2026ء میں ہم کیا کریں گے؟

کل ہم 2025ء کو خیر باد کہنے والے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ہر سال 31 دسمبر کی یخ بستہ شب کو ساری دنیا میں جشن کیوں منایا جاتا ہے اور گلی کوچوں اور عمارتوں کو چراغوں اور قمقموں سے بقعہ نور کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیا یہ جشن سالِ رفتہ کی کامیابی کیلئے ہوتا ہے یا سالِ نو سے جڑی امیدوں کے استقبال کیلئے‘ اس سال بھی ایسے ہی ہو گا۔ مگر ذرا رک کر غور تو کرنا چاہیے کہ کیا کرۂ ارض پر 2025ء جس طرح سے گزرا ہے‘ اس میں انسان یا بحیثیت مجموعی انسانیت کو کامیابی حاصل ہوئی یا ناکامی ملی؟ دنیا بھر کے طاقتوروں اور فیصلہ سازوں نے 2026ء میں انسان کی من حیث الکل فلاح و بہبود کیلئے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ وقت تو ایک بہتا ہوا سمندر ہے۔ ازل سے اس کا آغاز ہوا اور ابد تک یونہی بہتا چلا جائے گا۔ انسان نے محض اپنی آسانی کیلئے وقت کو مہ و سال میں تقسیم کر رکھا ہے۔
2025ء غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور یوکرین میں جنگ کے شعلوں کے علاوہ غریب ممالک کیلئے بطورِ خاص تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ جنگ‘ بھوک‘ موسمیاتی تبدیلی اور عالمی امداد میں شدید کمی نے انسانی بحران کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ اس وقت دنیا میں 61 جنگیں جاری ہیں۔ سوڈان میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے لوگوں کو معاشی بدحالی بلکہ قحط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں‘ بطور خاص سوڈان میں جنگی صورتحال کے باعث لاکھوں افراد اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ خوراک کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ چھ کروڑ سے اوپر بچوں کو اتنی خوراک بھی مشکل سے مل رہی ہے جس سے ان کے جسم و جان کا رشتہ قائم رہ سکے۔ عالمی خوراک پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ 2026ء تک 31 کروڑ 80 لاکھ افراد شدید غذائی بحران کا سامنا کریں گے۔ انسان اپنی بے تحاشا ترقی کے باوجود اس دنیا پر بسنے والوں کو کشت و خون سے محفوظ رکھنے اور جنگوں کی تباہ کاریوں سے نجات دلانے کی کوئی مؤثر تدبیر اختیار نہیں کر سکا۔ مختصر یہ کہ انسان اس گلوبل ویلیج میں احترامِ آدمیت تو دور کی بات پُرامن بقائے باہمی کا کلچر بھی اپنا نہ سکا۔
اس بدحالی کے علاوہ 2025ء میں ایک مثبت بات بھی دیکھنے میں آئی۔ اگر ایک طرف اسرائیل اپنے لڑاکا جہازوں اور ٹینکوں سے غزہ میں تباہی مچاتا رہا اور امریکہ سلامتی کونسل میں امن کی قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا تو دوسری جانب ضمیرِ عالم غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے یورپ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ ایشیا اور افریقہ میں غاصب و ظالم اسرائیل کے خلاف مسلسل صدائے احتجاج بلند کرتا رہا۔ اس سے ثابت ہوا کہ حکومتوں کی سطح پر احترام آدمیت نہ سہی مگر عوام الناس اور اہل حکمت و دانش ایک دوسرے کیلئے درد مندی اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ:
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اب بات دنیا میں مشینوں کی حکومت سے بھی آگے نکل کر مصنوعی ذہانت تک پہنچ چکی ہے‘ مگر باعثِ اطمینان وہی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ: دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ 2025ء میں ہمیں یہی سبق ملا ہے کہ دنیاوی مشینیں اپنی جگہ مگر احسن الخالقین کی مشین یعنی انسان کے اندر باہمی ہمدردی اور ایک دوسرے کے کام آنیوالے پرزے بدستور کام کر رہے ہیں۔ مشینیں انسان کو بے مروت نہیں بنا سکیں۔
