بعض اوقات تو ایسی صورتحال بن جاتی ہے کہ اس کو بیان کرنے کیلئے کوئی مناسب لفظ ہی نہیں ملتا۔ ویسے تو اردو کے معاملے میں اس فقیر کا ہاتھ کچھ تنگ ہی ہے لیکن کسی نہ کسی طرح گزارا چلا لیا کرتا ہوں تاہم کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ باوجود کوشش اور تلاش کے کوئی موزوں اور مناسب لفظ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس میں بعض اوقات قصور زبان کا نہیں بلکہ اس صورتحال کا ہوتا ہے جس سے زبان کو کبھی پالا ہی نہیں پڑا ہوتا۔ وضاحت کیلئے اگر پورا صفحہ بھی سیاہ کر دیا جائے تو اس صورتحال کی منظر کشی یا وضاحت نہیں ہو پاتی جس سے پالا پڑا ہوتا ہے۔
سرکار عوام کے ساتھ جو کر رہی ہے اس کیلئے اس عاجز کو بھی بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا لفظ استعمال کرے؟ سرکار کی وارداتوں کو چوری کہے‘ ڈکیتی قرار دے‘ بھتہ وصولی سمجھے یا جیب تراشی کے زمرے میں ڈالے‘ کم از کم مجھے تو اس صورتحال کی عکاسی کیلئے کوئی مناسب لفظ مل ہی نہیں رہا۔ اگر قارئین میں سے کوئی اس پر روشنی ڈال کر میری مشکل آسان کر دے تو بندہ اس کا تاعمر شکرگزار رہے گا۔
گزشتہ تین چار دن سے سرکار بجلی کے بلوں میں گھریلو صارفین کو مبلغ سات روپے 41پیسے فی یونٹ رعایت دے کر جس طرح اچھل کود کر رہی ہے۔ ایک طرف تو سات روپے 41 پیسوں کی رعایت کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے‘ دوسری طرف پٹرول کی مد میں عوام کی جیب کاٹی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمت جو تقریباً 75ڈالر فی بیرل تھی‘ گر کر 65ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہو گئی ہے۔ یعنی تیل کی قیمت عالمی منڈی میں تقریباً 15فیصد کم ہوئی ہے۔ یہ خام تیل کی قیمت میں کمی ہے۔ اگر ہم اس کا نصف بھی صاف تیل کی قیمت سے منہا کریں‘ یعنی صرف ساڑھے سات فیصد ہی کم کریں تو ملک میں تیل کی قیمتوں میں 18روپے کی کمی ہونی چاہیے تھی مگر سرکار تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باعث اس کا فائدہ عوام کو پہنچانے کے بجائے اپنی جیب میں ڈال رہی ہے۔ صاف لفظوں میں سرکار ہم سے فی لیٹر 18روپے زیادہ وصول کرکے اس میں سے سات روپے 41پیسے بجلی کا ریٹ کم کر کے ہم سے دس روپے فی لیٹر سے زائد پھر بھی کما رہی ہے۔ سرکار ہم سے تیل کی مد میں زائد وصول شدہ رقم میں سے تھوڑی سی رقم ہمیں دے کر ہم پر احسانِ عظیم بھی جتا رہی ہے اور اپنا کارنامہ بھی بتا رہی ہے۔ ویسے بندہ پوچھے بجلی کی قیمتوں میں کمی تو سرکار نے کی ہے‘ کیا اس میں اضافہ ہمارے ہمسایوں نے کیا تھا کہ کمی کا سارا کریڈٹ تو سرکار لے رہی ہے اور اضافے کے مجرم کا تعین نہیں کر رہی۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی سرکار نے کیا تھا اور یہ اضافہ اب بھی اس کمی سے کئی گنا زیادہ ہے جس کی خوشخبری سنا سنا کر حکومت اور اس کے ڈھنڈورچی بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ بقول وفاقی وزیر بجلی و پانی‘ بجلی کی قیمت میں یہ کمی اس کے بنیادی ٹیرف میں نہیں کی گئی یعنی یہ کمی محض ٹیکسوں میں کی گئی ہے جو عارضی ہے۔
میں نے کالم کے آغاز میں موجودہ صورتحال میں سرکار کیلئے کسی مناسب لفظ کے میسر نہ ہونے کا جو اعتراف کیا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکار روزانہ کی بنیاد پر اپنے اللے تللے پورے کرنے کی غرض سے خاموشی سے عوام کی جیب کاٹنے میں مصروف ہے۔ اس کیلئے چوری‘ ڈکیتی‘ بھتہ خوری یا تاوان وغیرہ کے لفظ معمولی‘ بے معنی اور صورتحال کی مکمل عکاسی کرنے سے عاری ہیں۔ موٹروے کے ٹول ٹیکس میں گزشتہ چند ایک سال کے دوران تقریباً چار بار اضافہ ہو چکا ہے۔ ملتان تا لاہور موٹروے کا کار کیلئے ٹول ٹیکس جو 830 روپے تھا‘ بغیر ایم ٹیگ اب بڑھ کر 1260روپے ہو چکا ہے۔ یعنی چند ماہ کے اندر اندر ٹول ٹیکس میں تقریباً 51فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
