مرے کالج (سیالکوٹ) اور پھر پچاس کی دہائی کے آخر میں پنجاب یونیورسٹی میں میرے ایک ہمعصر تھے مجاہد حسین۔ مجاہد اور ان کے بھائی (ریٹائرڈ سرکاری افسر اور مشہور ادیب) طارق محمود‘ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔ بڑا بھائی فارن سروس میں گیا اورچھوٹا ضلعی انتظامیہ (DMG) میں۔ جب مجاہد ترقی کرتے کرتے سفیر بنا تو میں نے فون پر مبارکباد دی۔ مجاہد نے بکمال محبت اور معدوم ہو جانیوالی وضعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعوت دی کہ میں جس بھی ملک میں سفیر بن کر جائوں‘ تم وہاں میرے پاس آنے کا وعدہ کرو۔ میں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے وعدہ تو نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ اگر کسی یورپی ملک میں تعینات ہوئے تو ضرور آئوں گا۔ مجاہد کئی ممالک میں سفیر بن کر گیا مگر مجھے اس کا مہمان بننے کا موقع تب ملا جب وہ جرمنی میں تعینات ہوا۔ یہ80ء کا عشرہ تھا۔ ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد میرا جہاز Cologne کے ہوائی اڈے پر اُترا‘ میں حسبِ معمول سویا پڑا تھا۔ کسی نے میرا نام پکارا اور شانہ دبایا۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو مجاہد جہاز کے اندر میرے پاس کھڑا تھا۔ وہ اپنے سفارتی عہدے کا فائدہ اُٹھا کر جہاز کے اندر پہنچ گیا تھا۔ میں سفیر کی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر اُسکے گھر گیا‘ جہاں اس کی جرمن نژاد اہلیہ کی بے مثال میزبانی میری منتظر تھی۔ ان کا گھر Rhine دریا کے کنارے تھا۔ اگلے دن میں صبح جاگا تو انہوں نے پوچھا کہ رات کیسی گزری؟ جواب دیا کہ نیند تو بڑی گہری آئی مگر ہٹلر کے خواب آتے رہے۔ میاں بیوی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر مجھے بتایا کہ وہ جس گھر میں رہتے ہیں‘ کسی زمانے میں یہ شہر کے میئر کی سرکاری رہائش گاہ تھی‘ اور جس کمرے میں میرا قیام تھا ہٹلر نے میئر کا مہمان بن کر وہاں ایک رات گزاری تھی۔ اگلے دن میں مجاہد کیساتھ اُس کے دفتر گیا‘ دفتری کاموں سے فارغ ہو کر اس نے مجھے شہر کی سیر کرائی اور ایک کمال کی پیشکش کی کہ اگر میں چاہوں تو وہ این میری شیمل (Annemarie Schimmel) جو میرے لیے ہر گز محتاجِ تعارف نہ تھیں‘ سے میری ملاقات کرا سکتا ہے۔ میرا اشتیاق دیکھ کر مجاہد نے فون پر اگلے دن ملاقات کا وقت طے کر لیا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آتا تھا کہ میں یورپ اور غالباً دنیا کی سب سے بڑیOrientalist (مشرقی علوم کی عالم فاضل) خاتون کے سامنے بیٹھا ہوں۔ انکا پورا گھر کتابوں سے اَٹا پڑا تھا۔ میزوں پر اور زمین پر ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں۔ اُنہوں نے بکمال مہربانی ہمیں ایک گھنٹے سے زائد وقت دیا۔ اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلائی اور پاکستان کے تمام صوفیائے کرام (بالخصوص شاہ عبداللطیف بھٹائی) سے اپنی گہری عقیدت اور اُن کے بارے میں اپنے وسیع علم کی روشنی میں معلومات افروز باتیں کیں۔ وہ پنجاب اور سندھ میں تمام بزرگان دین اور صوفیا کرام کے مزارات کی زیارت کر چکی تھیں۔
این میری شیمیل 7 اپریل 1922ء کو پیدا ہوئیں اور 80 برس عمر پا کر 26 جنوری 2003ء کو اُن صوفیاء کرام کی روحوں کو جا ملیں‘ جن کا مطالعہ اُن کی زندگی کی نصف صدی سے زائد پر محیط تھا۔ انہوں نے ڈاکٹریٹ کی دو ڈگریاں حاصل کیں۔ ایک اسلامی تہذیب اور مشرقِ وسطیٰ کی زبانوں میں اور دوسری مذاہب کی تاریخ میں۔ وہ 1967ء سے 1992ء تک (25 برس) امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہیں۔ اس سے قبل ترکی کی انقرہ یونیورسٹی میں پڑھایا۔ وہ نہ صرف فارس اور سندھ کی تہذیب اور زبانوں بلکہ اسلامی ممالک کی تاریخ وثقافت اور صوفیا کرام (مولانا روم سے شاہ بھٹائی اور اقبالیات کے میدان تک) کے حوالے سے پوری دنیا میں جو بلند مقام رکھتی تھیں‘ وہ یورپ اور امریکہ میں ان کے کسی اور ہم عصر کا نہ تھا۔ وہ شائستگی‘ علمیت‘ انکساری اور حصولِ علم میں ذوق وشوق کا مجسمہ تھیں۔
این میری جرمنی کے ایک قصبے Erfurt کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والدہ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے اور والدہ کا تعلق بڑے تاجر گھرانے سے تھا۔ اُن کا بچپن شاعری اور ادب پڑھنے میں گزرا۔ پندرہ برس کی عمر میں سکول کی تعلیم مکمل کی‘ پھر رضا کارانہ کام کرنے کے بعد 17 برس کی عمر میں (1939ء میں) برلن یونیورسٹی داخل ہوئیں‘ جہاں اُن کے ایک استاد Hans Heinrich Schaeder نے دیوانِ شمس تبریز کے ذریعے انہیں مولانا جلال الدین رومی سے متعارف کرایا۔ این میری نے 19 برس کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی پہلی ڈگری حاصل کی۔ تحقیقی مقالے کا عنوان تھا: ''قرونِ وسطیٰ کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام‘‘ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر وہ جرمن وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہو گئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اُنہیں کئی ماہ تک امریکی حکام نے جنگی قیدی بنائے رکھا۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ اُن کا ہٹلر کی فسطائی حکومت سے کوئی واسطہ نہ تھا تو اُنہیں رہائی ملی۔ 1946ء میں (23 برس کی عمر میں) جرمن یونیورسٹی (Marburg) میں وہ عربی زبان اور اسلامیات کی پروفیسر مقرر ہو گئیں۔ 1950ء کے عشرہ میں وہ مختصر عرصہ کیلئے ازدواجی رشتہ میں بندھ گئیں مگر شادی شدہ زندگی انہیں راس نہ آئی اور پھر وہ اس کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقت علم وفضل کی دنیا سے وابستہ ہو گئیں۔
1954ء میں مذاہب کی تاریخ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر انہوں نے ڈاکٹریٹ کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران وہ ترکی کی انقرہ یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئیں اور اُنہوں نے ترکی زبان میں پڑھایا۔ وہ نہ صرف پہلی خاتون بلکہ پہلی غیر مسلم بھی تھیں جس نے انقرہ یونیورسٹی میں دینی علوم پڑھائے۔ وہ قدیم اسلامی تحریروں کی تاریخ اور کتابت (Calligraphy) کے انداز میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ ذاتی عقائد کے حوالے سے وہ زیادہ بات نہیں کرتی تھیں۔ اُن سے دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟ ہاں یا ناں میں جواب دینے کے بجائے وہ یہ صرف یہ کہتی تھیں: صرف وہ لوگ جو یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ اچھے مسلمان ہیں‘ وہی اچھا مسلمان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کمال کی خاتون اپنی مادری زبان (جرمن) کے علاوہ انگریزی‘ ترکی‘ عربی‘ فارسی‘ اُردو اور پنجابی زبان (جس میں ہم نے کچھ جملوں کا تبادلہ بھی کیا) میں مہارت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے اسلامی تاریخ اور ثقافت (خصوصاً صوفی روایت اور سلسلوں) پر پچاس سے زائد کتابیں اور سینکڑوں مضامین اور مقالے لکھے۔ فارسی‘ اُردو‘ عربی‘ سندھی اور ترکی زبانوں کی کئی کتابوں کا انگریزی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ بھی کیا۔
میں نے اُن کے گھر میں بہت سی بلیوں کو دیکھا تو حیران ہوا۔ اُنہوں نے میری حیرانی بھانپ لی اور کہنے لگیں کہ اُنہوں نے اسلامی ادب میں بلیوں کے کردار اور علامتی مقام پر ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ اُنہوں نے ''اسلام، صوفیا اور محمد اقبال‘‘ کے عنوان سے جو عالمی شہرت یافتہ کتاب لکھی‘ اس پر حکومت پاکستان نے انہیں دو بڑے سول ایوارڈ (ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز) سے نوازا۔ سلمان رشدی کی رسوائے عالم کتاب پر عالم اسلام میں صدائے احتجاج بلند ہوئی تو یورپ اور امریکہ میں یہ واحد بلند علمی شخصیت تھیں جنہوں نے مسلمانوں کی ناراضی کا دفاع کیا ۔ ظاہر ہے کہ اُن کا یہ مؤقف بہت سی پیشانیوں پر شکن کا موجب بنا مگر اُنہوں نے اسکی ذرہ بھر پروا نہ کی۔ اُنہیں ملنے والے عالمی اعزازت کی تعداد 13 ہے۔ ایک انوکھا اعزاز یہ ہے کہ اُنکا نام جرمن شہر Bonn کی ایک شاہراہ (Walk of Fame) پر نصب ایک پتھر پر کنندہ کیا گیا۔ ترکی اور سویڈن کے علاوہ پاکستان کی تین یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔ ایک گھنٹے کی یہ ملاقات پل بھر میں گزر گئی۔ جب ہم اُن کے گھر سے اُٹھے تو میں ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ اُنکے گھر داخل ہونے اور پھر اُنکے قدموں میں بیٹھنے اور وہاں سے رخصت لینے کے درمیانی وقفے میں اُنہوں نے نہ صرف میرے دماغ کو روشن کیا بلکہ میرے دل کو بھی ایمان اور صوفیا سے عقیدت کی روشنی سے منور کر دیا۔