"KMK" (space) message & send to 7575

ایک مسکراتا ہوا چہرہ جو اَب ہم میں نہیں

میں امریکہ کی سب سے چھوٹی ریاست رہوڈ آئی لینڈ کے صدر مقام پراویڈنس میں ہوں۔ آپ لوگوں کی آسانی کیلئے اتنا بتانا ہی کافی ہے کہ میں فی الوقت دنیا کے مہربان ترین آنجہانی جج فرینک کیپریو کے شہر میں ہوں۔ فرینک کیپریو اس دنیا سے رخصت ہو چکا لیکن ایسے لوگ تادیر دلوں میں قیام کرتے ہیں‘ سو فرینک کیپریو اس عاجز کے دل کے نہاں خانوں میں مقیم ہے اور جب تک دم میں دم ہے‘ وہ اسی جگہ مقیم رہے گا۔ دل میں رہنے کیلئے کرایہ نہیں دینا پڑتا لہٰذا اس کام کیلئے دولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دل کے معاملے میں دولت بے معنی شے ہے۔
دنیا میں منصف یعنی جج حضرات کے سامنے ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں؛ ایک راستہ دنیاوی فوائد کے حصول سے شروع ہوتا اور ذلت کی منزل پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ دوسرا راستہ بے خطر عدل وانصاف کی فراہمی کے چلن سے ہوتا ہوا عزت ونیک نامی پر ختم ہوتا ہے۔ گو کہ یہ بہت مشکل اور نسبتاً لمبا راستہ ہے مگر پہلے کی نسبت بہت دیرپا اور باعثِ فخر ہے۔ فرینک کیپریو نے یہی راستہ اپنایا تھا اور صرف میرے دل پر ہی کیا موقوف‘ وہ اَن گنت لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگا لیں کہ دنیا میں بظاہر بہت سے ایسے لوگوں کو جو زندگی میں بہت مقبول اور مشہور دکھائی دیتے ہیں مگر جب آخرت کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو ان کے جنازے پر گنتی کے لوگ ہوتے ہیں اور ان کو بعد از رخصت یاد کرنے والے اس سے بھی کم۔ فرینک کیپریو کے لوگوں کے دلوں میں مقام ومرتبے کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیں کہ یہ عاجز جسے فرینک سے صرف ایک ملاقات کے علاوہ اور کسی چیز کا نہ تو دعویٰ تھا اور نہ کوئی اور تعلق تھا‘ کو فرینک کیپریو کی اس دنیا سے رخصت پر کم ازکم ڈیڑھ دو سو افراد کے انفرادی تعزیتی پیغامات ملے۔ صرف ایک ملاقات نے اس مسافر کو لوگوں کے نزدیک ایسا شخص بنا دیا جس سے اس بڑے آدمی کی رخصت پر تعزیت کی جا سکتی تھی۔ بعض لوگوں کو تو اتنے لوگ سفر آخرت میں نصیب نہیں ہوتے جتنے لوگوں نے جج کیپریو سے معمولی سے تعلق کی بنیاد پر اس عاجز کو تعزیت کے قابل سمجھ لیا۔
میں بوسٹن ایئرپورٹ سے پراویڈنس جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ 1636ء میں آباد ہونے والے تقریباً 390 سال پرانے اس شہر کو دنیا بھر میں بھلا فرینک کیپریو سے بڑھ کر کس نے متعارف کرایا ہو گا؟ اس کے مقبول ترین ٹی وی رئیلٹی پروگرام نے اس شہر کا نام اس طرح دنیا میں پھیلایا کہ یہ نام اس پروگرام کی کامیابی کا اشارہ بن گیا اور ایک چھوٹی سی میونسپلٹی کے جج نے‘ جو محض ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی‘ پارکنگ سے متعلق مسائل اور شہری زندگی سے جڑے ہوئے چھوٹے موٹے جرائم پر مقدمات سنتا تھا‘ صرف اپنی انسان دوستی‘ ملزم کے جرم کو قانون سے زیادہ اس کے حالاتِ زندگی کے تناظر میں دیکھ کر شرفِ انسانی کی روشنی میں فیصلہ کرنے اور جرم کی سطحی وجوہات کو زندگی کے تلخ حقائق کی عینک لگا کر دیکھنے کے اس کے رویے نے دنیا بھر میں مقبول ومشہور کر دیا۔ اس کے رویے اور فیصلوں کی مقبولیت کی اصل وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ جرم‘ انصاف اور عدالت کو اس شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جیسا وہ ''کاٹ اِن پراویڈنس‘‘ میں دیکھتے تھے اور فرینک کیپریو کی مقبولیت کی بھی واحد وجہ یہ ہے کہ لوگ جج کو اس شکل میں دیکھنا پسند کرتے ہیں جیسا فرینک کیپریو تھا۔
جج اپنی عدالتی حیثیت سے دو چیزوں میں سے ایک چیز کماتا ہے اور یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ ان دو چیزوں میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ زیادہ پیسہ اور فی زمانہ دیگر دنیاوی سہولتیں اور آسائشیں حاصل کرتا ہے یا وہ عزت اور محبت کماتا ہے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ہاں منصفوں نے کس چیز کو اہمیت دی اور کیا کمایا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے اس لیے اس پر لکھ کر خواہ مخواہ آ بیل مجھے مار والی صورتحال پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اوپن سیکرٹس کے بارے میں لکھنا ویسے بھی الفاظ کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ قلم گھسیٹ کر تیرہ‘ چودہ سو الفاظ پر مشتمل اس جگہ کو بلاوجہ ضائع نہیں کرنا چاہتا۔اول تو ہمارے ہاں حق کا ساتھ دیتا کوئی نہیں‘ اگر کوئی بھول چوک سے ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے تو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
میری بڑی خواہش تھی کہ فرینک کیپریو پاکستان آئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ان سے پہلی (اور آخری) ملاقات ہوئی تو ان کی زبانی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کا ذکر سن کر اس بات کی مزید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کم از کم اپنی زندگی میں ایک بار تو ضرور پاکستان آئیں۔ پاکستان واپس آنے کے بعد جب اس عاجز نے اس سلسلے میں اپنے ایک کاروباری دوست سے اپنی خواہش کا ذکر کیا تو اس نے فوری طور پر اس سارے معاملے کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے کہا کہ وہ چاہے گا کہ اس کی کمپنی کی سالانہ کانفرنس میں فرینک کیپریو کو بطور مہمانِ خصوصی بلایا جائے‘ وہ اس سارے معاملے کا مکمل خرچہ اٹھانے کیلئے تیار تھا۔ جب اس مسافر نے اس حوالے سے فرینک کیپریو کے بیٹے اور ان کے سارے سفری ودیگر معاملات کو دیکھنے والے ڈیوڈ کیپریو سے رابطہ کیا اور اسے اس ساری پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے فرینک کیپریو کے ہمراہ پاکستان آنے کی دعوت دی تو اس نے بتایا کہ اس کے والد کی صحت کو دوبارہ سے کچھ سنجیدہ نوعیت کے معاملات درپیش ہیں اور ان کیلئے فی الوقت ممکن نہیں کہ وہ پاکستان تک کا لمبا سفر‘ خواہ وہ بزنس یا فرسٹ کلاس میں ہی کیوں نہ ہو‘ کر سکیں۔ ڈاکٹروں نے ایسی کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے سے مکمل منع کیا ہوا ہے۔ میرے دل کی خواہش دل ہی میں رہ گئی اور فرینک کیپریو اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔
میں جب پراویڈنس آ رہا تھا تو راستے میں کئی بار خیال آیا کہ کل دن کو کسی وقت فرینک کیپریو کے دفتر جائوں اور ڈیوڈ کیپریو سے اس کے والد کی تعزیت کروں۔ گو کہ میں نے 20 اگست کو فرینک کیپریو کی رخصتی والے دن ہی ڈیوڈ کیپریو کو تعزیتی ای میل بھیج کر اپنے دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کر تو لی تھی مگر دل بہرحال اس ڈیجیٹل تعزیت سے راضی نہیں تھا۔ اگلے روز جب میں اور الیاس چودھری پراویڈنس کے ڈائون ٹائون سے گزر رہے تھے تو الیاس چودھری نے گاڑی ایک طرف روکی اور دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سامنے فرینک کیپریو کا دفتر ہے۔ اس کو گمان تھا کہ میں شاید وہاں جانے کی خواہش کا اظہار کروں گا مگر خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے گزشتہ کئی دن تک اس بات کا انتظار کرنے کے بعد اچانک سے مختلف فیصلہ کرتے ہوئے الیاس چودھری سے کہا کہ چلو کہیں اور چلتے ہیں۔ بھلا اب اس سنگ وخشت کے مجموعے میں‘ جو میرے نزدیک اب محض ایک بالکل عام عمارت ہے ‘جا کر کیا کرنا ہے؟ اس عمارت کو جس شخص سے نسبت تھی‘ اب وہ ہی نہیں رہا تو اس میں جانے کا فائدہ؟
ہمارے ایک دوست کی جواں سال اکلوتی بیٹی کا انتقال ہوا تو اس نے اس کے آخری دیدار سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے آخری بار اسے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اپنی یادوں میں اس کا چہرہ سفید کپڑے میں لپٹا ہوا محفوظ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی یادوں میں اس کا وہی مسکراتا ہوا چہرہ دمکتا رہے جو اس نے آخری بار دیکھا تھا۔
اگلی صبح جب میں اٹھا تو باہر ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ یہ پراویڈنس میں اس سیزن کی پہلی برف باری تھی۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے ہر طرف برف ہی برف تھی۔ درختوں کی شاخوں پر‘ گھروں کی چھتوں پر‘ سڑک کے کناروں پر اور گھروں کے باہر کھڑی گاڑیوں پر سفید تہہ جمی ہوئی تھی۔ مجھے ایسے لگا کہ اس سفید چادر سے ایک چہرہ نمودار ہو کر مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔ یہ چہرہ ویسا ہی مسکرا رہا تھا جیسا میری یادوں میں محفوظ تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں