چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں بہت سے بے گناہ لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا‘ جس پر ردعمل دیتے ہوئے بھارتی میڈیا نے بغیر کسی تحقیق کے فی الفور پاکستان اور اسلام پسندوں پر الزام لگا دیا کہ اس واقعہ کی پلاننگ پاکستان میں کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کے خلاف بھی پروپیگنڈا کیا گیا اور دینِ اسلام کو دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی گئی جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے کبھی بھی کسی بے گناہ شخص کو قتل کرنے کی حمایت نہیں کی بلکہ ہمیشہ انسانی جان کے تحفظ اور اس کی حرمت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے سورۃ المائدہ کی آیت: 32 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کر دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو‘ قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا‘ اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے‘ اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول واضح احکام لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں ظلم وزیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے‘‘۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر کم وبیش ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ اپنے مکمل دورِ اقتدار میں کبھی بھی انہوں نے مذہبی بنیادوں پر غیر مسلموں کا استحصال نہیں کیا۔ دینِ اسلام میں دورانِ جنگ بھی عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جو دین جنگ کے دوران اس قدر احتیاط کا سبق دیتا ہو‘ اس کے تانے بانے دہشت گردی سے کیسے جوڑے جا سکتے ہیں؟
پہلگام واقعے کے حوالے سے اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں جہاں ہندو سیاح ہلاک ہوئے وہیں جاں بحق ہونے والوں میں ایک مسلمان بھی شامل تھا‘ جو مقامی کشمیری تھا۔ چنانچہ اندھا دھند فائرنگ کے اس واقعے کی نسبت اسلام اور پاکستان سے کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے مقامات پر بہت سے متشدد لوگ ایسی پُرتشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں جن کو اخلاقیات اور دین کی روشنی میں کسی بھی طور پر درست نہیں کہا جا سکتا‘ تاہم دہشت گردی پر مبنی ان واقعات کے پس منظر میں کئی مرتبہ لسانی‘ قومی اور علاقائی تعصبات کارفرما ہوتے ہیں۔ اگر ہر واقعے کو دین اور مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات ہر اعتبار سے افسوسناک ہو گی۔ بھارتی میڈیا نے اس موقع پر پاکستان کے خلاف کھل کر پروپیگنڈا کیا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ پاکستان اور اسلام پسند دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں۔ بھارت کا یہ پروپیگنڈا کسی بھی طور پر حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا‘ اس لیے کہ بھارت خود گزشتہ 75 سال سے کشمیر کی وادی میں انسانی حقوق کی پامالی میں مصروف ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی ہے۔ کاروبارِ زندگی کو بالعموم معطل رکھا جاتا ہے۔ بہت سے سیاسی اور مذہبی رہنما برسوں سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ آئے روز کے کریک ڈائون اور پکڑ دھکڑ کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر خوف وہراس کی لپیٹ میں رہتا ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کی جانے والی سنگین نوعیت کی خلاف ورزیوں پر بھارت نے کبھی بھی کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی پُرتشدد اور انسانیت سوز کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی ریاست پر سکھ رہنمائوں کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے کئی مرتبہ سکھ اپنے بیانیے کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کرتے رہتے ہیں‘ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس حوالے سے کبھی بھی بھارتی حکومت مدلل انداز میں اپنی صفائی نہیں دے سکی۔ ستم کی بات یہ ہے کہ پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف جارحیت اور سرجیکل سٹرائیکس کے مشورے دیے گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بھی بھارت اس قسم کی کارروائیوں کی ناکام کوششیں کر چکا ہے لیکن اس کو ہمیشہ ہزیمت ہی کا سامنا کرنا پڑا۔ فروری 2019ء میں ایک ناکام حملے کے دوران انڈین ایئر فورس کے ایک پائلٹ کو گرفتار بھی کیا گیا تھا اور بھارت کی عسکری حوالے سے ناکامی پوری دنیا پر واضح ہوئی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کی پشت پناہ نہ کوئی ریاست تھی اور نہ کوئی حکومت۔ انگریزوں اور ہندوئوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے ایسی منظم تحریک چلائی جس نے ہندوستان کے نقشے کو مکمل تبدیل کر دیا۔ بھارتی ریاست اور حکومت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان ایک آزاداور خودمختار ریاست ہے‘ اگر اس خودمختار ریاست کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کی کوشش کی گئی تو بھارت کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ بھارت میںمقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھی بہت سے مقامات پر علیحدگی کی تحریکیں بڑے زور وشور سے جاری ہیں اور بھارت نے ان تحریکوں پر ہمیشہ ریاستی جبر اور تسلط کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ اگر موجودہ حالات میں پاکستان کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کے نتائج بھارت کے لیے کسی بھی طور پر مثبت نہیں ہوں گے۔ ریاستِ پاکستان کے ساتھ ٹکرائو کے نتیجے میں علیحدگی پسند اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے بھارت میں بھرپور وسائل اور تنظیم کا مظاہرہ کریں گے۔ ماضی میں بھارت نے بنگلہ دیش میں بھی اپنے اثر ورسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے حسینہ واجدکی پشت پناہی کی اور بہت سے دینی طبقات خصوصاً جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو حکومت کی جانب سے شدید ابتلائوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود بھارت اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا اور بالآخر پاکستان اور اسلام کی مخالفت کرنے والی حسینہ واجد بھارت کی مکمل سرپرستی کے باوجود اقتدار سے محروم ہو گئی اور اس کو اپنے ملک سے بھی فرار ہونا پڑا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں دو قومی نظریے‘ اسلام اور پاکستان کے حامی بکثرت نظر آ رہے ہیں اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جبر اور تسلط سے قوم کی آرا کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کے تمام سیاسی اور مذہبی طبقات نے بھارتی میڈیا کے جارحانہ پروپیگنڈے کو رد کرتے ہوئے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ریاست اور افواجِ پاکستان کو مختلف پلیٹ فارمز سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر بھارت نے کسی بھی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ مسلمانوں کی اپنے دشمنوں کے خلاف کامیاب جنگیں لڑنے کی لمبی تاریخ ہے۔ بدر‘ خندق اور تبوک کے معرکوں میں اسلام کے مخالفوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ اسی طرح فارس اور روم کے محاذوں پر بھی مسلمانوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی طاقتوں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ برصغیر کی تاریخ میں بھی غزنوی اور غوری نے ہندوئوں کے بڑے بڑے سورمائوں کے دانت کھٹے کر دیے۔ 6 ستمبر 1965ء کو انڈیا نے بدمست ہاتھی کی طرح پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی افواج اور پاکستانی قوم نے بھرپور طریقے سے دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ وطن کے دفاع کے لیے پوری پاکستانی قوم‘ مذہبی اور سیاسی تقسیم کو نظرانداز کر کے افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے۔ پاکستانی قوم کی یکجہتی اور اتحاد کے پیغام کی وجہ سے بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور اس بات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے پوری قوم ایک پیج پر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے حفاظت فرمائے‘ آمین!