سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر اور سابق صدر ایف پی سی سی آئی میاں انجم نثار کے ایک بیان نے پاکستان میں نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے حوالے سے جاری بحث کو نئے رخ پر ڈال دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت زراعت مکمل طور پر صوبائی معاملہ ہے لہٰذا زرعی ترقی و تحفظ کیلئے منصوبہ بندی‘ اریگیشن ڈویلپمنٹ اور واٹر مینجمنٹ بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبے وفاقی حکومت کو اجازت دیں کہ وہ سٹریٹجک نوعیت کے آبی سٹرکچرز کی تعمیر کیلئے ایک ہزار سے 1200 ارب روپے ان کے حصوں سے ایٹ سورس کاٹ لے کیونکہ جب سیلاب آتے ہیں تو صوبوں کی کھڑی فصلیں ضائع ہوتی ہیں‘ دیہات کی سڑکیں اور دیگر انفراسٹرکچر تباہ ہوتا ہے اور سیلابی پانی کی ریت سے صوبوں کی زرخیز زمینیں کئی برس تک تقریباً بانجھ ہو جاتی ہیں۔ اس نقطہ نظر کو پاکستان کی کاروباری برادری کا نقطہ نظر سمجھا جانا بہت حد تک مناسب لگتا ہے۔ ایٹ سورس کٹوتی کا یہ بیان شاید کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنے اور ضمیر کے بجائے سیاسی انجینئر نگ کے قیدی سیاستدانوں کیلئے خطرناک ہو لیکن بھارت کی آبی دہشت گردی کے مذموم منصوبوں کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بیان وقت کے گھڑیال کی زور دار ٹک ٹک کے مترداف ہے۔ یہ تمہید اس لیے ہے کہ سیاستدان یہ باور کر لیں کہ ملک کی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے ذمہ دار کس طرف کھڑے ہیں اور صوبائی سیاست کی بنیاد پر قومی ایشوز پر بیانیہ کہاں کھڑا ہو گا۔ اب جائزہ لیتے ہیں کہ میاں انجم انثار جس شدت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ کس حد تک درست ہے اور کیا صوبے اس قابل ہیں کہ اپنے حصوں سے کٹوتی کی اجازت دے دیں؟
جہاں تک آبی مسائل کی شدت کا تعلق ہے تو صرف سیلابوں سے 2022ء میں 35 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور وفاقی حکومت کے تخمینے کے مطابق اس سال جی ڈی پی کا نو فیصد سیلاب کی نذر ہو گیا۔ سالِ رواں کے سیلاب میں ایک ارب ڈالر مالیت کی کھڑی فصلیں اور سڑکیں بہہ گئیں۔ صرف گزشتہ چار سال میں سیلابوں اور بارشوں سے چار ہزار کے قریب پاکستانی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ موسمی شدت کا بیرو میٹر صرف سیلاب نہیں! خشک سالی‘ ہیٹ ویوز اور سموگ جیسی ماحولیاتی بلائیں بھی ہیں۔ ان تمام کو دیکھیں تو پاکستان میں سالانہ نقصانات تین سے چار ہزار ارب روپے تک ہیں اور اب یہ کبھی کبھار والی بات نہیں رہی بلکہ پاکستان کے ماحولیاتی نظام کا ریگولر فیچر بن چکا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ صوبوں کے پاس دستیاب وسائل میں کتنی گنجائش ہے کہ وفاق کو براہِ راست کٹوتی کی اجازت دے دیں۔
وزارتِ خزانہ کے اعداد وشمار کے مطابق چاروں صوبائی حکومتوں نے رواں مالی سال (2025-26ء) کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں اپنے تمام ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے بعد مجموعی طور پر 781 ارب 24 کروڑ روپے اضافی یا سرپلس ظاہر کیے ہیں‘ یعنی یہ وہ پیسہ ہے جو ان کی ضرروت نہیں۔ صوبائی حکومتوں کے سرپلس کی تفصیلات میں جائیں تو سٹیٹ بینک آف پاکستان میں پنجاب کے کھاتے میں 442 ارب روپے پڑے ہیں‘ جو گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں ایک ہزار فیصد زیادہ ہیں۔ سندھ کے کھاتے میں 209 ارب روپے ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 58 فیصد اضافی ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت‘ جو وسائل کی کمی کا شور مچاتی رہتی ہے‘ کے سٹیٹ بینک اکاؤنٹ میں اخراجات کے بعد 77 ارب 21 کروڑ روپے سرپلس جمع ہیں جبکہ بلوچستان حکومت کے اکاؤنٹ میں سرپلس رقوم کا حجم لگ بھگ 54 ارب روپے ہے۔ ان اعدد وشمار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صوبے اگر اپنی زراعت کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے وفاق کو کچھ دینا چاہیں تو ان کیلئے مشکل نہیں۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ صوبوں نے وفاقی حکومت کے 30 جون 2026ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں 1464 ارب روپے کا سرپلس دینے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔ بعض قارئین کے ذہنوں میں سرپلس فنڈز کا یہ نظام دیکھ کر شاید یہ سوال اٹھتا ہو کہ صوبے اپنے پیسے استعمال کرنے کے بجائے وفاق کو سرپلس رکھنے کی یقین دہانی کیوں کراتے ہیں؟ اس کے پیچھے دراصل یہ منطق ہے کہ پرویز مشرف دور میں جب آئی ایم ایف سے معاہدے کیے گئے تو عالمی مالیاتی ادارے نے اپنے قرضوں کی واپسی کیلئے اخراجات کو ایک حد میں رکھنے کیلئے حکومتی کھاتے میں ہر وقت سرپلس ہونے کی شرط عائد کی تھی لیکن 2010ء کے ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ میں طے شدہ فارمولے کے تحت کل مجموعی ملکی وسائل میں صوبوں کا حصہ وفاق سے آگے نکل گیا (موجودہ ایوارڈ میں صوبائی حصہ 57.5 اور وفاقی حصہ 47.5 فیصد ہے) تو وفاق نے صوبوں کے کھاتے میں اضافی رقوم کو پاکستان کا سرپلس تسلیم کرنے کا مؤقف اختیار کیا‘ جسے آئی ایم ایف نے مان لیا حالانکہ صوبوں کے اس سرپلس کی مکمل ملکیت اور خود مختاری صوبائی حکومتوں کے پاس ہی رہتی ہے اور ان میں سے ایک پائی بھی واپس وفاقی خزانے میں کبھی نہیں گئی۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں یہ بات صاف ہے کہ پاکستان کو فاشسٹ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دریائے چناب کا رخ موڑ کر پانی روکنے کی دھمکی کو گیدڑ بھبکی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا دائمی بندوبست بھی کرنا ہو گا۔
بھارت دریائے چناب کا کتنا پانی روک سکتا ہے اس پر اگلے کالم میں بات کریں گے‘ اس وقت صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ 1951ء میں پانی کی پاکستان میں فی کس دستیابی 5260 مکعب میٹر تھی جو اَب آبادی بڑھنے اور تربیلا‘ منگلا اور چشمہ ڈیموں میں مٹی بھرنے کے باعث اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے کم ہوکر 900 مکعب میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے۔ UNDP اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ 2035ء تک یہ حجم 700 کیوبک میٹر سے بھی کم رہ جائے گا۔ ان اعداد وشمار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دریا سوکھ جائیں گے بلکہ ڈیموں کی سٹوریج صلاحیت فی کس دستیابی کا پیمانہ مانی جاتی ہے۔ اب بات کرتے ہیں سب سے اہم نکتے کی‘ وہ یہ کہ اس وقت بھاشا اور مہمند ڈیموں کے علاوہ داسو بجلی گھر تکمیل کے اہم مراحل میں ہیں‘ ان کی تکمیل اگلے پانچ سال میں ہو سکتی ہے لیکن اس کیلئے سالانہ 50 کروڑ ڈالر کا فارن ایکسچینج کَور اور پی ایس ڈی پی کے ذریعے کم از کم 600 ارب روپے کی ضرورت ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ بین الاقوامی پارٹنرز ان منصوبوں کی فنڈنگ میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بھاشا ڈیم کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ اس میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ مودی کے چناب پر کسی ایڈونچر کا سدباب کر سکتا ہے کیونکہ دریائے سندھ کا سالانہ بہاؤ اوسطاً 90 ملین ایکڑ فٹ کے ساتھ 70 فیصد سے زائد ہے۔ اب بلاول بھٹو بالخصوص اور دیگر سیاسی جماعتیں بالعموم یہ سوچ لیں کہ صوبہ پہلے ہے یا پاکستان؟