مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی: ''اقبال فراموشی‘‘۔ دل چاہتا ہے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے ایک نئی کتاب لکھنے کی فرمائش کروں‘ جس کا عنوان ہو: ''قائد فراموشی‘‘۔
یہ تو بھلا ہو پروفیسر احسن اقبال صاحب کا کہ 'اُڑان پاکستان‘ کیلئے فکرِ قائد سے راہنمائی لیتے ہوئے انہوں نے اس پروگرام کو اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کی اقدار سے جوڑا اور 25 دسمبر کو اسلام آباد میں ایک بھرپور تقریب کر ڈالی۔ آرٹ اور کلچر‘ اقلیتوں اور خواتین کے حقوق‘ خارجہ پالیسی اور تصورِ ریاست جیسے موضوعات پر ماہرین نے قائداعظم کے وژن پر فکر انگیز گفتگو کی۔ تقریب کے شرکا کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ یہ قائداعظم کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا نصابی کتب میں انہیں بتایا گیا۔ اس تقریب میں قائد کی شخصیت کے وہ گوشے بے نقاب ہوئے جن پر میڈیا میں کبھی بات ہوئی نہ نصاب میں۔ یہ تقریب ریاست کی طرف سے فرض کفایہ تھی۔ ورنہ حکومت کیلئے شاید قائد کی اب اتنی ہی اہمیت ہے کہ دیوار اور نوٹ پر ان کی تصویر چپکا دی جائے۔
تقریب کے بعد جب احسن صاحب کے ساتھ ڈاکٹر محمد ریاض صاحب اور ڈاکٹر فاروق صاحب جیسے قائد شناسوں کی موجودگی میں بات ہوئی تو سب نے اس قلق کا اظہار کیا کہ قائد پر کوئی بامعنی تحقیقی کام آگے نہیں بڑھ رہا۔ ایک بے حسی ہے جو ہم پر طاری ہے۔ زیدی صاحب کے بعد قائداعظم اکیڈمی کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں۔ قائداعظم کی تقاریر پر تحقیق ابھی تک اہلِ علم پر قرض ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے مختلف شعبۂ زندگی کیلئے جو راہنما اصول دیے‘ اس کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی کام نہیں ہوا۔ احسن صاحب نے پیشکش کی کہ اہلِ دانش اس پر پراجیکٹس بنائیں‘ حکومت وسائل فراہم کرے گی۔ 'سیرت چیئرز‘ کیلئے انہوں نے جس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا ہے‘ اگر وہ یہاں بھی بروئے کار آئی تو مستقبل میں اچھی خبر کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
اپنے طالب علمانہ سفر میں مَیں نے یہ محسوس کیا کہ قائداعظم کو سمجھنے میں ہم نے کوتاہی کا ارتکاب کیا۔ یہ غلطی ان کے بہت سے معاصرین سے بھی ہوئی اور سب سے بڑھ کر غفلت کا مظاہرہ مسلم لیگ نے کیا۔ آج ہر مذہبی اور سیاسی راہنما کے گرد عقیدت اور عظمت کا ہالہ ہے جسے ان کے متاثرین نے بڑی محنت کے ساتھ بنایا ہے۔ کوئی دیدہ ور ہے‘ فخرِ ایشیا ہے‘ غزالی ٔدوراں ہے‘ شیخ العرب و العجم ہے‘ امام الہند ہے۔ قائداعظم محض بانیٔ پاکستان ہیں۔ تاریخ نے ان کو یہ ایسا اعزاز عطا فرمایا ہے کہ ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔ قائد مگر اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔ اس سے ہم بے خبر ہیں۔
قائداعظم کے دو امتیازات غیرمعمولی ہیں‘ جنہوں نے بطورِ خاص مجھے متوجہ کیا۔ بیسویں صدی میں دنیا بھر کی محکوم اقوام آزادی کیلئے میدان میں تھیں۔ اس پر کم و بیش اتفاق کر لیا گیا کہ انقلاب ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ انقلاب کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خون بہائے بغیر نہیں آتا۔ یہاں برصغیر میں بھی 1857ء سے اسی سوچ کا غلبہ تھا۔ کیا مذہبی اور کیا غیر مذہبی‘ سب یہی سمجھتے تھے۔ اس فضا میں قائداعظم نے آئینی اور سیاسی جدو جہد کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے تشدد کو پسندکیا اور نہ کبھی مذاکرات کا دروازہ بند کیا۔ یہ سوچ سرسید کی تھی اور سیاست پر اس کا اطلاق قائداعظم نے کیا۔ دونوں کامیاب رہے۔ انقلابی سوچ تاریخ کے راستے کا غبار بن گئی۔
ان کا دوسرا بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہ سیاست میں ہمیشہ غیرجذباتی اور حقیقت پسند رہے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے یہ چاہا کہ پاکستان ایک نئی تاریخ کا نقطۂ آغاز بنے۔ نئے سفر میں ماضی کی تلخیاں اہلِ پاکستان کے ہم رکاب نہ ہوں۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ لوگ تحریکِ پاکستان کی نفسیاتی فضا سے باہر آئیں اور اس تاریخی تبدیلی کا شعوری سطح پر ادراک کریں۔ آزادی کا تصور ذمہ داری میں ڈھل جائے اور زندگی ایک نظم کے تابع ہو جائے۔ یوں تو بطور گورنر جنرل ان کی ہر تقریر اہم ہے مگر ڈھاکہ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج پشاور میں انہوں نے نوجوانوں کو جو نصیحت کی‘ وہ بطورِ خاص غور طلب ہے۔ 24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''آزادی اس بات کا لائسنس نہیں کہ دوسروں اور ریاست کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو آپ کے جی میں آئے آپ کریں‘ اور جو رویہ چاہیں اپنائیں۔ آج ہمیں ایک تعمیری سوچ کی ضرورت ہے نہ کہ اُس دور کے جنگجویانہ اور عسکری اندازِ فکر کی جب ہم آزادی کیلئے لڑ رہے تھے۔ حصولِ آزادی کیلئے مسلح جد وجہد سے زیادہ مشکل کام تعمیر ہے۔ جیل جانا آسان ہے اور امورِ مملکت چلانا مشکل‘‘۔
12اپریل 1948ء کو قائداعظم پشاور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سے ہم کلام ہوئے۔ انہوں نے بدلتے ہوئے حالات کی طرف نئی نسل کو متوجہ کیا: ''سب سے پہلے آپ نے اس فرق کو سمجھنا ہے جو آزادی سے پہلے اور بعد کے حالات اور مسائل میں ہے۔ آزادی سے پہلے ہم جس حکومت پر تنقید کر رہے تھے‘ وہ ایک غیرملکی حکومت تھی۔ ہم اس حکومت کو اپنی حکومت سے بدلنا چاہتے تھے۔ اس کیلئے ہمیں بہت قربانیاں دینا پڑیں‘ جن میں نئی نسل کے تعلیمی مستقبل کی قربانی بھی شامل ہے۔ اب‘ جبکہ آپ کا اپنا ملک اور حکومت ہے‘ اب سیاسی‘ سماجی اور معاشی مسائل اور ذمہ داریوں کے حوالے سے آپ کی سوچ کو بدل جانا چاہیے۔ اب اپنے اندر تنظیم پیدا کریں۔ کردار کو پختہ کریں اور ٹھوس تعلیمی بنیادیں اٹھائیں۔ اب دلجمعی کے ساتھ حصولِ تعلیم پر لگ جائیں۔ اپنی ذات‘ والدین اور ملک کے حوالے سے یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ آپ اطاعت کرنا سیکھیں۔ اس کے بعد ہی آپ کو حکم دینے کا سلیقہ آئے گا۔ میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اپنے افعال کو غیرمصدقہ اطلاعات‘ نعرہ بازی اور خوش کن الفاظ کا اسیر بنائیں‘ نہ انہیں طوطے کی طرح دہرائیں‘‘۔ آخری جملے کا مخاطب تو لگتا ہے سوشل میڈیا کی جھوٹی خبروں سے متاثر آج کی نوجوان نسل ہے۔
اس مؤقف کے حق میں بہت سے ایسے اقتباسات پیش کیے جا سکتے ہیں کہ قائد نئی سوچ کے ساتھ تعمیرِ پاکستان کا سفر شروع کرنا چاہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو سوچ قیامِ پاکستان سے پہلے اپنائی گئی تھی‘ وہ نئے حالات کیلئے سازگار نہیں ہے۔ اب آپ محکوم نہیں‘ حاکم ہیں۔ اقلیت نہیں‘ اکثریت ہیں۔ اب آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلیں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ کبھی آپ بھی اقلیت تھے۔ میرا تاثر ہے کہ دو قومی نظریے کے باب میں بھی قائد نئے انداز سے سوچ رہے تھے کیونکہ اب وہ جس 'قوم‘ کی نمائندگی کر رہے تھے‘ اس کی بنیاد نظریہ نہیں‘ جغرافیہ تھی۔ اس میں صرف مسلمان نہیں‘ غیرمسلم بھی شامل تھے۔ اب یہاں مسلم تہذیب کو اس طرح متشکل ہونا تھا کہ وہ غیرمسلموں کیلئے رحمت ہو اور وہ کسی مذہبی جبر کا شکار نہ ہوں۔
قائد فراموشی کے اس رویے کا یہ نتیجہ نکلا کہ قائداعظم کے افکار کی روشنی میں جدید مسلم قومی ریاست کی تشکیل نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ نے اس باب میں اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ اگر علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار کی روشنی میں ابتدا ہی میں ریاستی ڈھانچہ کھڑا ہو جاتا تو یہاں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت اتنی مضبوط نہ ہوتیں کہ ریاست ان کی یرغمال بن جائے۔ قائد و اقبال کی فکری وارثت کو آگے نہ بڑھانے کی یہ سزا ملی کہ قدرت نے اس قوم کو مذہبی انتہا پسندی کے حوالے کر دیا۔ اگر پروفیسر فتح محمد ملک صاحب قلم اٹھائیں تو اس مقدمے کی صحت اور عدم صحت واضح ہو سکتی ہے۔