"ZAM" (space) message & send to 7575

بلدیاتی اداروں کا تحفظ اور نئے صوبے کا مطالبہ

پارلیمنٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد 28ویں ترمیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے‘ جس کے تناظر میں حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 140اے میں تبدیلی کے مطالبے کیساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر یہ ترمیم نہ ہوئی توکراچی اور حیدرآباد کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کراچی سے اٹھنے والی ان آوازوں کے تناظر میں چنیوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 28ویں ترمیم کے سلسلے میں عوامی نوعیت کے اہم ایشوز زیرِ غور ہیں‘ جن میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی)‘ بلدیاتی ادارے‘ آبادی اور صحت عامہ سے متعلق کنٹرول وغیرہ شامل ہیں‘ لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان ترامیم کیلئے ایک بڑے ''اگر‘‘ کی شرط لگا دی۔ یعنی اگر سیاسی اتفاقِ رائے ہوا تو...۔ رانا ثناء اللہ سیاسی لحاظ سے ملک کے ان مدبروں میں شامل ہیں جو پہلے تولتے اور پھر بولتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے پیچھے یقینا وہ زمینی حقائق ہوں گے جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت کی کلیدی پارٹنر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری فلور آف دی ہائوس اور عام گفتگو میں سامنے لا رہے ہیں۔ بلاول کا کہنا ہے کی این ایف سی کو اس حد تک نہیں چھیڑنے دیں گے کہ وفاقی قابلِ تقسیم محاصل میں صوبوں کا حصہ کم ہو جائے اور یہ کہ سندھ میں بلدیاتی اداروں بشمول میئرکراچی کو وہ وسائل اور خودمختاری حاصل ہے جو پورے ملک میں کسی جگہ نہیں۔
ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ وہ آرٹیکل 140اے میں ترمیم اسلئے چاہتی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومتوں کے کسی بھی ایڈونچرازم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ بنا دیا جائے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے قیام کے بعد ان اداروں کو بیک جنبش قلم لپیٹ دینے کی ایک پوری تاریخ موجود ہے۔ بلدیاتی اداروں کو تحفظ دینے کی حد تک پی ٹی آئی بھی متفق ہے۔ اس کے دورِ حکومت میں سینیٹر ثانیہ نشتر نے اس بارے میں ایک ترمیم ایوانِ بالا میں پیش کی تھی اور اس وقت کے سینیٹ کمیٹی آن لاء اینڈ جسٹس کے چیئرمین سینیٹر علی ظفر نے اس کی رپورٹ بھی پیش کر دی تھی۔ حالیہ دنوں میں اس بارے میں حکمران جماعت‘ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف تو واضح انداز میں سامنے آیا ہے‘ جس کے تحت پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ (ق)‘ استحکام پاکستان پارٹی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں نے ایک مشترکہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں منظور کی۔ رکن پنجاب اسمبلی احمد اقبال چودھری اور علی حیدر گیلانی کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد میں بلدیاتی اداروں کی موجودہ آئینی حیثیت کو ریاست کی تعریف سے بھی ٹکرائو قرار دیا گیا کہ خودمختار بلدیاتی اداروں کے مستقل وجود اور آئینی مدت سے قبل خاتمہ پاکستان کو نامکمل ریاست کے زمرے میں لے جاتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی اس قرارداد کی توثیق آئین پاکستان کا آرٹیکل 7 کرتا ہے جس میں ریاست کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں‘ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ لوکل باڈیز اور دیگر اتھارٹیز بھی ریاست کا حصہ ہیں۔ ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی‘ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) (پنجاب وِنگ) کے بلدیاتی اداروں کے مستقل تحفظ سے متعلق آرٹیکل 140 اے میں ترمیم پر اتفاقِ رائے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا بلدیاتی اداروں کے وجود کو آئینی تحفظ سے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر تین تین مریضوں کی المناک صورتحال تبدیل ہو جائے گی؟ یہ تحفظ سرکاری سکولوں میں سہولتوں کی کمی اور اساتذہ کی کم استعداد کے باعث بچوں کی ذہنی نشوونما کو لگنے والے زنگ کو روک لے گا؟ اور کیا اس ترمیم سے عوام کو سرکاری سروسز دہلیز پر ملنے کا درینہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟ ان تمام سوالوں کا گہرائی میں جائزہ لیں تو ان کا جواب بلدیاتی داروں کے موجودہ اور بعد از ترمیم ڈھانچے میں نہیں ملتا۔ مثال کیلئے ہسپتالوں کے نظام کو لیتے ہیں‘ جو اس وقت صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ بلدیاتی اداروں کے آئینی تحفظ کے بعد بھی یہ شعبہ ان اداروں کے ڈھانچے سے باہر ہی رہے گا۔ ہسپتالوں کی مثال اس لیے بھی زیادہ مؤثر ہے کہ انسان امیر ہو یا غریب‘ طاقتور ہو یا کمزور‘ بااثر ہو یا بے اثر‘ اس کا ہسپتالوں سے پالا پڑتا ہی ہے‘ اور جب وہ مجبور ہو جاتا ہے تو اپنی بے بسی اس کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دکھائی دیتی ہے۔ ایسی ہی ایک بے بسی کا سامنا مجھے حالیہ دنوں میں لاہور کے جناح ہسپتال میں کرنا پڑا‘ جہاں ریلوے کے دو مزدور بھائیوں کی بوڑھی بیمار ماں کیلئے بستر کے حصول کیلئے خوب تگ و دو کرنا پڑی۔ یہ خاتون بیک وقت دل‘ گردوں اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہے۔ ڈاکٹر ایمرجنسی ٹریٹمنٹ کے بعد اس مریضہ کو متعلقہ وارڈ میں بھیجنے کا آرڈر لکھ چکے تھے مگر جس وارڈ میں مریضہ کو بھیجا جانا تھا وہاں نہ صرف یہ کہ کوئی بستر خالی نہیں تھا بلکہ ایک بستر پر دو‘ دو مریض لٹائے گئے تھے۔ میں اور ایک ہیلتھ رپورٹر دوست بستر کے حصول کیلئے جُت گئے۔ محکمہ صحت میں اعلیٰ سطحی رابطوں تک کی کوشش کی‘ جس کے نتیجے میں ایک اہلکار کی بستر دلانے پر ڈیوٹی لگ گئی۔ خاصی بھاگ دوڑ کے بعد بھی یہ نتیجہ نکلا کہ رات گئے تک وہ اہلکار بھی مریض کے اٹینڈنٹس کیساتھ بے بسی کی تصویر بن چکا تھا کیونکہ وارڈ میں بستروں پر ڈبلنگ کے بعد اب ٹرپلنگ شروع چکی تھی۔ اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں کی جا رہی تھی کہ ان میں سے کتنے ہی مریضوں سے خطرناک انفیکشن دوسرے مریضوں کو منتقل ہو سکتا ہے۔ ادھر ایمرجنسی کا عملہ بار بار مریضہ کو وارڈ میں منتقل کرنے کا حکم صادر کر رہا تھا تو دوسری طرف وارڈ کی حالت ہائوس فل کا بورڈ لٹکائے ہوئے تھی۔ اس ساری صورتحال دیکھ کر احساس ہوا کہ اگر پنجاب حکومت نے جناح ہسپتال کے وسائل کم دیے ہیں تو انتظامیہ کیا کرے؟
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جناح ہسپتال سمیت لاہور کے پندرہ چھوٹے بڑے ہسپتالوں کا رواں سال کا بجٹ (پی کے ایل آئی اس میں شامل نہیں) 58 ارب روپے ہے۔ جناح ہسپتال سات ارب 86 کروڑ روپے کے ساتھ بجٹ سائز میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ پہلے نمبر پر میو ہسپتال کا بجٹ نو ارب چھ کروڑ اور دوسرے نمبر پر جنرل ہسپتال کا بجٹ آٹھ ارب 23 کروڑ روپے ہے۔ جناح ہسپتال میں ایک بستر پر تین‘ تین مریضوں کو دیکھ کر اس کے بجٹ کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ 66 فیصد بجٹ (پانچ ارب 19 کروڑ روپے) ڈاکٹروں‘ عملے اور دیگر سٹاف کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ باقی 34 فیصد میں سے 20 فیصد بجٹ بجلی‘ گیس اور پانی کے بلوں‘ پٹرول‘ گاڑیوں‘ سیمینارز‘ اندورن وبیرون ملک ٹریننگ اور دیگر مدات میں خرچ ہو جاتا ہے‘ جس کے بعد مریضوں کے لیے ادویات اور دیگر سہولتوں کے لیے بچتا ہے صرف 14 فیصد۔یعنی کل سات ارب 86 کروڑ کے بجٹ میں سے صرف ایک ارب نو کروڑ روپے۔ لاہور کے اس ایک ہسپتال کی صورتحال دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پہنچنے والے مریض کو صرف ڈاکٹری مشورے اور نرسنگ کی کسی حد تک سہولتیں مل سکتی ہیں‘ دعا کے ساتھ دوا کا بندوبست بھی اسے خود ہی کرنا پڑے گا۔
یہ صرف جناح ہسپتال کی نہیں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ پورے ملک کے سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کی منظر کشی ہے۔ اس کے بعد کون ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کے بعد ان ہسپتالوں میں کوئی انقلاب برپا کر دیں گی۔ اگر پنجاب ہی کو لیں تو لاہور میں بیٹھی صوبائی حکومت ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال کی وہ مانیٹرنگ کرسکتی ہے جو اس بگڑے نظام کی درستی کے لیے لازم ہو چکی ہے؟ چھوٹے انتظامی یونٹ یعنی ڈویژنل صوبے ہی اس مسئلے کا مستقل اور قابلِ عمل حل ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو 28ویں ترمیم میں بلدیاتی سسٹم کے تحفظ ہی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کم از کم ایک‘ ایک نئے صوبے کی منظوری بھی ایجنڈے میں شامل کرانی چاہیے۔ ہمارا تو یہی مشورہ ہے‘ اَگّے تیرے بھاگ لچھئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں