے میں تین پروازیں ایسی ہوتی تھیں جو اسلام آباد سے ملتان براستہ پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوب آتی اور جاتی تھیں۔ ہفتہ میں دو پروازیں ملتان تا کوئٹہ براستہ ژوب چلتی تھیں۔ ڈیرہ غازی خان ایئر پورٹ بھی برا بھلا چل رہا تھا۔ بہاولپور ایئر پورٹ بھی فعال تھا اور رحیم یار خان ایئر پورٹ بھی لاہور اور کراچی کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ رحیم یار خان ایئر پورٹ بند ہے۔ بہاولپور ایئر پورٹ ویران پڑا ہے۔ ڈیڑہ غازی خان ایئر پورٹ کو تالا لگ چکا ہے اور ملتان ایئر پورٹ سے لاہور کی پروازیں ختم ہوئے دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ اب خیر سے اسلام آباد سیکٹر بھی مکمل بند ہے اور لوکل پروازوں کیلئے صرف کراچی کیلئے ہفتے میں دو پروازیں چلتی ہیں۔ خدا جانے یہ دو پروازیں بھی کب بند ہو جائیں۔
درج بالا ہوائی اڈے وہ ہیں جو ملتان سے جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے ہیں‘ وگرنہ ڈیڑھ درجن ہوائی اڈے ہیں جو عملی طور پر بند ہو چکے ہیں۔ جیکب آباد‘ بنوں‘ پارا چنار‘ میانوالی‘ ژوب‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ حیدر آباد‘ موہنجو دڑو‘ راولا کوٹ‘ مظفر آباد‘ سبی‘ سندھڑی اور مانسہرہ وغیرہ کے ایئر پورٹ بند ہو چکے ہیں اور گزشتہ دنوں خبر پڑھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیرصدارت پنجاب کابینہ نے بھکر اور بہاولنگر میں نئے ایئر پورٹ بنانے کی منظوری دی ہے۔ آپ یقین کریں اس لطیفے پر میرا تو ''ہاسا‘‘ نکل گیا۔
اس قسم کے سیاسی فیصلوں کو سن کر مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔ میرا خیال ہے میں یہ لطیفہ پہلے بھی اپنے کسی کالم میں لکھ چکا ہوں مگر حالات ویسے ہی ہوں تو لطیفہ کبھی پرانا نہیں ہوتا اور دوبارہ‘ سہ بارہ بھی چل جاتا ہے۔ کسی گاؤں میں ایک تھیٹر آیا ہوا تھا۔ اس تھیٹر میں ایک گلوکار نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ جب اس کی باری آئی تو اس نے ''ٹانگے والا خیر منگدا‘‘ گانا شروع کیا۔ جب اس نے گانا ختم کیا تو مجمع میں سے ایک دیہاتی اٹھا اور اس گلوکار سے یہی گانا دوبارہ سنانے کی فرمائش کی۔ گلوکار خوشی سے پھولے نہ سمایا کہ اس کا گانا اتنا پسند کیا گیا ہے۔ اس نے خوشدلی سے یہی گانا دوبارہ سنایا۔ ابھی اس نے گانا ختم ہی کیا تھا کہ اسی دیہاتی نے تیسری بار اسی گانے کو سنانے کی فرمائش کردی۔ بادل نخواستہ گلوکار نے یہی گانا تیسری بار سنا دیا‘ مگر اسی دیہاتی نے جب تیسری بار فرمائش کرکے گانا چوتھی بار سنانے کا کہا تو گلوکار روہانسا ہو کر کہنے لگا کہ اس نے اور بھی کئی گانے تیار کیے ہیں وہ بھی سن لیے جائیں۔ وہ دیہاتی کہنے لگا: باقی گانیاں نوں گولی مار‘ پہلے ایہہ والا تے ٹھیک طراں گا کے وخا‘ فیر باقی والے وی سن لواں گے۔ یعنی باقی گانوں کو گولی مارو‘ پہلے یہ گانا تو ٹھیک طرح سے گا کر سناؤ‘ باقی والے بعد میں سن لیں گے۔ تو عرض ہے کہ پہلے آپ بند شدہ ایئر پورٹ تو چلا کر دکھا دیں‘ نئے ایئر پورٹس بعد میں دیکھ لیں گے۔
گزشتہ دو سال سے یہ عالم ہے کہ کراچی جانے کیلئے پہلے لاہور جاتا ہوں اور پھر وہاں سے کراچی کی پرواز لیتا ہوں اور اسی روٹ سے واپس ملتان آتا ہوں۔ ملتان جیسے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر کا یہ عالم ہے کہ یہاں سے اندرونِ ملک کیلئے سارے ہفتے میں صرف کراچی کیلئے دو پروازیں ہیں جبکہ کسی اور شہر کیلئے کوئی پرواز نہیں۔ ملتان ایئر پورٹ پوری طرح چل نہیں رہا۔ بہاولپور‘ رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان ایئر پورٹ مکمل طور پر بند پڑے ہیں اور پنجاب حکومت بھکر اور بہاولنگر میں ایئر پورٹ منظور کرتی پھر رہی ہے۔
کسی نے پوچھا کہ ہالی وُڈ کے اداکار اور اداکارائیں شادی کیوں کرتے ہیں؟ ستم ظریف نے جواب دیا کہ طلاق دینے کیلئے بہرحال پہلے شادی کرنا از حد ضروری ہے۔ اس تناظر میں پوچھا کہ سرکار نئے ایئرپورٹ کس لیے بنانا چاہ رہی ہے ؟ جواب ملا ایئر پورٹ کو بند کرنے سے پہلے اسے بنانا بہرحال ضروری ہوتا ہے۔ سرکار جتنے ایئر پورٹ بند کر سکتی تھی وہ پہلے ہی کر چکی ہے‘ اب کسی اور ایئر پورٹ کو بند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی تعمیر کی جائے بھلا کسی ناموجود ایئر پورٹ کو کیسے بندکیا جا سکتا ہے؟