چور بازاری اور ڈکیتیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو سرکار نے خاموشی سے عوام پر مسلط کی ہے اور ہم خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت بھی کر رہے ہیں اور ادا بھی کر رہے ہیں۔ چند سال پہلے کار کے ڈرائیونگ لائسنس کی تین سالہ تجدیدی فیس ہزار روپے سے کم تھی۔ حتیٰ کہ دو سال قبل بھی یہ تین سالہ تجدیدی فیس دو ہزار روپے کے لگ بھگ تھی‘ جو اب مبلغ آٹھ ہزار روپے ہو چکی ہے۔ اس رقم میں پانچ سالہ فیس کے علاوہ ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کی فیس بھی شامل ہے جو ڈاکٹر حقیقت میں اس پورے عمل کے دوران کہیں موجود ہی نہیں اور نہ ہی وہ ڈرائیونگ لائسنس ہولڈر کا کوئی طبی معائنہ کر رہا ہے مگر سرکار اس کی فیس وصول کر رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پنجاب حکومت ڈرائیونگ لائسنس کیلئے درکار میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کروانے والے شخص سے وصول کرکے اس کا معائنہ کیے بغیر اسے سرٹیفکیٹ عطا کر رہی ہے اور اس کی بنیاد پر اسے نیا لائسنس بھی جاری کر رہی ہے اور پرانے لائسنسوں کی تجدید بھی کر رہی ہے۔ صاف لفظوں میں آپ اسے سرکاری سطح پر منظم جعلسازی کہہ سکتے ہیں۔ بغیر طبی معائنہ کے میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ کا سرکار کی چھتری تلے اجرا جعلسازی نہیں تو اور کیا ہے۔ سرکاری سطح پر جعلی میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی اس سے پہلے کوئی مثال کم از کم اس عاجز کے علم میں ہر گز نہیں ہے۔ ہاں! انفرادی سطح پر تو ہم یہ کام عرصے سے کر رہے ہیں مگر اس طرح براہِ راست سرکار کی سرپرستی میں پیسوں کے عوض جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ کا حصول صرف اسی دور میں ممکن ہوا ہے۔ سرکار کو آٹھ سو روپے ہماری جیبوں سے نکال کر اپنی جیب میں ڈالنے سے غرض ہے۔ نظام اسی طرح برباد ہوتے ہیں اور جعلسازی اسی طرح ادارہ جاتی سرپرستی میں معاشرے کی جڑوں میں بیٹھتی ہے۔
اس بھتہ خوری کی ایک اور مثال گھروں میں پانی و سیوریج کے سرکاری نرخ ہیں۔ چند سال پہلے ایک کنال کے گھر کا واسا کا بل دو سو روپے کے لگ بھگ آتا تھا جو اَب دو ہزار روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ پنجاب میں اسلحہ لائسنس کا حصول ویسے ہی ایک مشکل مرحلہ ہے‘ تاہم دو سال پہلے غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ کا لائسنس حاصل کرنے کیلئے پانچ ہزار روپے فیس ادا کی جاتی تھی۔اگر آپ پنجاب کی حد تک لائسنس کیلئے درخواست دیتے ہیں تو اب اس کی فیس پچاس ہزار روپے اور آل پاکستان اسلحہ لائسنس کیلئے مبلغ ایک لاکھ روپے سرکار کے کھاتے میں جمع کروانا ہوں گے۔ دو سال قبل تک پنجاب میں اسلحہ لائسنس کی تجدیدی فیس سالانہ ایک ہزار روپے ہوتی تھی اور پانچ سال کیلئے مبلغ پانچ ہزار روپے جمع کروانا پڑتے تھے۔ اس میں نادرا کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنس کارڈ بنانے کی فیس بھی پانچ سال میں ایک بار وصول کرتا تھا۔ اب پنجاب حکومت نے اپنے اسلحہ لائسنس کی ایک ہی بار پانچ سال کیلئے تجدید بند کرکے اسے سالانہ بنیاد پر کردیا ہے اور اس کی سالانہ فیس پانچ ہزار روپے کردی ہے جو پہلے پانچ سال کیلئے پانچ ہزار روپے ہوتی تھی۔اس کے ساتھ نادرا بھی ہر سال نیا کارڈ بنانے کی فیس مبلغ دو ہزار تین سو تیس روپے وصول کرے گا‘ جس لائسنس کی دو سال پہلے پانچ سال کیلئے مبلغ سات ہزار تین سو روپے میں تجدید ہو جاتی تھی اب اس کی تجدید سالانہ سات ہزار تین سو روپے میں ہوا کرے گی۔
یہ صرف چند مثالیں تھیں۔ رجسٹری‘ انتقال‘ بیع‘ تملیک اور ہبہ کی فیسوں میں بھی اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ سرکار عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے مگر حیرانی کی بات یہ ہے اس کی پھر بھی پوری نہیں پڑ رہی۔ دوسری طرف عوام کا یہ حال ہے کہ ایسی ہر ڈکیتی پر مطالبہ کرتے ہیں کہ جوتے مارنے والے بندے بڑھا دیے جائیں۔ کم بندوں کی وجہ سے ہمارا وقت بڑا ضائع ہو رہا ہے۔