اب گلوبل ویلیج سے اپنے ''ویلیج‘‘ پاکستان میں آ جائیں تاکہ معلوم ہو کہ 2025ء یہاں کیسے گزرا۔ خارجہ محاذ پر ہمیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ ہم یہ سمجھتے رہے کہ بھارت ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہے‘ اس کے پاس روس اور امریکہ دونوں سے حاصل کردہ اسلحہ ہے۔ جدید ترین رافیل جہاز بھی ہیں‘ مگر جب پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے حسبِ سابق بلا سوچے سمجھے پاکستان پر اس حملے کا الزام دھر کر مئی میں پاکستان کے اندر نو مقامات پر حملے کیے اور بہت سی معصوم انسانوں کی جان لے لی‘ تو پاکستان نے جدید ترین چینی ٹیکنالوجی اور جہازوں کو کام میں لاتے ہوئے بھارت کے سات جہاز اس کی فضا میں تباہ کر دیے‘ جس پر دنیا انگشت بدندان رہ گئی۔ معرکۂ حق میں پاکستان کی فتح سے جہاں دنیا میں پاکستان کی عسکری مہارت کی دھاک بیٹھ گئی وہاں ان بڑی طاقتوں کو بھی بڑی مایوسی ہوئی جو بھارت کو چین کے خلاف تیار کر رہی تھیں۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکا تو وہ چین سے کیسے پنجہ آزمائی کرے گا۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید نوعیت کی سرد مہری کا شکار تھے۔ مئی کے معرکۂ حق کے بعد ان تعلقات میں ایک بار پھر گرم جوشی دیکھنے میں آئی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بے تکلف ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ امریکی کمپنیوں نے پاکستان میں معدنیات اور گیس کے شعبوں میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ سالِ رفتہ کے دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کے برادرانہ تعلقات بھی بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ ان کامیابیوں کیساتھ ساتھ کچھ معاملات تشویشناک بھی ہیں۔ 2025ء میں پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی بڑھی۔ ہماری مغربی سرحد بہت محفوظ سمجھی جاتی تھی مگر اب افغانستان سے متصل دونوں صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ ترکیہ‘ قطر اور سعودی عرب جیسے بڑے مسلم ممالک اس کشیدگی کو کم کروانے کیلئے بہت متحرک ہیں۔
2025ء کے دوران معیشت میں قدرے ٹھہراؤ تو آیا مگر کوئی بڑی بیرونی سرمایہ کاری نہ آ سکی۔ اسی طرح بڑھتی ہوئی ہنگامی اور بیروزگاری کے عفریت پر قابو نہ پایا جا سکا۔ ہم اپنی آمدنی سے کہیں بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ قرض لیتے ہیں‘ بے پناہ قرض لیتے ہیں اور ''فاقہ مستی‘‘ کو مستقل بنیادوں پر خوشحالی میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔
اپنے زمانے کی مقبول شاعرہ پروین شاکر کی شاعری میں دلکشی‘ رعنائی اور گہرائی کا سنجوگ تھا‘ کہتی ہیں: بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔ ''جین زی‘‘ بچے چالاک ہیں‘ سمجھدار ہیں مگر ہمارے عہد کے مختلف ادوار کے دوران پیدا ہونیوالی نسل کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔ 1997ء سے 2012ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کو جنریشن زی کہا جاتا ہے‘ یہ جنریشن نہایت ذہین سمجھی جاتی ہے۔ یہی جنریشن سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہے۔ اٹھارہ سے پچیس برس کی عمر کے یہ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے لیے باعزت روزگار اور معقول آمدنی کے حصول کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ جنریشن عدل و انصاف‘ بنیادی انسانی حقوق اور سوشل جسٹس کو اپنا بنیادی حق گردانتے ہیں‘ جب انہیں حق نہیں ملتا تو ان کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
2026ء کے دوران ہمیں من حیث القوم اپنے واضح اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی نسل کے لوگ نوجوانوں کے جذبات‘ احساسات کو سمجھے بغیر ان پر تنقید کرنا بند کریں۔ مگر اپنی فیصلہ سازی میں ان نوجوانوں کے علم سے فائدہ اٹھائیں اور ان کے مشوروں کو خاطر خواہ اہمیت دیں۔ ہر وزیر کیلئے اہداف مقرر کیے جائیں کہ وہ اپنے متعلقہ شعبے میں حسنِ کارکردگی دکھائے۔ ہر چھوٹے بڑے وزیر کا گزارا بھارت کو دھمکیوں پر ہے۔ اپنا کام اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتا ہے۔ 2026ء کے اہداف تو ہم نے اوپر بیان کر دیے ہیں مگر سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ہم سالِ نو میں کیا کریں گے؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ہم وہی کچھ کریں گے جو ہم گزشتہ 78برس سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کیا ہم اپنے مخالفوں کو 2026ء میں جمال احسانی کے الفاظ میں یہ پیغام نہیں بھیج سکتے: کسی بھی وقت بدل سکتا ہے لمحہ کوئی؍ اس قدر خوش بھی نہ ہو میری پریشانی پر

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں