"KMK" (space) message & send to 7575

2025ء کا نیویارک اور 1933ء کا کراچی

میں پاکستان میں عمومی اور بیرونِ پاکستان خصوصی طور پر پاکستانی سیاست پر گفتگو کرنے سے حتی الامکان پرہیز کرتا ہوں۔ پاکستان میں تو پھر بھی خیر ہے‘ پاکستان سے باہر پاکستانی سیاست پر گفتگو کرنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال لینا ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا بھی کم تکلیف دہ کام ہے کہ وہ صرف ڈنک مارتی ہیں جبکہ اپنے مرشد کی اندھی محبت میں مبتلا ہمارے بیرونِ ملک رہائش پذیر دوست‘ جن کی اکثریت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے‘ نہایت غیر حقیقت پسندانہ گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ یہ توقع کرتے ہیں کہ آپ ان سے من وعن اتفاق کریں اور اختلاف کی صورت میں باقاعدہ لڑنے پر آ جاتے ہیں۔ اس لیے کسی متوقع بدمزگی اور تعلقات میں خرابی سے بچنے کیلئے میں پاکستانی سیاست پر ان کی جانب سے کسی سوال پر اپنی نالائقی اور ان کی سیاسی بلوغت کا اعتراف کرتے ہوئے کسی قسم کی مزید گفتگو سے دستبرداری کا اعلان کر دیتا ہوں۔ ہاں البتہ اگر گفتگو کا موضوع مقامی سیاست ہو تو میں طالب علم کی حیثیت سے نہ صرف اپنے دوستوں کی گفتگو کو بغور سنتا ہوں بلکہ اپنے تشنہ سوالات کی آبیاری بھی کرتا ہوں۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ لاس اینجلس میں رہنے والے اپنے دوست اور چھوٹے بھائی شفیق کے علاوہ بہت ہی کم دوست ایسے ہیں جو مقامی سیاست سے دلچسپی بھی رکھتے ہوں اور اس سلسلے میں مقامی سیاست کی حرکیات سے آگاہی بھی رکھتے ہوں۔
میرا بیرونِ ملک رہائش پذیر پاکستانی دوستوں سے ہمیشہ یہ اختلاف رہا ہے کہ وہ اپنے رہائشی ملک سے زیادہ اپنے سابقہ ملک کی سیاست میں دخیل ہیں۔ پہلے تو وہ میرے پاکستان کو سابقہ ملک کہنے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ پھر جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا انہوں نے مستقلاً پاکستان واپس جانا ہے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بمشکل اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اب بہرحال انہوں نے واپس پاکستان نہیں جانا لیکن اس کیساتھ ساتھ وہ اس بات پر شدید اصرار کرتے ہیں کہ انکا پاکستان سے تعلق ختم نہیں ہو سکتا اور وہ اتنے ہی محب وطن اور پاکستان کے بارے میں اتنے ہی فکرمند ہیں جتنا کہ میں ہو سکتا ہوں۔ میں نے اب ایسے دوستوں سے اس معاملے میں بھی بحث کرنا بند کر دی ہے اور انکے اس دعوے کو بلا رد وکد قبول کر لیتا ہوں۔ تاہم ان سے بڑی عاجزی سے درخواست کرتا ہوں کہ اب انہوں نے اور ان سے بڑھ کر ان کے بچوں نے واپس پاکستان نہیں جانا۔ انکی اگلی نسل کا سب کچھ اسی ملک سے وابستہ ہے اسلئے وہ اپنی ساری سیاسی قوت اُس ملک پر صرف کرنے کے بجائے جہاں انہوں نے واپس پلٹ کر نہیں جانا‘ اِس ملک میں لگائیں جس سے ان کا اور ان کی اگلی نسل کا مستقبل وابستہ ہے۔ وہ یہاں کی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں‘ یہاں اپنی سیاسی طاقت کو مجتمع کرتے ہوئے یہاں کی پارلیمانی طاقت میں اپنا اثر ورسوخ اور عددی تعداد بڑھائیں۔ یہ ان کیلئے فائدہ مند ہونے کیساتھ پاکستان کیلئے بھی بہت سودمند ہوگا کہ پاکستان کو ابھی عالمی سطح پر بہت سے ایسے مسائل کا سامنا ہے جسے وہ اس ملک کی سیاست میں اپنے عمل دخل سے بہتر یا کم کر سکتے ہیں۔
گزشتہ روز دوستوں کی ایک محفل میں نیویارک کے میئر کے الیکشن اور زہران ممدانی کی کامیابی کی بات چلی تو ایک دوست کہنے لگا کہ یہ اس ملک کے سیاسی نظام کی شفافیت اور غیر جانبداری ہے کہ نیویارک جیسے یہودی اثرات تلے دبے ہوئے شہر کا میئر ایک مسلمان بن جاتا ہے۔ نیویارک میں یہودی لابی کی آشیر باد کے بغیر میئر جیسے اہم عہدے پر جیتنا تو رہا ایک طرف‘ مقابلہ کرنا بھی بعید از قیاس سمجھا جاتا تھا کجا کہ فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر آپ ایک واضح موقف رکھتے ہوئے الیکشن لڑیں اور پھر جیت بھی جائیں۔ میں نے اس پر اپنے اس دوست کو کہا کہ یہ صورتحال تو میرے مؤقف کی تائید کرتی ہے کہ آپ اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی یہاں کی سیاست میں آگے جا سکتے ہیں کہ یہاں آپ کے سامنے وہ مسائل ہرگز نہیں ہیں جن کا سامنا ایک عام آدمی پاکستانی سیاست میں کرتا ہے۔ اس پر پاکستان میں مذہبی رواداری کی کمی‘ ذات برادری کی قباحتوں اور فرقہ وارانہ تقسیم پر بحث شروع ہو گئی۔ ایک دوست کہنے لگا کہ نیویارک میں پانچ Boroughs ہیں۔ یہ پانچ چھوٹے شہر مین ہٹن‘ بروکلین‘ کوئینز‘ دی برونکس اور سٹیٹن آئی لینڈ ہیں جو مل کر نیویارک شہر کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس کی کُل آبادی پچاسی لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔ اب اگر آپ اس پچاسی لاکھ کو نسلی اور مذہبی حساب سے دیکھیں تو آپ کو کئی حیران کن باتیں دکھائی دیں گی۔ نسلی اعتبار سے اس شہر کی کُل آبادی کا تقریباً 36 فیصد گوروں پر مشتمل ہے‘ 23 فیصد کے لگ بھگ سیاہ فام افریقی امریکن اس شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ 14.5 فیصد کیساتھ ایشیائی اس آبادی میں تیسرے بڑے نسلی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں چینی‘ بھارتی‘ پاکستانی‘ بنگلہ دیشی اور دوسرے ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ 25 فیصد سے زائد آبادی ملٹی ریشل یعنی مخلوط النسل اور محض ایک فیصد کے لگ بھگ مقامی امریکی یعنی Natives ہیں۔
اگر آپ نیویارک کی پچاسی لاکھ آبادی کا مذہبی جائزہ لیں تو یہاں کے تقریباً 60 فیصد لوگ خود کومسیحی قرار دیتے ہیں اور ان کی اکثریت کیتھولک ہے۔ اس شہر کی آبادی کا آٹھ فیصد یہودیوں پر مشتمل ہے؛ یعنی یہودی عددی اعتبار سے یہاں کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے۔ یہ اور بات کہ ان کی سیاسی اور معاشی گرفت اس شہر پر بہت ہی مضبوط ہے۔ دوسری بڑی اقلیت مسلمان ہیں جو محض تین فیصد ہیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی شرح دو فیصد ہے۔ بدھ مت ایک فیصد اور دیگر اقلیتیں بھی ایک فیصد ہیں۔ لامذہب افراد کی تعداد 22 فیصد ہے جبکہ تین فیصد کے لگ بھگ لوگوں نے اپنی مذہبی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ جس شہر میں محض تین فیصد مسلمان ہوں اور وہ بھی درجن سے زائدمسلم ممالک سے تعلق رکھتے ہوں؛ یعنی پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ ایران‘ ترکی‘ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے علاوہ افریقی ممالک اور بہت چھوٹی تعداد امریکی نو مسلموں کی ہو وہاں یہ تین فیصد بھی بھلا کب ایک شخص پر متفق ہو سکتے ہیں؟ ایسے میں پچاسی لاکھ کی آبادی والے شہر میں کُل اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں میں سے ایک شخص اس شہر کا میئر بن جائے اور وہ بھی ایسے عالم میں کہ سارے یہودی‘ تمام سرمایہ دار اور امریکی صدر بھی اس کی مخالفت میں ایک پلیٹ فارم پر ہوں تو اس کی جیت کو آپ کیا کہیں گئے؟ یہ مذہبی تنگ نظری‘ نسلی تعصب اور سیاسی تقلید کی نفی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسا صرف اور صرف عالم کفر میں ممکن ہے جہاں لندن کا میئر صادق خان بن جاتا ہے‘ مانچسٹر میں افضل خان اس شہر کی سات سو سالہ تاریخ میں پہلا مسلمان اور پاکستانی نژاد میئر بن جاتا ہے اور بھارتی نژاد والدین والا مسلمان زہران ممدانی نیویارک کا میئر منتخب ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ہمارے ہاں ہونا ممکن ہے؟ ہمارے خطے کی تاریخ میں کبھی ایسا ہو سکتا ہے؟
میں نے کہا: ہمیں تو بتدریج بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی‘ آمریت کے مسلط کردہ مذہبی اور لسانی جتھوں‘ مارشل لاؤں کے عطا کردہ برادری ازم‘ خاندانی سیاست کے عفریت اور ڈگڈگی تماشا دکھانے والے مداریوں نے کہیں کا نہ چھوڑا وگرنہ جو مذہبی اور نسلی کھلا پن مانچسٹر 2005ء میں‘ لندن 2016ء میں اور نیویارک 2025ء میں دکھا رہا ہے وہ کراچی آج سے 92 سال قبل جمشید نسروانجی مہتا جو پارسی تھے‘ کو اس شہر کا میئر منتخب کرکے ثابت کر چکا ہے۔ تب کراچی شہر میں پارسیوں کی تعداد کُل آبادی کا محض ایک سے ڈیڑھ فیصد تھی۔ جمشید نسروانجی کو آج بھی بابائے کراچی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قارئین! آج اتنا ہی کافی ہے‘ تفصیل اگلے کالم میں عرض کروں گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں