"ZAM" (space) message & send to 7575

مودی کا فاشزم اور پاکستانی پانیوں کا تحفظ

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا فاشزم پاکستان کے دریا روکنے سے نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمیشن پر حملوں تک پہنچ گیا ہے۔ مدبرینِ عالم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ فاشزم کی کوئی بھی قسم ہو‘ انجام اس کا مسولینی سے الگ نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی جدید پولیٹکل سائنس میں فاشزم کا بانی بینیٹو مسولینی کو سمجھا جاتا ہے‘ 1945ء میں جس کوگولی مار کر اس کی لاش میلان سٹی کے ایک چوراہے میں لٹکا دی گئی تھی۔ جرمنی کے ایڈولف ہٹلر‘ جس نے نسل پرستی کی بنیاد پر فاشزم سٹیٹ کی سرحدیں وسیع کرنے کی کوشش کی تھی‘ نے ایک بنکر میں خود کشی کر لی تھی۔ رومانیہ سے جاپان تک تاریخ بھری پڑی ہے کہ نفرت‘ خوف اور طاقت کی بنیاد پر کھڑی فاشسٹ ریاستیں آخرکار عوام میں شدید گھٹن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت کا شکار ہو کر ملیامیٹ ہو جاتی ہیں اور پھر اس راکھ کے بطن سے جمہوریت اور عوامی حکمرانی ہی نکلتی ہے۔
آج کا بھارت موہن داس گاندھی اور جواہر لال نہرو کی سیکولر سٹیٹ سے بہت دور نکل چکا ہے۔ آج نریندر مودی بھارت کے 29 لاکھ 44 ہزار 168مربع کلومیٹر (علاوہ مقبوضہ جموں وکشمیر) پر ہندوتوا کی شکل میں فاشزم نافذ کرنا چاہتا ہے۔ اس فاشزم کی بدترین شکل مذہبی جنونیت ہے‘ جس کا ماڈل اس وقت بھارت ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کے خاتمے کے بعد آج کا بنگلہ دیش نئی سیاسی انگڑائی لے رہا ہے۔ اب 1971ء میں افواجِ پاکستان پر لگائے گئے جھوٹے الزامات بھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے نوجوان سچ کی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ بنگلہ یوتھ کی یہ سیاسی انگڑائی مودی کے فاشسٹ ایجنڈے کیلئے بڑا خطرہ بن گئی ہے جس سے خوفزدہ ہو کر مودی سرکار کہیں ڈھاکہ میں شریف عثمان بن ہادی کی ٹارگٹ کلنگ کرا رہی ہے تو کہیں کیرالا میں رام نارائن جیسے افراد کو محض بنگلہ دیشی ہونے کے شبہے میں جنونی ہندو ہجوم کے ہاتھوں قتل کرا کے فاشزم کا خوف پھیلا رہی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا پہلا نشانہ ہمیشہ سے مسلمان رہے ہیں لیکن خوفزدہ مودی کا ٹارگٹ اب دیگر اقلیتیں بھی ہیں۔ کرسمس کے موقع پر بھارت میں پیش آنیوالے واقعات اس کا تازہ ثبوت ہیں۔ بھارتی چینل این ڈی ٹی وی پر نشر ہونیوالے تین وڈیو کلپس نے مدھیا پردیش‘ اڑیسہ اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی سرپرستی میں مسیحی عوام پر تشدد اور کرسمس کی سانتا ٹوپیوں کی فروخت روکنے سے لیکر کرسمس تقریبات پر ہندو جنونیت کی یلغار تک سے یہ ثابت کر دیا کہ بھارت کا سیاسی فاشسٹ نظام اور نریندر مودی‘ دونوں جلد ڈوبنے والے ہیں۔ اس تمہید کا مقصد ان اقدامات کو تلاش کرنا ہے جو بھارت کی آبی دہشت گردی اور مودی کے فاشزم کے خلاف پاکستان کی حکومت کو کرنے چاہئیں۔
چند روز قبل معاہدہ سندھ طاس کے تحت پاکستان کے حصے کا دریائے چناب کا پانی پہلے روکنے اور پھر اچانک چھوڑنے کی غیر قانونی حرکت کے بعد پاکستان حکومت کا پہلا ری ایکشن قائم مقام کمشنر سندھ طاس پاکستان کے احتجاجی مراسلے کے ذریعے سامنے آیا۔ پھر وزارتِ خارجہ کے ترجمان اور اسکے بعد وزارتِ پانی وبجلی نے مفصل پریس ریلیز جاری کی‘ جس میں سیٹلائٹ امیج سے بگلیہار بجلی گھر کی جھیل کی خشکی اور نمی کو پانی روکنے اور چھوڑنے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا اور بھارت سے احتجاج کی روداد بیان کی گئی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا محض یہ احتجاج کافی ہے یا اس سے آگے بڑھنے کی بھی ضرورت ہے؟
