گزشتہ ایک برس سے حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی فوری ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ ان دنوں آپ شادیوں کی تقریبات میں چلے جائیں یا عوامی چوکوں‘ چوپالوں میں بیٹھیں‘ ہر جگہ آپ کو ایک ہی صدا سننے کو ملے گی کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کرتی اور ملک کو موجودہ سیاسی ومعاشی بحران سے کیوں نہیں نکالتی۔
منگل کے روز وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کیساتھ مذاکرات پر آمادہ ہے تاہم بلیک میلنگ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا جواب تحریک تحفظ آئین پاکستان نے دیتے ہوئے حکومتی پیشکش قبول کر لی ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے حکومت کو اپنے وزرا اور اپوزیشن کو اپنے قائدین کی مکمل زباں بندی کرنی چاہیے۔ مایوسی‘ کنفیوژن اور غیر سنجیدگی کو ہوا دینے والے بیانات کا سلسلہ مکمل طور پر روک دینا چاہیے۔اس وقت ایسے مایوس کن بیانات کی بھرمار ہے‘ میں صرف ایک مثال دوں گا۔ جس روز وزیراعظم نے 'سنجیدہ‘ مذاکرات کی دعوت دی اسی روز وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات نہیں چاہتی‘ اُن کا ایجنڈا بغاوت ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان نے بھی بیان دیا کہ عمران خان کا پیغام ہے کہ مذاکرات نہ کیے جائیں‘ ڈرپوک لوگ فوری طور پر مذاکرات پر آ جاتے ہیں۔
مئی میں بھارت کی جارحیت کے جواب میں ہم نے جس طرح سے اس کے سات جہازوں اور اس کی طاقت کا بھرم پاش پاش کر دیا‘ اس سے ساری دنیا میں پاکستان کو سفارتی اور اخلاقی سطح پر زبردست کامیابی ملی۔ ابھی تک افواجِ پاکستان کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی واہ واہ ہو رہی ہے۔ جب اتنی کامیاب ایٹمی قوت کے بارے میں بیرونِ ملک لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ اس کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے‘ 40 فیصد سے زائد آبادی کو ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل نصیب ہوتا ہے‘ لاکھوں لوگ ہر سال تلاشِ معاش میں ملک سے باہر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ملک کی معیشت ایک گردابِ مسلسل میں گرفتار ہے۔ رواں سال ورلڈ بینک سے 700 ملین ڈالر اور آئی ایم ایف سے 1.2بلین ڈالر‘ اس سے پیشتر پانچ ماہ میں تقریباً تین بلین ڈالر کا قرض لیا گیا۔ جولائی تا نومبر ملکی بینکوں سے 858 ارب روپے قرضہ لیا گیا۔ پاکستان کے ذمے غیر ملکی قرضے 130 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں‘ سالانہ سود کی مد میں 19ارب ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ملک میں معاشی استحکام‘ خوشحالی‘ گڈ گورننس مفقود‘ امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے۔ عدل وانصاف کا حال سب کے سامنے ہے۔ ملک کی مجموعی ترقی سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی استحکام کیسے آتا ہے؟ ہر اس ملک میں ہمیں سیاسی استحکام نظر آتا ہے کہ جہاں انتقالِ اقتدار کا معین اور متعین طریق کار موجود ہو۔ ایسے ممالک میں آئین میں دی گئی چار‘پانچ سالہ مدت کے بعد خودکار طریقے سے نئے انتخابات ہو جاتے ہیں‘ وہاں دھاندلی اور فارم 47 کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔
قیامِ پاکستان سے اب تک وطنِ عزیز میں کسی ایک بھی وزیراعظم نے اپنی مدتِ ملازمت مکمل نہ کی۔ یہاں ہر بار منتخب وزیراعظم کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو ٹھنڈے دل ودماغ کیساتھ سوچنا چاہیے کہ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ہاں بقائے باہمی کے کلچر کا فقدان ہے۔ سیاسی اختلاف کو یہاں ذاتی دشمنی بنا لیا جاتا ہے۔ 2018ء سے 2025ء تک کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لینے سے بیان کردہ تمام سیاسی عوارض آپ کو نظر آ جائیں گے۔ دونوں حکومتوں میں بقائے باہمی کلچر مفقود جبکہ انتقامی رویہ عروج پر تھا۔ 2018ء کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نواز شریف کے جیل سیل سے ایئر کنڈیشنر اتروانے کی دھمکیاں دیتے تھے اور آج حکومت عمران خان کی بہنوں اور وکیلوں تک کو ان سے قانون کے مطابق ملاقات نہیں کرنے دیتی۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان نے 1973ء کے آئین کو اسکی اصل شکل میں بحال کرنے‘ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے‘ متفقہ نئے الیکشن کمشنر کی تقرری وغیرہ جیسے نکات کو مذاکرات کا ایجنڈا قرار دیا ہے۔ ان مطالبات میں عمران خان کی رہائی یا کیسز کے خاتمے کا کوئی ذکر نہیں۔ یادش بخیر کوئی دو دہائیوں قبل ایک میثاقِ جمہوریت لندن میں ہوا تھا۔ مگر پھر سیاستدانوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔ موجودہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ آئین میں من مانی تبدیلیاں کر کے‘ عدلیہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ''راہِ راست‘‘ پر لا کر وہ اقتدار پر اپنی دسترس کو دائمی بنا لیں گے۔
عمران خان کی حکومت بار بار باور کراتی تھی کہ ہماری حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں اور موجودہ حکومت بھی اسی تاثر کے سہارے اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ ریاستی اداروں بالخصوص فوج کا ہر حکومت کیساتھ ورکنگ ریلیشن شپ تو ہوتا ہے مگر اس کی ون پیج ریلیشننگ اپنی قوم کیساتھ ہوتی ہے۔ گولہ بارود اور توپ وتفنگ کے بعد فوج اور قوم کی یکجہتی ہی دفاعِ وطن کو ناقابلِ تسخیر بناتی ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قیادت حب الوطنی اور سنجیدگی کی شہرت رکھتی ہے۔ محمود خان اچکزئی اس اتحاد کے چیئرمین ہیں۔ جناب محمود خان اچکزئی سے ہماری بھی کچھ یاد اللہ ہے۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے سیاست میں نہایت جاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔ دستور پر عملدرآمد‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور مقتدرہ کو سیاست سے الگ کرنے کیلئے وہ ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
ان دنوں بہت سے لوگ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کو یاد کر رہے ہیں‘ جو بحالی ٔجمہوریت کیلئے باہم دست وگریباں جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھانے کی مہارت رکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں بابائے جمہوریت کا لقب دیا گیا۔ اب بحالی ٔجمہوریت کی قیادت کا اعزاز محمود خان اچکزئی کو حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح جناب اسد قیصر 2018ء کی اسمبلی میں بطور سپیکر اپوزیشن کے ممبرانِ اسمبلی کو فراخدلی کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کیلئے وافر وقت دیا کرتے تھے۔ اپوزیشن کی ساری ٹیم بات بگاڑنے والی نہیں ہے۔ شہیدِ جمہوریت خواجہ رفیق کے صاحبزادے خواجہ سعد رفیق اقتدار کے ایوانوں میں ہوں یا اپوزیشن بنچوں پر‘ یا قید خانوں میں‘ انہوں نے ہمیشہ حق بات کہنے اور جمہوریت کا پرچم سربلند رکھنے کی کوشش کی۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک سیمینار میں کہا کہ اس وقت میاں نواز شریف سب سے سینئر سیاستدان ہیں‘ وہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہی بات جناب محمود اچکزئی نے بھی کی۔ 1990ء کی دہائی میں اچکزئی نواز شریف کے اتحادی بھی رہے۔ دوسری جانب نواز شریف ''ووٹ کو عزت دینے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے رہے ہیں۔ آج پھر ووٹ کو عزت دینے کا مسئلہ درپیش ہے۔ قوم یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ اس موقع پر نواز شریف مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان میں ووٹ کو مستقلاً عزت دینے میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کامیاب ہو بھی گئے تو عمران خان نہیں مانیں گے۔ اچکزئی صاحب نے کامیاب مذاکرات کی دستاویز پر عمران خان سے دستخط کروانے کی گارنٹی دی ہے۔ اپوزیشن کی مذاکرات کیلئے اگر حکومت اپنی مذاکراتی ٹیم میں سپیکر ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کو شامل کرتی ہے تو اس بیل کے منڈھے چڑھنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اگر مذاکرات کے نتیجے میں 1973ء کا آئین اصلی حالت میں بحال ہو جاتا ہے‘ مستقلاً شفاف انتخابات کو یقینی بنا لیا جاتا ہے‘ ایک بااختیار اور متفقہ الیکشن کمشنر کی تقرری ہو جاتی ہے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو یہ کسی ایک جماعت کی نہیں سیاست اور جمہوریت کی جیت ہو گی۔