پاک بھارت کشیدگی اور معاشی اثرات

پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر کشیدگی کا بڑھ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کئی ایسے مواقع آئے جب یہ احساس شدت اختیار کر گیا کہ شاید اس تنازع کے حل کا وقت آ گیا ہے لیکن آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ جب ایٹمی طاقت کے حامل دو ہمسایے ہر وقت لڑنے کی منصوبہ بندی کرتے رہیں گے تو معاشی ترقی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔ یورپ کئی سالوں کی جنگ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ معاشی ترقی کے لیے سرحدوں پر امن ضروری ہے۔ آج یورپ ایک اوپن اکانومی ہے‘ بارڈر کھلے ہیں اور معاشی ترقی عروج پر ہے۔ بھارت اور پاکستان کو یورپ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بارڈر پر آئے روز تناؤ کی کیفیت ہو گی تو ترقی کی منازل طے نہیں ہو سکتیں۔ بظاہر پاکستان اس صورتحال سے متاثر دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف سیاسی نظام مضبوط نہیں اور دوسری طرف ہر وقت بارڈر پر تناؤ بڑھنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ معاشی ترقی میں رکاوٹ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان دشمن کو چاروں شانے چت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دفاعی میدان میں پاکستان بھارت کی نسبت زیادہ مضبوط ہے اور کلبھوشن یادیو اور ابھینندن کی صورت میں اس کا مظاہرہ پوری دنیا کے سامنے کیا جا چکا ہے اور عالمی طاقتوں کا ماننا ہے کہ اگر آج بھی ضرورت پڑی تو پاکستانی افواج بھارت کو پچھاڑ کر اپنے مضبوط دفاع کو ایک مرتبہ پھر ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن جب تک صورتحال نارمل نہیں ہوتی‘ دونوں اطراف سے معاشی نقصان بڑھنے کے خدشات ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کی تجارت پر نظر ڈالیں تو اس کی بندش کا نقصان بھارت کو زیادہ ہو سکتا ہے۔ رسمی تجارت 2019ء میں پلوامہ واقعے کے بعد سے بند ہے۔ صرف چند ادویات کا خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ غیر رسمی تجارت متحدہ عرب امارات کے ذریعے کی جاتی تھی جو سالانہ تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ رہی۔ بھارت تقریباً پونے دو ارب ڈالر کی برآمدات پاکستان کو کرتا ہے جن میں ادویات اور ان کا خام مال سرفہرست ہے۔ پاکستان تقریباً چالیس کروڑ ڈالر کا نمک اور سیمنٹ وغیرہ بھارت بھجواتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ غیر رسمی تجارت شاید مکمل طور پر بند نہ ہو سکے۔ یہ مال میڈ اِن انڈیا کی مہر کے بغیر آتا ہے اس لیے اسے روکنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن واہگہ بارڈر بند ہونے سے افغانستان کو نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان کی بھارت سے تجارت براستہ واہگہ بارڈر ہوتی ہے۔ افغانستان کا تقریباً تمام ٹرانزٹ کارگو طورخم‘ غلام خان‘ خرلاچی اور چمن سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور پھر واہگہ کے راستے بھارت جاتا ہے۔ ورلڈ بینک کے 2024ء کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان کے تجارتی شراکت داروں میں بھارت سرفہرست رہا ہے اور دو طرفہ درآمدات وبرآمدات کے مجموعی حجم کا 47 فیصد بھارت کے ساتھ اور 34 فیصد پاکستان کے ساتھ ہے۔ یعنی افغانستان کی تقریباً آدھی تجارت بھارت کے ساتھ ہے۔ ایسی صورتحال میں پاک بھارت کشیدگی کا زیادہ نقصان افغانستان اور بھارت کو ہو سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے معاملے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اس معاملے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی میں پاکستان کا پانی فوری بند کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان کا پانی روکنے کے لیے دریائے چناب‘ جہلم اور سندھ پر ڈیمز ہونے چاہئیں‘ جو اس وقت بھارت کے پاس نہیں ہیں اور ڈیم بنانے کے لیے تقریباً 25 ارب ڈالر اور 15 سال چاہئیں۔ دریائے سندھ چین سے بھارت اور پھر پاکستان میں بہتا ہے۔ اگر بھارت بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو چین کے لیے بھی بھارتی پانی بند کرنے کا جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ بھارت کے لیے دریائے سندھ کے راستے میں ڈیم بنانا آسان نہیں۔ اس پہاڑی سلسلے میں بہت زیادہ زلزلے آتے ہیں‘ ایک یا دو زلزلوں سے ڈیم ٹوٹنے سے بھارت میں سیلاب آنے کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ ان دریاؤں پر بھارت کے پاس ایسا انفراسٹرکچر نہیں کہ پانی کو مکمل روک سکے‘ البتہ بھارت دریائے ستلج‘ بیاس اور راوی میں اضافی پانی چھوڑ سکتا ہے جس سے پاکستان میں سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور فصلیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ 70 فیصد برآمدات زراعت سے جڑی ہیں‘ اگر حالات کئی ماہ تک کشیدہ رہے تو پاکستانی زرعی برآمدات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان نہ صرف زمینی بلکہ فضائی راستوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت سے اُڑنے والی پروازوں کو مڈل ایسٹ‘ یورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ اور جنوبی ایشیائی ممالک جانے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اگر پاکستان کی فضائی حدود بند ہو جائے تو بھارت کو متبادل فضائی راستے استعمال کرنا پڑیں گے اور وہ راستے قدرے طویل اور مہنگے ہیں۔ 2019ء میں پاکستان نے بھارت کے لیے تقریباً پانچ ماہ تک فضائی حدود بند رکھی تھی جس سے بھارت کو تقریباً 80 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا تھا اور پاکستان کو ایئرلائن چارجز نہ ملنے کی وجہ سے تقریباً 100ملین ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان کو زیادہ نقصان اس لیے ہوا تھا کیونکہ پاکستان نے تمام ممالک کی ایئر لائنز پر انڈیا کے لیے پابندی لگا دی تھی‘ لیکن اس مرتبہ صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگائی گئی ہے جس سے پاکستان کا نقصان بہت کم ہونے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے مختلف ایئر لائنز ماہرین سے میری گفتگو ہوئی ہے‘ ایک اندازے کے مطابق اگر جہاز ایک گھنٹہ پرواز کرے تو تقریباً پانچ سے سات ہزار ڈالرز کا فیول خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے سے دہلی سے متحدہ عرب امارت جانے والی فلائٹ پہلے ممبئی جائے گی اور وہاں سے بحیرہ عرب سے ہوتی ہوئی اپنا روٹ لے گی جو تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے اضافی پرواز ہے۔ اس طرح ایک فلائٹ سے بھارت کو تقریباً 10ہزار ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ تقریباً 80 سے 100 فلائٹس اوسطاً ہر روز پاکستان سے گزرتی ہیں۔ اس حساب سے اوسطاً 10 لاکھ ڈالرز کا روزانہ نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر ایک ماہ تک پابندی رہتی ہے تو تقریباً تین کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کو ایک فلائٹ کا تقریباً ایک ہزار ڈالرز تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔ روزانہ کا نقصان ایک لاکھ ڈالرز اور ایک ماہ کا نقصان تقریباً 30 لاکھ ڈالرز تک ہو سکتا ہے۔ انڈیا کا نقصان پاکستان سے تقریباً نو گنا زیادہ ہے۔ انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگی ہے‘ دیگر ممالک کی ایئر لائنز خصوصاً گلف ایئر لائنز کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے انڈین ایئر لائنز کا نقصان مزید بڑھ سکتا ہے اور گلف ایئر لائنز زیادہ منافع کما سکتی ہیں۔ انڈیا میں ایئر لائنز لابی بہت مضبوط ہے۔ مودی سرکار شاید زیادہ دیر تک یہ دباؤ برداشت نہ کر پائے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی ملک کے لیے اپنی ایئر سپیس کو بند کرنا جرم ہے۔ صرف جنگی حالات میں ایئر سپیس بند کی جا سکتی ہے‘ وہ بھی تمام ممالک کے لیے کرنا ہوتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تناؤ جاری رہتا ہے اور وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اس لیے پاکستان بھی ان کے لیے ایئر سپیس بند کرتا رہتا ہے۔ بھارت اسے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں چیلنج کرنے کے حوالے سے محتاط دکھائی دیتا ہے کیونکہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا کیس زیادہ مضبوط لگتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں