(5) جون 2025ء میں وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے لیے ایکٹ نمبر 11 نافذ کیا گیا ہے‘ اس میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کے نکاح کرنے‘ کرانے اور نکاح پڑھانے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کیلئے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ یہ قانون تمام صوبوں سے بھی منظور کرایا جا سکتا ہے‘ جبکہ سندھ کی حکومت پہلے ہی ایک ایسا قانون بنا چکی ہے۔ یہ اجلاس واضح الفاظ میں قرار دیتا ہے کہ یہ قانون قرآن وسنت کے بالکل خلاف ہے۔ اسلام میں نکاح کی کوئی عمر مقرر نہیں ہے۔ بالخصوص بلوغ کے بعد جو ہمارے ملک میں عموماً بارہ سے پندرہ سال کی عمر تک ہو جاتا ہے‘ کسی شخص کیلئے نکاح پر پابندی عائد کرنا موجودہ ماحول میں ناجائز تعلقات اور فحاشی کے فروغ کے مترادف ہے۔ حیرت ہے کہ جو فعل شریعتِ اسلامی کی روسے جائز ہے‘ اُسے زنا بالجبر قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس اجلاس کا متفقہ مطالبہ ہے کہ وفاق اور سندھ کے امتناعِ نکاح کے اس خلافِ شرع قانون کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔
نکاح کی کم از کم عمر کے حوالے سے ایسا کوئی متفقہ قانون امریکہ کی پچاس ریاستوں میں بھی موجود نہیں ہے اور ہم اس پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ حکومت کو مباح امور میں مصلحتِ عامّہ کے تحت قانون سازی کی اجازت ہے‘ لیکن اللہ کے حلال کو حرام اور جرم قرار دینے کی قطعاً کسی حکومت کو اجازت نہیں ہے‘ ایسے قوانین بناتے وقت اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے۔
(6) ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء میں نافذ ہوا تھا‘ اسے وفاقی شرعی عدالت قرآن وسنت کے خلاف قرار دے چکی تھی‘ لیکن حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں اپیل دائر کر دی جو ابھی تک زیر التوا ہے‘ اس کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہے اور قانون فی الحال جوں کا توں موجود ہے۔ البتہ شنید ہے کہ پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی اس میں ترمیم پر غور کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کے بارے میں دینی طبقات کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ شریعت کے خلاف قانون سازی کا راستہ بند ہو سکے۔ یہ اجلاس واضح الفاظ میں یہ قرار دیتا ہے کہ تخلیقی طور پر جس شخص کی جنس مشتبہ ہو‘ اسے اسلامی اصطلاح میں''خُنثیٰ‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس کیلئے شریعت میں مفصل احکام موجود ہیں‘ اُن میں یہ بھی داخل ہے کہ انہیں معاشرے میں باعزت شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے‘ ان کی بے عزتی سے پرہیز کیا جائے اور دیگر تمام شہریوں کی طرح ان کو تمام جائز حقوق کی ضمانت دی جائے۔
لیکن ٹرانس جینڈر کی اصطلاح جس معنی میں مغرب کی طرف سے گھڑی گئی ہے‘ اس کا خُنثٰی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹرانس جینڈر کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے مذکر یا مؤنث ہونے کا فیصلہ اپنی حیاتیاتی یا تخلیقی بنیاد پر نہیں بلکہ خود اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر کر سکتا ہے‘ یہ درحقیقت ہم جنس پرستی کو لائسنس دینے کیلئے ایک مخفی دروازہ ہے‘ مغرب نے انسان کی اصناف صرف مرد‘ عورت اور خنثیٰ کی حد تک محدود نہیں رکھیں بلکہ انسان کی بہت سی اصناف بنادی ہیں جنہیں+ LGBTQ کہا جاتا ہے اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے‘ اسلامی تعلیمات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(7) یہ اجتماع اس بات پر یقین رکھتا ہے اور علماء کی طرف سے اس کا بار بار اعلان کیا گیا ہے کہ ملک میں حالات کی اصلاح اور شریعت کے نفاذ کیلئے صرف پُرامن آئینی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے اور ہمارے دستوری اور قانونی ڈھانچے میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ اس غرض کیلئے مسلح جدوجہد نہ موجودہ حالات میں اسلام کا تقاضا ہے اور نہ شریعت کی مصلحت اسکی متقاضی ہے۔ اسوقت متعدد داخلی اور بیرونی عناصر ملک کو کمزور کرنے اور داخلی انتشار کے ذریعے اس کو تقسیم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی مسلح جدوجہد چاہے وہ اسلام کے نام پر ہو یا قومیت کے نام پر‘ اسکا فائدہ صرف ملک دشمن عناصراور بھارت ہی کو پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا ہم ایک بار پھر ملک میں حکومت مخالف ہرقسم کی مسلح جدوجہد کی شدید مذمت کرتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ اسے کوئی شرعی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا‘ البتہ حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان شورشوں کو ختم کرنے کیلئے جائز مطالبات پرتوجہ دے اور اس مسئلے کو دینی وملّی حکمت ومصلحت اور تدبر کیساتھ حل کرے۔
(8) یہ اجتماع اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدہ حالات پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتا ہے‘ یہ صورتحال دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے اور اس سے صرف اسلام دشمن قوتوں اور بھارت کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم امارتِ اسلامیہ افغانستان سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو ان مفسد اور تخریب کار گروہوں اور طبقات کی آماجگاہ نہ بنائے جو وہاں دستیاب سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں‘ ہمارے دفاعی ادارے انہی گروہوں کو فتنۃ الخوارج اور فتنۂ ہندوستان سے تعبیر کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کابل یونیورسٹی میں افغان علماء ومشایخ کے ایک بڑے نمائندہ اجتماع نے اس سلسلے میں جو متفقہ قرارداد منظور کی ہے اور قرار دیا ہے کہ کوئی اسلامی ملک اپنی سرزمین کو برادر اسلامی ملک کے خلاف تخریب وفساد اور دہشت گردی کی کمین گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ ہم امارتِ اسلامیہ افغانستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قرارداد کو وہ اپنی ریاستی پالیسی کا رہنما اصول بنائے اور اسے لفظاً اور معناً نافذ کرے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ سکیں۔ قوموں اور ملکوں کے مسائل باہمی مکالمے سے حل ہوتے رہے ہیں اور اب بھی اس کا قابلِ عمل اور قابلِ قبول دیر پا حل یہی ہے۔ لازم ہے کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین قیادت مل بیٹھے اور کسی مزید نقصان کے بغیر سارے مسائل کا مثبت اور قابلِ عمل حل نکالا جائے تاکہ دونوں پڑوسی برادر ممالک کے تعلقات معمول پر آئیں اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ دونوں ممالک کے درمیان نقل وحمل اور تجارت کا سلسلہ کسی خلل کے بغیر جاری رہے۔ اسی میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ ماضی کی اچھی باتوں کو یاد رکھا جائے اور ناخوشگوار باتوں سے صرفِ نظر کیا جائے‘ یہی دونوں ممالک کے ملکی‘ ملی‘ قومی اور اسلامی مفاد میں ہے۔ پُرامن افغانستان پاکستان سے لے کر وسطی ایشیائی ممالک کو ایک لڑی میں پرو سکتا ہے اور پاکستان میں سی پیک کا جو منصوبہ جاری ہے‘ اسے افغانستان کے ذریعے دیگر ممالک تک رسائی دی جا سکتی ہے‘ اس کے نتیجے میں یورپی یونین کے طرز پر اس خطے کی مشترکہ مارکیٹ بھی وجود میں آ سکتی ہے۔
(9) تمام مکاتبِ فکر کا یہ نمائندہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دینی مدارس وجامعات کے ساتھ کے گئے میثاق اور اس کی بنیاد پر نافذ ہونے والے قانون پر لفظاً ومعناً عمل کیا جائے اور اس میں نت نئی رکاوٹیں پیدا نہ کی جائیں۔ حکومتی اداروں کے بعض اپنے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر بیٹھے ہیں‘ ریاست وحکومت ان کی تعلیم کا انتظام کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں دینی مدارس وجامعات کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے کہ یہ اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اور قومی خزانے پر بوجھ ڈالے بغیر دینی وعصری تعلیم کے ساتھ اُن کی کفالت بھی کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات ان اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ ادارے انہی علاقوں سے‘ جہاں آج شورش ہے‘ قوم کے بچوں کو لا کر پاکستان کے محبِّ وطن شہری اور اچھے مسلمان بناتے ہیں اور شرحِ تعلیم میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس وجامعات اپنے نظامِ تعلیم اور نصاب کیلئے پہلے کی طرح آزاد رہیں گے۔ دینی مدارس وجامعات نے کسی بھی حکومتِ وقت کیلئے نہ پہلے مسائل پیدا کیے ہیں اور نہ اب کریں گے اور حکومت ان اداروں کو اپنا حریف سمجھنے کے بجائے اپنا حلیف سمجھے‘ کیونکہ تعلیم کا فروغ اور ملک وملت کا مفاد ہم سب کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ (جاری )