اسی تناظر میں اپریل کے پہلگام فالس فلیگ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے معاہدۂ سندھ طاس کی یکطرفہ معطلی کے بعد پاکستان کے احتجاج اور سفارتی وبین الاقوامی رائے سازی کی کوششوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بھارتی اقدام کے بعد سب سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک بین الاقوامی مشن بھیجا گیا جس نے امریکہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل کے منتخب ارکان کے علاوہ برطانیہ اور یورپ میں اعلیٰ سفارتی حلقوں سے ملاقاتیں کر کے بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں معاہدہ سندھ طاس کی معطلی کی حیثیت کے علاوہ پاکستان کی فوڈ سکیورٹی‘ ماحولیات اور خطے کے امن کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا۔ اس وفد کے مقابلے میں بھارت کی طرف سے بھی مختلف خطوں میں وفود بھیجے گئے‘ جن کی قیادت سابق بھارتی وزیرخارجہ اور اقوام متحدہ کے ریٹائرڈ انڈر سیکرٹری ششی تھرور کر رہے تھے۔ بلاشبہ پاکستانی وفد کا پلڑا بھاری رہا جس میں بلاول بھٹو‘ خرم دستگیر‘ ڈاکٹر مصدق ملک کے علاوہ شیری رحمان‘ حنا ربانی کھر اور جلیل عباس جیلانی جیسے ماہرین خارجہ امور شامل تھے۔ انہی سفارتی کوششوں سے 15 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اوپن ڈیبیٹ میں معاہدہ سندھ طاس کی یکطرفہ معطلی پر پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے بھارتی مندوب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم بھارت اب تک اپنی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا ہے۔ اسی بیچ ایک اہم پیشرفت معاہدہ سندھ طاس کے نگران‘ ورلڈ بینک کی ثالثی عدالت کا 27 جون کو اپنے فیصلے (ایوارڈ) میں بھارت کے اس اعتراض کو مسترد کرنا ہے کہ اس عدالت کو سماعت کا اختیار نہیں (بھارت نے یہ اعتراض 2023ء میں عائد کیا تھا)۔ عدالت نے قرار دیا کہ بھارت کی طرف سے معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے باوجود عدالت کو سماعت کا مکمل اختیار ہے اور معاہدے کے آرٹیکل 12(4) کے مطابق کوئی ملک یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل‘ تبدیل یا ختم نہیں کر سکتا۔ بھارت نے اس فیصلے سے پہلے ہی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ثالثی عدالت نے 8 اگست 2025ء کو ایک بار پھر اپنے فیصلے کے وضاحتی نوٹ میں بھارت کو حکم دیا کہ مغربی دریائوں (چناب‘ جہلم اور سندھ) کے پانیوں کو بلارکاوٹ پاکستان کی طرف بہنے دیا جائے۔
اب 15 دسمبر کو بھارت کے مندوب کی سلامتی کونسل میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی برقرار رکھنے کی رٹ نے پاکستان کیلئے سفارتی راستے محدود کر دیے ہیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ چناب کا پانی روکنے کے حالیہ واقعے کے بعد حکومتِ پاکستان کو اب کیا کرنا چاہیے؟ یہ عرض کرنے سے پہلے یہ بتانا بلکہ دہرانا ضروری ہے کہ پاکستان کے تینوں دریائوں سے (سندھ اور پنجاب میں) پاکستان کا 80 فیصد زیر کاشت رقبہ سیراب ہوتا ہے اور اگر مستقبل میں بھارت ایک نیا ایڈونچر کرتے ہوئے چناب کا رخ موڑتا ہے تو 25 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے کرتا دھرتائوں سے گزارش ہے کہ اب مزید وقت ضائع کیے بغیر عالمی عدالت انصاف کا رخ کریں اور اس کیلئے بہترین ٹول اسی عدالت کا 1997ء کا ہنگری بمقابلہ سلواکیہ کیس کا فیصلہ ہے‘ جس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ دو ملکوں کے درمیان ٹریٹی پر عملدرآمد کرانا بین الاقومی لاء آف ٹریٹی کے تحت لازمی ہے‘ خواہ دونوں ملکوں نے ویانا کنونشن 1969ء پر دستخط نہ کئے ہوں۔ دوسرا ٹول عالمی عدالت انصاف کی 23 جولائی 2025ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 276/77 کے تحت دی گئی رائے ہے‘ جس میں قرار دیا گیا کہ بین الاقوامی تحفظ ماحول کے قوانین کے تحت کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ دوسرے ملک کا شفاف‘ صحتمند اور پائیدار ماحولیاتی حق خراب کرے یا اس میں رکاوٹ پیدا کرے کیونکہ یہ وسیع تر انسانی حقوق پر حملہ ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کا کیس بہت مضبوط نظر آتا ہے کیونکہ بھارت کے پاس اپنے دفاع میں کوئی بین الاقومی دلیل حتیٰ کہ معاہدہ سندھ طاس میں بھی کوئی ایک پوائنٹ نہیں ہے۔ عالمی عدالت سے اگر فیصلہ پاکستان کے حق میں آتا ہے تو بھارت ''میں نہ مانوں‘‘ کی صورت میں بین الاقوامی تجارتی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے‘ جس سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض اور امداد کے معاہدے معطل ہو سکتے ہیں۔ بھارت نے 1947ء سے اب تک محض عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 160 ارب ڈالر سڑکوں سے سکولوں تک کی تعمیر کیلئے حاصل کئے ہیں اور ابھی مزید اربوں ڈالر کی آمد متوقع ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں