سیاست پر کالم لکھنا اور بات ہے‘ تاہم میں بول چال میں عموماً سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتا ہوں کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں کسی کو سیاسی اور مسلکی گفتگو کے نتیجے میں اپنے خیالات اور نظریات سے رجوع کرتے نہیں دیکھا۔ اب تو معاملہ اور بھی خراب ہو گیا ہے۔ پہلے یہ گفتگو محض لاحاصل تھی تاہم اس میں وہ شدت پسندی ہرگز نہیں تھی جو عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد آئی ہے۔ پہلے جو بات اچھے پیرائے میں ختم ہوتی تھی‘ اب باقاعدہ تُو تُو میں میں پر‘ گریبان پکڑنے پر اور مغلظات بکنے پر ختم ہونے لگ گئی ہے۔ اب بھلا ایسے میں بحث کا کیا فائدہ‘ جس کا نتیجہ سوائے تعلقات کی خرابی کے اور کچھ نہ نکلتا ہو۔ سو اس عاجز نے سیاسی بحث سے حتی الامکان حد تک دوری اختیار کر لی ہوئی ہے۔
پاکستان میں تو میں عموماً سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتا ہوں تاہم دیارِ غیر میں اپنی اس پالیسی پر بہت سختی سے عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ادھر غالب اکثریت تحریک انصاف بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں عمران خان کے شیدائیوں کی ہے اور ان سے کسی قسم کی منطقی‘ عقلی یا غیر جذباتی گفتگو کی توقع رکھنا عبث ہے اور بدمزگی‘ بدلحاظی اور بدتمیزی کے امکانات سو فیصد سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ اس لیے میں اپنے اس فیصلے پر کاربند رہتا ہوں اور ممکنہ حد تک اپنے سفر کو کسی بدمزگی سے بچائے رکھتا ہوں۔ ادھر یوتھیے تھاں تھاں جبکہ پٹواری خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ان حالات میں بھی برادرِ بزرگ اعجاز احمد اور شفیق سے معقول گفتگو ہو جاتی ہے۔
میری امریکہ والی بیٹی میرے چاروں بچوں میں سے واحد ایسی ہے جسے نہ سیاست سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اسے پاکستانی سیاست کی الف بے کا ہی کوئی علم ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ وہ 2005ء سے 2011ء تک کامل چھ سال کراچی میں آغا خان میڈیکل کالج میں زیر تعلیم رہی لیکن اسے اس دوران سندھ کی گورنری پر فائز سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے والے عشرت العباد کا نام تک معلوم نہیں تھا۔ ایک روز میں نے اس سے پاکستان کے وزیراعظم (تب اس منصب پر شوکت عزیز متمکن تھے) کا نام پوچھا تو ہنس کر کہنے لگی: آپ نے مجھے اُدھر پڑھنے کے لیے بھیجا ہے‘ مجھ سے میڈیکل کا کوئی سوال کر کے دیکھیں۔ اس برہانِ قاطع قسم کے جواب پر جواباً میرے پاس ہنسنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
یہ سیاسی باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کے نیچے کمنٹس والے سیکشن میں ایک قاری نے میری امریکہ والی بیٹی کی سیاسی معاملات میں مکمل لاعلمی اور لاتعلقی کے باوجود اس کے بارے میں نہایت گھٹیا اور کم ظرفی پر مبنی الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے اپنا یک سطری تبصرہ لکھ کر اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا۔ اگر انہیں میرے کالم کے مندرجات سے اختلاف تھا تو اسے اس کا اظہار دلیل‘ ثبوت یا منطقی اور عقلی حوالوں سے کرنا چاہیے تھا اور کالم کے دائرہِ کار میں رہتے ہوئے صرف مجھ سے سروکار رکھنا چاہیے تھا مگر اس نے اپنے یک سطری تبصرے سے اپنی تربیت میں رہ جانے والی کوتاہی کا اظہار کر دیا۔ بہنیں اور بیٹیاں تو ہمارے معاشرے میں سانجھی سمجھی جاتی ہیں مگر تربیت میں خامی رہ جائے تو الگ بات ہے۔ تربیت کی خرابی اپنی جگہ مگر مزید حیرانی اس بات پر ہوئی کہ جو تبصرہ اس نے کیا اسکا اس کالم کے مندرجات سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا مگر ہماری سیاست میں گزشتہ چند سال سے در آنیوالے غیر اخلاقی رویے اور گلی محلوں میں سیاسی گفتگو کے دوران استعمال ہونیوالے غیر مہذب الفاظ نے اخبارات کے سب سے مہذب سمجھے جانیوالے ادارتی صفحے کے قاری تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب بندہ کس سے مہذب گفتگو کی توقع کر سکتا ہے؟
ادھر ایک دو دوستوں نے مجھ سے ستائیسویں ترمیم کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا تو میں نے ان سے کہا کہ میں اس ترمیم کی پٹاری کھلنے سے پہلے ادھر آ گیا تھا اس لیے مجھے بھی اس کے سنے سنائے مندرجات کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہے جتنا آپ کو‘ بلکہ آپ لوگ مجھ سے بھی زیادہ باعلم ہیں کہ آپ اس دوران اپنی اپنی مرضی کے وی لاگرز اور یو ٹیوبروں کے علم کے بحرِ بے کراں سے مستفید ہو چکے ہیں جبکہ اس مسافر کا مبلغ علم اس کے فون پر موجود پاکستانی اخبارات کی ایپس کے طفیل پڑھے جانے والے ای پیپرز کی خبریں ہیں۔ یہ عاجز ایک عرصے سے سوشل میڈیا سے مکمل لاتعلق ہے کہ اب اس کے پاس سچ اور جھوٹ پر مبنی خبروں کے بارے میں تحقیق وتفتیش کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی مزاج‘ سو راوی اس بارے میں چین لکھتا ہے۔
ایک دوست نے اُکسانے کی غرض سے کہا کہ آخر آپ نے اس ستائیسویں ترمیم کے بارے میں کچھ لکھنا بھی تو ہوگا‘ اس لیے جو کچھ آپ کے ذہن میں ہے‘ آپ ہمیں صرف اس سے آگاہ کر دیں۔ میں نے کہا: آپ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو وہ بتا دوں جو کالم لکھنے کیلئے میرے ذہن میں ہے تو عزیزم آپ کو اس سلسلے میں بتانے کیلئے میرے پاس کچھ بھی نہیں‘ کیونکہ میرے پاس اس ترمیم کے حوالے سے لکھنے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ جو میں لکھنا چاہتا ہوں وہ چونکہ چھپ نہیں سکتا اس لیے لکھنا ہی لاحاصل ہے اور جو چھپ سکتا ہے وہ لکھنا بے معنی ہے۔ لہٰذا میرے پاس نہ تو لکھنے کیلئے کچھ ہے اور نہ ہی کہنے کیلئے کچھ ہے۔ ہاں البتہ میں اس ترمیم سے ہٹ کر جمہوریت کے نام لیوا حکمرانوں‘ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتوں ‘ ملک کے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے ارکانِ اسمبلی و سینیٹ اور 1973ء کے آئین کے بانی کے نام پر گزشتہ پانچ عشروں سے موج اڑانے والوں کی جانب سے اس ترمیم کیلئے فراہم کی جانے والی بے لوث حمایت پر افسوس ضرور ہوا ہے مگر میرے افسوس سے کیا ہوتا ہے‘ ہوتا تو وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ اب اس میں اگر زمینی خدا بھی شامل ہو گئے ہیں تو یہ عاجز بھلا کیا کر سکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ یہ آئین پہلے بھی ہم عام آدمیوں کا نہیں تھا اور اب کچھ عرصے سے ہونے والی ترمیمات کے باعث بالکل بھی ہمارا نہیں رہا۔ عام آدمی کے لیے اس میں چند ضمانتیں ضرور تھیں مگر 1973ء سے لے کر 2025ء تک کے باون‘ تریپن سالہ عرصے نے ثابت کیا ہے کہ آئین کے باب اول (پارٹ 1) کے آرٹیکل 8 سے آرٹیکل 28 تک جن بنیادی حقوق کی ضمانت ریاست ہمیں دیتی ہے‘ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان آرٹیکلز میں درج ذیل ضمانتیں شامل ہیں:
٭ریاست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی ٭کسی شخص کو قانون کے مطابق کارروائی کے بغیر زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ٭غلامی‘ جبری مشقت اور انسانی سمگلنگ پر پابندی ہے ٭کسی قانون کے تحت ایسی سزا نہیں دی جا سکتی جو ماضی پر لاگو ہو ٭انسانی وقار مقدس ہوگا‘ گھر کی حرمت کا تحفظ اور تشدد کی ممانعت ہے ٭پُرامن اجتماع کا حق حاصل ہے ٭انجمن سازی اور سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے ٭اظہارِ رائے‘ تحریر و تقریر (مناسب پابندیوں کے ساتھ) اور معلومات تک رسائی کی آزادی ہے ٭مذہبی تعلیم اور اقلیتوں کا تحفظ‘ صنفی امتیاز کی ممانعت‘ خواتین اور بچوں کا خصوصی تحفظ ٭5 سال سے16سال تک کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے ٭سرکاری ملازمتوں میں امتیاز پر پابندی ہے ٭زبان‘ شناخت اور ثقافت کو تحفظ حاصل ہے ٭اور سب سے بڑھ کرتمام شہری برابر کے حقوق کے حقدار ہیں۔
حالیہ ترامیم کا محور ومرکز دو بڑے ادارے ہیں۔ ہم جوپہلے ہی تیسرے درجے کے شہریوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارا اس سارے لین دین سے کوئی تعلق ہی نہیں لہٰذا 'جٹ جانے تے بجو جانے‘۔ میرا خیال ہے یہ عنوان پہلے بھی ایک بار لکھا جا چکا ہے مگر نئے تناظر میں پرانا نام ہی چلے گا۔