"KMK" (space) message & send to 7575

گندم کی حالیہ فصل‘ ریٹ اور ذخیرہ اندوزی

گزشتہ چند روز سے مسلسل سفر کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ اس دوران گندم کی فصل کے پکنے کا مرحلہ درجہ بہ درجہ دیکھا۔ گندم کی فصل کو سبزی مائل پیلے رنگ سے مکمل سنہرا ہوتے دیکھا اور گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتان آتے ہوئے اس کی کٹائی دیکھی۔ فتح پور کے قریب گندم سے لدی ٹرالیوں کو منڈی کی طرف رواں دواں دیکھا۔ چوک اعظم کے پاس سڑک کے کنارے گندم کے ڈھیر دیکھے۔ چوک سرور شہید کے آس پاس بھوسے کے ڈھیر اور انہیں پریس کر کے گانٹھیں بنانے کا نظارہ کیا۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی گرمی میں کھیتوں میں گندم کی کٹائی میں مصروف کاشتکار دیکھے۔ ہوا میں بھوسہ اڑاتے ہوئے تھریشر چلتے دیکھے اور دو چار کمبائنڈ ہارویسٹر دیکھے جو کسی فصل کی کٹائی‘ چھڑائی اور صفائی کے لیے اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں تھے۔ پاکستان کی سب سے بڑی فصل پکنے کے بعد اپنے آخری مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ خدا نہ کرے میرا اندازہ درست ثابت ہو مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ سال گندم کے کاشتکار کے لیے گزشتہ سال سے بھی زیادہ بُرا ثابت ہوگا۔ اس ملک کا کاشتکار گزشتہ دو سال سے مسلسل خسارے اور نقصان کا شکار ہے۔ یہ والی بربادی اس کیلئے مزید کمر توڑ ثابت ہوگی اور مجھے لگتا ہے کہ ہمارا کاشتکار شاید اگلی فصل کی کاشت کا خرچہ برداشت کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس اہم مسئلے پر کوئی بھی مثبت قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مفت ٹریکٹر اور اسی قسم کی رنگین شعبدہ بازیوں کا حقیقی مسائل سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب کاشتکار کے پاس فصل کاشت کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے‘ زرعی مداخل کی خرید کی استطاعت نہیں ہوگی‘ کھاد اور بیج کے لیے رقم ہی نہیں ہوگی تو وہ مفت کے ٹریکٹر کو سر میں مارے گا؟ جب اس کے پاس ٹریکٹر میں ڈلوانے کے لیے ڈیزل کا خرچہ نہیں ہوگا تو بھلا وہ پانی سے ٹریکٹر چلائے گا؟ اور پانی سے یاد آیا اس کے پاس کھیت اور فصل کے لیے پانی کی رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہوگی تو بھلا وہ پانی بھی کیسے خریدے گا؟
اگر ہم گندم کی فصل کی کاشت سے لے کر کٹائی سے پہلے تک کے خرچے کی تفصیل دیکھیں تو وہ اس طرح ہے: زمین کی تیاری 3200روپے۔ بیج 50کلو گرام فی ایکڑ 6500روپے۔ بیج کی ٹریٹمنٹ 500روپے۔ کھاد ڈی اے پی ڈیڑھ بوری‘ پوٹاش ایک بوری اور یوریا دو بوری کی حالیہ مارکیٹ قیمت 41050 روپے۔ زنک دو کلو 1250 روپے۔ ہربی سائڈ سپرے 3000روپے۔ پانی چار عدد بحساب چھ گھنٹے فی ایکڑ 16000روپے۔ ہارویسٹر 4000روپے فی ایکڑ۔ یہ سارا خرچہ ملائیں تو فی ایکڑ لاگت 75500روپے بنتی ہے۔ ابھی اس میں زمین کے ٹھیکے کی رقم شامل نہیں اور نہ ہی مزدوری شامل ہے۔
اب اس لاگت کا آمدنی سے موازنہ کرنے سے پہلے گندم کی ملکی فصل کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا شماریاتی حساب کتاب ہمیشہ سے مشکوک ہی نہیں بلکہ ناقابلِ اعتبار رہا ہے۔ نہ ہمیں آج تک اس ملک کی حقیقی آبادی کا علم ہوا ہے اور نہ ہی گندم کی ملکی ضرورت کا صحیح ادراک ہو سکا ہے۔ آبادی کا یہ عالم ہے کہ سرکار کی طرف مردم شماری کے نتائج کا اعلان ہی اتنی تاخیر سے ہوتا ہے کہ اس دوران آبادی بڑھانے کے کام میں ہمہ تن مصروف یہ قوم آبادی میں مزید ایک آدھ کروڑ کا اضافہ کر چکی ہوتی ہے۔ نہ آبادی کا صحیح علم ہے اور نہ ہی اس حوالے سے گندم کی ملکی ضرورت کے درست اعداد و شمار کبھی طے ہو سکے ہیں۔ اوپر سے گندم کا معاملہ ایسا ہے کہ ملکی پیداوار میں سے سمگلنگ اور پھر درآمد کے ہیر پھیر نے یہ بھی طے نہیں ہونے دیا کہ ہماری حقیقی ضرورت کتنی ہے۔ تاہم گزشتہ سال جنوری‘ فروری میں چار‘ پانچ ملین ٹن درآمدی گندم کو ملکی گندم کی فصل آنے سے قبل کا استعمال تصور کر لیں تو گزشتہ سال 33 ملین ٹن کی ملکی پیداوار اس سال گندم کی فصل آنے تک ہماری ملکی ضرورت کے لیے کافی رہی ہے۔ اس کو پیمانہ بنا لیں تو ہماری سالانہ ملکی گندم کی کھپت 33 ملین ٹن ہے۔ اس سال گزشتہ سال کی نسبت دس لا کھ ایکڑ کے لگ بھگ گندم کا کاشتہ رقبہ بھی کم ہے اور ایک دو من کے لگ بھگ فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہے اور اس کی وجہ بارانی علاقوں میں بارشوں اور نہری علاقوں میں پانی کی کمی ہے۔ پنجاب میں راولپنڈی ڈویژن بارانی اور سندھ میں نہری پانی کی کمی سے گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ سندھ والے نہروں کے مسئلے پر درست شور مچا رہے ہیں۔ سندھ میں زیر زمین پانی کڑوا ہے اور ان کی زراعت کا سارا دارو مدار نہری پانی پر ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع اور ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے۔
اس سال ابھی سندھ کی اور پنجاب کے صحرائی‘ ریتلے اور گرم علاقوں کی فصل کٹ رہی ہے۔ سندھ میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 35من یا اس سے کم آئی ہے اور یہ 22سو روپے فی من تک فروخت ہوئی ہے‘ یعنی فی ایکڑ گندم کی آمدنی مبلغ ستتر ہزار روپے رہی ہے۔ اب اس آمدنی کا اخراجات سے موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کاشتکار کو مبلغ ایک ہزار پانچ سو روپے فی ایکڑ کی ''خطیر‘‘ رقم کا منافع ہوا ہے۔
پنجاب میں ابھی تک چولستان اور ضلع بھکر‘ لیہ اور مظفر گڑھ کے تھل کے صحرائی علاقہ کی فصل کٹ کر مارکیٹ میں آئی ہے اور ادھر فی الحال مارکیٹ میں گندم کا ریٹ 2350 روپے فی من تک ہے‘ یعنی فی الوقت ان علاقوں کے کاشتکاروں کو فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ 82250روپے ملے یعنی فی ایکڑ کل ''منافع‘‘ مبلغ 6750 روپے ہے۔ اس میں زمین کا ٹھیکہ اور کھیت مزدور کا خرچہ شامل نہیں۔ ہم پہلے ہی یہ تصور کر چکے ہیں کہ یہ سارا خرچہ ان بنیادوں پر لگایا گیا ہے کہ کاشتکار اپنی زمین خود اپنے خاندان کی مدد سے کاشت کر رہا ہے اس لیے اسے ٹھیکے یا مزدوری کی مد میں کچھ ادا نہیں کرتا۔
اب آ جائیں ان کی طرف جنہوں نے زمین ٹھیکے پر لے کر گندم کاشت کی تھی۔ ا س وقت اچھی زمین کا ٹھیکہ کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے فی ایکڑ ہے۔ گزشتہ سال ٹھیکے کی رقم اس سے کہیں زیادہ تھی مگر گندم اور دیگر فصلات میں ہونے والے گھاٹے کے باعث ٹھیکے کی رقم نیچے آ گئی ہے۔ اس حساب سے اس پانچ ماہ کی فصل کو ڈیڑھ لاکھ پر تقسیم کریں تو صرف گندم کی فصل کے وقت کا ٹھیکہ مبلغ 62500 روپے بنتا ہے۔ یعنی اگر کسی نے زمین ٹھیکے پر لے کر کاشت کی ہے تو اسے اس سال گندم کی فصل میں مبلغ چھپن ہزار روپے پلے سے ڈالنے پڑیں گے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس نے دس ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے کر کاشت کی تھی اسے پانچ ماہ کی محنت‘ مشقت اور خرچے کے بعد نفع کے بجائے مبلغ 5 لاکھ 60ہزار روپے پلے سے ڈالنے پڑ جائیں گے۔ اب وہ اس کے بعد اگلی فصل کیسے کاشت کرے گا؟ اس ملک کا کاشتکار گزشتہ دو سال سے مسلسل اسی طرح کی صورتحال کا شکار ہے۔
کاشتکار ویسے ہی اپنی فصل سٹور نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس نہ سٹوریج کی سہولت ہے اور نہ ہی وہ معاشی طور پر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اپنی تازہ فصل فروخت کیے بغیر اگلی فصل کاشت کر سکے کہ اس نے پہلے ہی بہت ساری چیزیں ادھار لے کر استعمال کی ہوتی ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2300روپے فی من کے لگ بھگ ہے اور کاشتکار اسی قیمت پر گندم فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ ہاں البتہ انویسٹر‘ ذخیرہ اندوز اور مل مالکان اس سال لمبا نفع کمائیں گے۔ گندم کا ریٹ ایک دو ماہ تک 3400 روپے تک پہنچ جائے گا مگر کاشتکار اس وقت تک ''رُل‘‘ چکا ہوگا۔ فلور ملوں نے بینکوں سے اس سال اپنی لمٹ میں سو فیصد تک اضافہ کروا لیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی اس ملک کا سب کا منافع بخش کاروبار ہے۔
اس کالم میں مدد کے لیے میں نے شوکت گجر میرا مطلب ہے شوکت علی کو دو بار نیند سے اٹھایا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں