چیئرمین پنجاب گروپ ‘ سابق ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود صاحب جب 13 نومبر کے روز سیالکوٹ میں طلبہ کے ایک اجتماع کو ڈویژنل سطح کے صوبوں بارے تفصیلات بتا رہے تھے تو ایک بڑا اہم سوال سامنے آیا کہ ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ملک کی پانچویں بڑی ڈویژن ‘گوجرانوالہ میں لاہور ہائیکورٹ بینچ کے قیام کیلئے کئی سال سے سیاستدان اور عوام جدوجہد کر رہے ہیں مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی تو ملک میں 33 صوبے اور ان کی ہائیکورٹس کیسے بنوا لیں گے؟ حکمران اشرافیہ تو یہ بالکل نہیں ہونے دے گی۔ طالبعلم کا سوال سن کر ذہن آئینِ پاکستان میں حالیہ 27ویں ترمیم کے دوران سیاسی آوت جاوت کی تفصیلات کی طرف گھوم گیا۔ ترمیم کے حوالے سے پہلی خبر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ایک ٹویٹ پر بنی جس میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف ان کے ہاں تشریف لائے تھے اور انہیں اور صدر زرداری کو ترمیم کی تفصیلات کا مسودہ دے کر گئے ہیں مگر فیصلہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں کیا جائے گا۔دوسری خبر اس وقت بنی جب وزیراعظم شہباز شریف نے وڈیو لنک کے ذریعے آذربائیجان سے اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایم کیو ایم کو یقین دہانی کرائی کہ آرٹیکل 140-Aمیں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کا جو بل سینیٹ میں زیر التوا ہے اس پر ایوان کی کمیٹی برائے قانون و انصاف غور کرے گی اور اس کو بھی 27ویں ترمیم کے ساتھ منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی کابینہ اجلاس میں پنجاب اسمبلی سے منظور شدہ اسی آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی ملتی جلتی قرار داد کا بھی ذکر آیا۔ مقامی حکومتوں کی مدت اور 90 دن میں ان کے نئے انتخابات کو آئینی تحفظ دینے کے حوالے سے 2020ء میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے بھی سینیٹر ثانیہ نشتر کے ذریعے سینیٹ میں بل پیش کیا تھا اور قانون و انصاف کی سینیٹ کمیٹی نے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر کی سربراہی میں ترمیم منظور کر لی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت نے اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کے تحت اپنے خاتمے تک لگ بھگ دو سال گزرنے کے باوجود عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کا یہ بل ایوانِ صدر میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا۔ 27ویں ترمیم کے پراسیس کے دوران یہ امید بندھی تھی کہ دو تہائی اکثریت کے حصول کیلئے سینیٹ میں ایم کیو ایم کے تین ووٹوں کی کلیدی حیثیت کے باعث لگے ہاتھوں یہ رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔ اس ترمیم سے ہونا یہ تھا کہ صوبائی حکومتوں کو ماضی کی طرح بلدیاتی حکومتوں کو راتوں رات گھر بھیجنے کی پرانی روش ختم کرنا پڑتی اور ان کے حصے کے مالی وسائل کا پورا حصہ بانٹنا آئینی مجبوری بن جاتی۔تاہم پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے دو روزہ اجلاس میں آئینی عدالت اور مسلح افواج کے کمانڈ سٹرکچر جیسے اہم اور حساس معاملات کے ساتھ آرٹیکل 140-Aمیں ترمیم کو نتھی کرکے منظور کرانا نامناسب قرار دے کر ویٹو کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی آئینی عدالتوں کے قیام کو 2006ء کے چارٹر آف ڈیموکریسی کا نامکمل ایجنڈا سمجھتی آرہی تھی‘ جس کی تکمیل ہو گئی‘ مگر میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو میں ہوئے اس معاہدے میں مقامی حکومتوں کے بارے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں؛ 1:بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دیا جائے گا تاکہ غیرجمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں ختم یا معطل نہ کیا جا سکے۔ 2:اختیارات کی منتقلی نچلی سطح تک ایک حقیقی بلدیاتی نظام کے ذریعے کی جائے گی جو انتظامی‘سیاسی‘ اور مالی طور پر با اختیار ہو گا۔ 3: بلدیاتی انتخابات آزاد‘ منصفانہ اور شفاف طریقے سے ایک آزاد الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوں گے۔
چارٹر آف ڈیموکریسی کی ان سطروں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2010ء میں آئینِ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریے آرٹیکل 140-A (جس میں اب ترمیم کا مطالبہ ہے) شامل کیا‘ جس میں کہا گیا کہ ہر صوبہ قانون سازی کے ذریعے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے گا جن کو سیاسی‘ انتظامی اور مالی ذمہ داریاں پورے اختیارات کے ساتھ منتقل کی جائیں گی‘ اور بلدیاتی انتخابات بھی الیکشن کمیشن کے ذریعے ہوں گے۔ اس نئے آرٹیکل میں بلدیاتی نظام قائم کرنے تک تو آئینی تحفظ دیا گیا لیکن چارٹر آف ڈیموکریسی میں ان کی مدت اور مالی اختیارات کو غیرجمہوری ہتھکنڈوں سے بچانے کا ایجنڈا نامکمل چھوڑ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور اس کی لیڈرشپ کی طرف سے 27ویں ترمیم میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے ایک نامکمل ایجنڈے کو شامل کرنے اور دوسرے عوامی اہمیت کے ایجنڈے کو ویٹو کی بلی چڑھانے کی منطق بظاہر سیاسی سود و زیاں کی جمع تفریق کے سوا کچھ نہیں۔مگر حالات جیسے بھی ہوں‘ مجبوریاں سیاسی ہوں یا تکنیکی‘یہ عمل ملک میں بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دینے اور سیاسی و مالی طور پر با اختیار بلدیاتی اداروں کے قیام کے وعدے کے برعکس ہے۔
اب واپس چلتے ہیں میاں عامر محمود صاحب کی سیالکوٹ تقریب کی طرف۔ 33 ڈویژنل صوبوں اور ہائیکورٹس کی تشکیل میں حائل رکاوٹوں سے متعلق دیگر سوالات پر میاں عامر محمود صاحب نے طلبہ سے یہ سوال پوچھا کہ ''جن کو موجودہ نظام سے فائدہ ہے‘ وہ کیوں چھوٹے صوبوں کی حمایت کریں گے؟‘‘ اس پر اکثر طلبہ کے چہرے سوالیہ نشان بنے نظر آئے‘ جیسے پوچھ رہے ہوں کہ پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہال میں چند لمحوں کی اس خاموشی کو چیئرمین پنجاب گروپ کے ان الفاظ نے توڑا کہ مسلم لیگ (ن) صوبہ ہزارہ‘ پیپلز پارٹی صوبہ جنوبی پنجاب اور پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے علاوہ سندھ کے شہری علاقوں کو بھی الگ صوبہ بنانے کی بات تسلسل سے کرتی چلی آ رہی ہیں لیکن عملی طور پر مواقع اور اختیارات ہونے کے باوجود کسی حکومت نے ان پر عمل نہیں کیا‘ تو آپ طلبہ اور عوام کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کام انہیں اپنی جمہوری طاقت سے ہی کرانا پڑے گا اور ہمارا آپ(طلبہ) تک پہنچنے کا مقصد بھی یہی ہے۔
ایک طرف ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت‘ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اعلانیہ طور پر بلدیاتی نظام کیلئے آئینی ضمانت مانگ رہی ہیں لیکن وہیں اس بنیادی بات سے پہلو تہی کی مرتکب ہیں کہ مالی وسائل کی مقامی حکومتوں کو گارنٹی ان کے وجود کو آئینی تحفظ ملنے سے بھی نہیں مل سکتی کیونکہ صوبوں نے جب بھی بلدیاتی قوانین اسمبلی میں منظور کیے ان میں مالی تقسیم کا فارمولا صوبائی گرفت ہی میں رکھا۔ اگر کیس کو مضبوط کرنے کیلئے پنجاب کی رواں مالی سال کی مثال پیش کریں تو کمشنر‘ ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنر کے ذریعے چلائے جا رہے بلدیاتی نظام میں میونسپل کونسلیں 66 ارب 21 کروڑ‘ اور 11سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں 32 ارب 79 کروڑ کے قرضے لے کر ملازمین کی تنخواہیں اور ستھرا پنجاب سکیم کے اخراجات پورے کر رہی ہیں۔ حکومتِ پنجاب جو اسی سال 750 ارب روپے کے سرپلس یعنی صوبائی اخراجات کے بعد بھی خزانے میں یہ اضافی رقم کی مالک ہو گی‘ اپنے ہی بلدیاتی اداروں کی گرانٹس کے بجائے قرض کی پالیسی پر گامزن ہے۔ سندھ حکومت کا بھی دعویٰ ہے کہ اس نے بلدیاتی اداروں کو مکمل مالی خود مختاری دے رکھی ہے لیکن کراچی کے بلدیاتی ادارے اور شہری اس دعوے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
موجودہ بلدیاتی نظام کو جس طرح مرضی الٹ پلٹ کر دیکھ لیں‘ اس سے عوام کی دہلیز پر گڈگورننس کی دستک تک سنائی نہیں دے گی اور گلی محلوں میں برسہا برس سے کوڑے کے ڈھیروں‘ بجلی کی لٹکتی تاروں اور ترقیاتی منصوبوں میں گراس روٹ لیول کی کرپشن اور بیڈ گورننس کی نوحہ خوانی جاری رہے گی‘ لہٰذا آخری حل ڈویژنل صوبوں کا قیام ہی ہے‘ جو بالآخر بلاول بھٹو سے شہباز شریف اور پی ٹی آئی سے ایم کیو ایم تک سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