اشتہار۔ یورپ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خاکروبوں کی ضرورت ہے۔ درخواستیں دینے والے لازماً پاکستانی مسلمان ہوں۔ معاوضہ معقول دیا جائے گا۔
ضروری اعلان۔ آج سے امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کو بالعموم‘ اور پاکستانی مسلمانوں کو بالخصوص اقلیت کہا اور سمجھا جائے گا۔
فرض کیجیے‘ ایسا اشتہار واقعی نشر کر دیا جائے اور ایسا اعلان بھی حقیقت کا روپ دھار لے تو ہم کیسا محسوس کریں گے؟ ابھی تک تو ان ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو دوسرے شہریوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن اگر پاکستانی مسلمانوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے اور اس پر پاکستانی تارکینِ وطن اعتراض کریں تو آپ کا کیا خیال ہے ان ملکوں کی حکومتوں اور عوام کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ یہ مسئلہ ہم اس لیے اُٹھا رہے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاکروب کی اسامیوں کے اشتہار میں ''صرف مسیحی‘‘ لکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جسٹس انعام امین منہاس نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئندہ اشتہار میں ''صرف کرسچین‘‘ لکھنے کے بجائے ''صرف شہری‘‘ لکھا جائے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس حوالے سے کسی نے مقدمہ دائر کیا تھا یا عدالت نے ازخود نوٹس لیا! مگر اندازہ لگائیے! 78سال گزر گئے۔ خاکروبی کے کام کیلئے ایک ایسے گروہ کو مختص کیا جاتا رہا جو اتنا ہی معزز پاکستانی ہے جتنے کہ میں‘ آپ اور سب شہری! کوئی ان پالیسی سازوں سے پوچھے کہ ایسا کیوں کرتے رہے؟ یہ کہاں لکھا تھا کہ ایک خاص پیشے کیلئے ایک ہی مذہب کے لوگوں کو بھرتی کیا جائے؟ کون لوگ ہو تم یار؟ اور تمہیں کس نے اختیار دیا ہے کہ ملکی آبادی کو مذہب یا نسل یا زبان کی بنیاد پر گروہوں میں تقسیم کرو؟ کیا آئینِ پاکستان میں لکھا ہوا نہیں کہ تمام شہری برابر ہیں اور جنس‘ مذہب‘ رنگ اور نسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا؟ خاکروبی ایک پیشہ ہے۔ ایسا ہی جیسا دوسرے پیشے! کوئی پیشہ نہ برتر ہے نہ کمتر! خاکروب‘ نائب قاصد‘ ڈرائیور‘ افسر‘ وزیر‘ صنعتکار‘ کسان‘ سب کام کر رہے ہیں اور کسی ایک کا کام دوسرے کے کام کی نسبت زیادہ معزز ہے نہ زیادہ خراب!! جب آپ ایک پیشے کو صرف ایک مذہب کے پیروکاروں کیلئے مخصوص کر لیتے ہیں تو دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ایک شخص جو مسیحی نہیں‘ بھوکا مر رہا ہے اور خاکروب بننے کیلئے تیار ہے‘ آپ اسے صرف اس بنیاد پر ملازمت سے کیسے محروم کر سکتے ہیں کہ وہ غیرمسیحی ہے؟؟ اس عقل پر‘ اس پالیسی سازی پر اور اس امتیازی سلوک پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس انعام امین منہاس لائقِ تحسین ہیں کہ انہوں نے اس ظالمانہ تخصیص پر وار کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچایا ہے!
اب آئیے دوسرے مسئلے کی طرف! یہ جو ہم مذہب کی بنیاد پر کچھ پاکستانی شہریوں یا گروہوں کے گلے میں ''اقلیت‘‘ کا بورڈ لٹکا دیتے ہیں‘ کیا یہ آئینِ پاکستان کی رُو سے روا ہے؟ مگر ٹھہریے! آئینِ پاکستان سے پہلے بھی ایک آئین راستے میں آتا ہے اور وہ ہے انسانیت کا آئین۔ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر ایک گروہ کو اکثریت سے الگ کر کے اقلیت قرار دینا انسانیت کے خلاف ہے۔ رہا آئین تو ہمارے آئین کے آرٹیکل 25کی رُو سے تمام شہری برابر ہیں۔ آرٹیکل 36کہتا ہے کہ ریاست ''اقلیتوں‘‘ کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی۔ یہ آرٹیکل‘ آرٹیکل 25کی روح کے خلاف ہے۔ جب تمام شہری برابر ہیں تو اکثریت یا اقلیت بے معنی اصطلاحات ہیں۔ کل اگر ایک مسلمان فرقے کی اکثریت ہو تو کیا دوسرے مسلمان فرقوں کو بھی اقلیت قرار دیا جائے گا؟؟ جب سب مسلمان ہیں تو فرقوں کی بنیاد پر انہیں اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کرنا منطق کے خلاف ہے اور انصاف کے بھی خلاف ہے۔ بالکل اسی طرح جب سب پاکستانی ہیں تو مذہب کی بنیاد پر انہیں اکثریت اور اقلیت میں تقسیم کرنا کہاں کی دانش ہے۔ ہم ہندوستان سے اسی لیے تو الگ ہوئے تھے کہ ہمیں وہاں صرف ہندوستانی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ مذہب کی بنیاد پر اقلیت قرار دیا جاتا تھا۔ آج بھارت میں مسلمانوں‘ مسیحیوں‘ پارسیوں اور سکھوں کو اقلیت کہا جاتا ہے‘ مگر ہم بھارت کی تقلید کیوں کریں؟ جس احساسِ کمتری میں‘ وہاں غیر ہندوؤں کو اقلیت قرار دے کر مبتلا کیا جاتا ہے‘ اس احساس کمتری میں ہم غیرمسلموں کو اقلیت قرار دے کر کیوں مبتلا کریں؟ پاکستان ایک مثالی مسلمان ملک صرف اسی صورت میں بنے گا جب ہر شہری ہر لحاظ سے کسی بھی دوسرے شہری کے برابر ہو گا ا ور بھارتی غیر ہندو‘ پاکستانی غیرمسلموں پر رشک کریں گے۔ دیکھیے اقلیت کی اصطلاح کو ختم کرنے کی نیکی کس جج یا کس پارلیمنٹ کی قسمت میں لکھی ہے!!
ویسے ہم پاکستانی بڑی عجیب قوم ہیں! دوسرے ملکوں کے جس کام کو ہم سراہتے ہیں اور خوب سراہتے ہیں‘ وہ کام خود کرتے ہوئے ہمیں ہاسا آجاتا ہے یا شرم!! ابھی ایک مسلمان نیویارک کا میئر منتخب ہوا تو ہم نے شادیانے بجائے! صادق خان لندن کا میئر ہوا تو ہم نے خوشیاں منائیں۔ کوئی پاکستانی مسلمان عورت یا مرد‘ امریکہ یا کسی اور غیرمسلم ملک میں پارلیمنٹ کا رکن بن جائے یا کسی بڑے منصب پر فائز ہو جائے تو ہم خوب ڈھول تاشے بجاتے ہیں مگر خود ایسا کوئی کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں!
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر اقلیت قرار دینے والے کون ہیں؟ یہ کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود اقلیت میں ہیں اور اصل اقلیت یہی ہے! یہ اقلیت ہم پر حکومت کرتی ہے۔ یہ چند کھرب پتی‘ چند وڈیرے‘ چند صنعتکار جو ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں اور ہر پارلیمنٹ میں آموجود ہوتے ہیں‘ یہی تو اصل اقلیت ہے جو اکثریت پر چھائی ہوئی ہے۔ آخر اولی گارکی (Oligarchy) کسے کہتے ہیں؟ ایک چھوٹے سے طبقے کی حکومت! ''امرا شاہی‘‘! اصل اقلیت تو وہ ہے جس کے محلات لندن‘ دبئی اور نیویارک میں ہیں۔ جو چھینک اور زکام کا علاج بھی سوئٹزر لینڈ جا کر کراتے ہیں۔ جو بیٹوں اور نواسوں کی شادیوں کے دعوت نامے بانٹنے بھی دبئی اور یورپ جاتے ہیں! جو ایسے محلات میں رہتے ہیں جس کا پاکستانی اکثریت خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی!! یہ وہ اقلیت ہے جو عام بازاروں میں‘ عام ہسپتالوں میں‘ عام تعلیمی اداروں میں نہیں دیکھی جاتی۔ ان کی رہائشی کالونیاں‘ ان کے کلب‘ ان کے میس‘ ہر شے الگ ہے اور صرف انہی کیلئے ہے۔ اس اصل اقلیت میں انصاف بانٹنے والے شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پندرہ پندرہ‘ بیس بیس لاکھ پنشن وصول کرتے ہیں۔ کئی ارکان پر مشتمل سٹاف‘ مفت پٹرول‘ مفت بجلی‘ مفت گیس! یہ سب سہولیات تاحیات ملتی ہیں۔ یہ اور بات کہ قیدی مرنے کے بعد بے گناہ قرار دیے جاتے ہیں اور مقدموں کی کارروائی نسلوں تک چلتی ہے! اس اصل اقلیت میں گنتی کے وہ چند خاندان ہیں جو تیس تیس سال سے نام نہاد سیاسی پارٹیوں کو اپنی اپنی ملکیت میں لیے پھرتے ہیں۔ بیٹی‘ نواسا‘ داماد‘ بھائی‘ بھتیجا ہی پارٹی کا مالک بن سکتا ہے۔ اس اصل اقلیت میں وہ سردار ہیں جن کے بچے ایچی سن اور آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن عام قبائلی کراچی سے میٹرک بھی پاس کر لے تو اس کے جسم پر گُڑ کا شیرہ مل کر اسے چیونٹیوں بھرے غار میں پھینک دیا جاتا ہے! اس اصل اقلیت میں وہ ''روحانی‘‘ گدی نشین ہیں جن کی دولت کا شمار ناممکن ہے اور عوام ان کے سامنے رکوع و سجود کرتے ہیں! یہ ہے اصل اقلیت! اس اقلیت کی بقا اسی میں ہے کہ عوام مذہبی‘ مسلکی‘ نسلی‘ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کو اقلیت قرار دیں اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں!