بات نہروں سے چلی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ صورتحال یہ ہے کہ پانی کی شدید کمی ہے اور یہ حالات یکدم یا غیر متوقع طور پر پیش نہیں آ رہے۔ اس کے بارے میں عرصہ دراز سے ماہرین وارننگ دے رہے تھے مگر اس ملک میں اس قسم کے فیصلے انتظامی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر کیے جاتے ہیں یا پھر زور آور دھکے سے کروا لیتے ہیں۔
پنجاب کے تین دریا 1960ء میں بھارت کے سپرد ہو چکے ہیں اور بقیہ دو دریائوں میں پانی نہیں ہے۔ پنجاب میں نہریں خشک ہیں۔ جہاں فصلوں کی کاشت ہو رہی ہے وہاں کی نہروں میں بھی ایک مہینے میں بمشکل دو ہفتوں کیلئے پانی آتا ہے۔ عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ پانی صرف اور صرف دریائے سندھ میں ہے اور یہ پانی بھی ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پنجاب میں کاشتکاری کیلئے کبھی چھ دریائوں یعنی بیاس‘ ستلج‘ راوی‘ جہلم‘ چناب اور سندھ کا پانی میسر تھا۔ پھر یہ کم ہو کر تین دریائوں تک پہنچ گیا۔ بیاس‘ ستلج اور راوی اس فہرست سے نکل گئے۔ تب ان دریاؤں سے سیراب ہونے والی زمینوں کو بے آباد ہونے سے بچانے کیلئے چلتے ہوئے دریاؤں سے لنک نہریں نکال کر ان سوکھے دریاؤں میں پانی ڈالنے کا اہتمام کیا گیا۔
دریائے چناب سے ہیڈ مرالہ کے مقام سے نکالی جانے والی مرالہ راوی لنک کینال دریائے چناب کا پانی دریائے راوی میں ڈالتی ہے۔ دریائے جہلم سے ہیڈ رسول سے نکلنے والی رسول قادر آباد لنک کینال دریائے جہلم کا پانی دریائے چناب میں ڈالتی ہے۔ دریائے جہلم اور چناب تریموں کے مقام پر ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے حویلی کینال کے ذریعے دونوں دریائوں کا پانی سدھنائی کے مقام پر دریائے راوی میں ڈالا جاتا ہے اور یہاں سے سدھنائی میلسی لنک کینال کے ذریعے یہ پانی ہیڈ اسلام کے مقام پر دریائے ستلج میں ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح دریائے چناب سے قادر آباد ہیڈ ورکس سے قادر آباد بلوکی لنک کینال کے ذریعے دریائے چناب کا پانی دریائے راوی میں ڈالا جاتا ہے اور پھر بلوکی ہیڈ ورکس سے لوئر باری دو آب اور دیگر نہریں نکلتی ہیں۔ اب رہ گئی بات دریائے سندھ کے پانی کی تو پنجاب کے تین دریائوں کی سندھ طاس منصوبے کے تحت بھارت کو فروخت کے عوض ورلڈ بینک نے لنک نہریں بنوائیں اور ان سوکھ جانے والے تین دریائوں کا پانی پورا کرنے کا بوجھ دریائے جہلم اور چناب پر ڈالا اور پھر ان دو دریائوں میں پانی پورا کرنے کیلئے پہلے چشمہ بیراج سے چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی شیر گڑھ کے قریب دریائے جہلم میں ڈالا‘ جو بعد ازاں تریموں ہیڈ ورکس کے ذریعے پہلے راوی اور پھر دریائے ستلج میں ڈالا جاتا ہے۔ دریائے سندھ سے دوسری بڑی لنک کینال ٹی پی لنک کینال یعنی تونسہ پنجند لنک کینال ہے۔ جو دریائے سندھ کا پانی تونسہ ہیڈ ورکس سے ہیڈ محمد والا کے مقام پر دریائے چناب میں ڈالتی ہے۔
مجوزہ اور متنازع چھ نہروں میں سے کم از کم ایک نہر چولستان کے بارہ لاکھ ایکڑ صحرائی رقبے کو سیراب کرنے کیلئے دریائے ستلج پر تعمیر کردہ سلیمانکی ہیڈ ورکس سے نکالی جائے گی۔ سرکار کا موقف ہے کہ یہ نہر دریاؤں میں آنے والے سیلابی پانی پر انحصار کرے گی۔ بندہ پوچھے کہ دریاؤں میں آنے والے سیلاب کب سے پانی کا مستقل ماخذ بن گئے ہیں کہ ان سے آبپاشی کی نہریں نکالی جائیں؟ سیلاب اگر آئے بھی تو تباہی پھیلا کر دس پندرہ روز میں دوبارہ نارمل ہو جاتے ہیں اور ان کا پانی دوبارہ دریا میں مدغم ہو جاتا ہے۔
دریائے ستلج پر سلیمانکی کے مقام پر یہ ہیڈ ورکس 1926ء میں انگریزوں نے قائم کیا۔ 1960ء سے بند دریائے ستلج پر قائم اس ہیڈورکس میں اپنا تو ایک قطرہ پانی نہیں اور یہ خود سدھنائی میلسی لنک کینال کے ذریعے آنے والے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ سدھنائی میلسی لنک کینال دریائے راوی سے سدھنائی ہیڈ ورکس سے نکلتی ہے جو خود سوکھا ہوا دریا ہے اور اس میں پانی تریموں ہیڈ ورکس سے نکلنے والی سدھنائی میلسی کینال اور حویلی کینال کے ذریعے دریائے جہلم اور چناب سے نکال کر ڈالا جاتا ہے جبکہ دریائے جہلم میں یہ پانی چشمہ جہلم لنک کینال سے ڈالا جاتا ہے۔ نہر کے پانی کا معاملہ تو میں نے بیان کر دیا ہے۔ مزید صورتحال یہ ہے کہ چولستان کینال کا پی سی ون بتاتا ہے کہ یہ نہر دوامی یعنی بارہ ماہی ہے جبکہ ارسا (Irsa) کے سرٹیفکیٹ میں یہ نہر چھ ماہی ہے۔ یعنی نہر کے پی سی ون اور ارسا سرٹیفکیٹ ہی آپس میں مطابقت نہیں رکھتے۔ 220 ارب روپے سے بننے والی اس 176 کلومیٹر لمبی نہر کو درکار پانی کی فراہمی کی غرض سے سلیمانکی ہیڈ ورکس کو پانی فراہم کرنے والی لنک نہروں کی استعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے تاکہ اس نہر کو مطلوبہ پانی مہیا کیا جا سکے۔
چولستان کی بارہ لاکھ ایکڑ بے آباد زمین کے علاوہ مزید کئی لاکھ ایکڑ بے آباد زمین کو بتدریج آباد کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے غیر آباد رقبے آباد ہونے چاہئیں کہ ملکی ترقی اور خاص طور پر زرعی شعبے میں جتنے امکانات ہیں وہ فی الوقت کسی اور شعبے میں دکھائی نہیں دیتے کہ اس شعبے میں ترقی سو فیصد نہ سہی مگر اس کا بیشتر حصہ ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ پہلے سے آباد زمینوں کی بربادی کی قیمت پر نئی زمینوں کو قابلِ کاشت بنانا اور خواہ مخوا کا ایک اور نیا مسئلہ کھڑا کرنا کسی بھی طور عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ سندھ کا اس سلسلے میں مؤقف اپنے اندر کافی زیادہ وزن رکھتا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جس طرح اس محاذ پر گرم ہیں‘ آصف زرداری نہ صرف اس سلسلے میں خاموش ہیں بلکہ منظر عام سے مسلسل غائب ہیں۔
چند ہفتے قبل میں برادر عزیز رستم لغاری کے بیٹے کے ولیمے میں شرکت کیلئے کراچی گیا تو اس تقریب میں جس میز پر بیٹھا ہوا تھا اس پر اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک سرکاری آفیسر بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والا شخص ہے۔ میں نے اپنے تجسس کو مٹانے کی غرض سے اس سے پوچھ لیا کہ زرداری صاحب کی صحت کیسی ہے؟ یاد رہے کہ ان دنوں زرداری صاحب صاحبِ فراش تھے اور ان کے بدخواہوں نے ان کی زندگی کے بارے میں بھی افواہیں پھیلانے سے دریغ نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا بھی دل کے پھپھولے جلا رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کی صحت کی حقیقی صورتحال کیا ہے۔ ایسے میں میرا سوال بہرحال بلاوجہ نہیں تھا۔ خیر وہ صاحب میرے سوال پر پہلے مسکرائے اور پھر کہنے لگے: زرداری صاحب اتنے ہی تندرست ہیں جتنے وہ 23 مارچ کی تقریر کے دوران تھے۔ وہ صرف نہروں والے معاملے کے بعد باعزت روپوش ہونا چاہتے تھے تاکہ انہیں گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر چار اپریل کو پیپلز پارٹی کے ورکروں‘ بھٹو صاحب کے جیالوں اور سندھی ووٹروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لہٰذا انہوں نے سب چیزوں سے جان چھڑانے کیلئے بیماری کا عذر کیا ہے۔ وگرنہ وہ اتنے ہی ''فٹ‘‘ ہیں جتنے ایوانِ صدر میں داخل ہوتے وقت تھے۔ وہ اس وقت مقتدرہ کے Good Cop ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ عوام میں Bad Cop مقبول ہیں اور مقتدرہ کو Good Cop عزیز ہیں۔ یعنی ایک فریق کا Good Cop دوسرے فریق کا Bad Cop ہے جبکہ دوسرے فریق کا Bad Cop پہلے فرق کا Good Cop ہے۔ ووٹ Bad Cop کے ہیں اور نظر کرم Good Cop پر ہے۔ ہر پارٹی میں کم از کم ایک Good Cop اور ایک Bad Cop موجود ہے اور یہ کسی نظریاتی تقسیم کے باعث نہیں بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت انتظامی بندوبست کا نتیجہ ہے۔