"SG" (space) message & send to 7575

سیاسی مفاہمت ناگزیر کیوں؟

جمہوری معاشروں کی پہچان ان کے ہاں مسائل کے حل‘ گورننس کے عمل اور ڈائیلاگ کے رجحان سے ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں تمام تر اختلافات کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتیں اور یہی سلسلہ اور عمل بالآخر مسائل کے سیاسی حل کا سبب بنتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اور قیادتیں سیاسی طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کے بجائے ایک دوسرے کو ٹارگٹ کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کے رجحان کو ہوا دے کر معاشرے میں تنائو اور ٹکرائو کا باعث بنتی ہیں۔ اس کا خود انہیں کوئی فائدہ اور نقصان ہوا یا نہ ہو مگر اس کا ملک و قوم‘ ملکی معیشت‘ سیاست اور جمہوریت کو بے تحاشا نقصان ضرور ہوا۔ اب اس کا احساس کسی حد تک ہوتا نظر آ رہا ہے اور کچھ روز سے حکومت اور سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات اور ڈائیلاگ کی بات ہوتی نظر آ رہی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کے اندر یہ تحریک موجود ہے کہ مسائل کے سیاسی حل کیلئے آگے بڑھا جائے اور اہم سیاسی ایشوز پر اتفاقِ رائے قائم کیا جائے۔ اس حوالے سے خوش آئند امر یہ ہے کہ ابھی تک فریقین غیر مشروط مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور اپوزیشن نے اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے‘ جس میں محمود خان اچکزئی‘ راجہ ناصر عباس اور مصطفی نواز کھوکھر سمیت اپوزیشن کی قیادت شامل ہو گی۔ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا کوئی عہدیدار مذاکراتی کمیٹی کا حصہ نہیں ہو گا۔ اپوزیشن اتحاد میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنی پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔ اپوزیشن اتحاد نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات کیلئے کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی گئی جبکہ پی ٹی آئی اب بھی مشروط مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ جلد ہی دوسری جانب سے بھی مذاکراتی کمیٹی نامزد ہو گی اور مستقبل کے حالات بارے ایشوز پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ حکومتی کمیٹی میں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق‘ رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق کے علاوہ حکومتی اتحادیوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ لہٰذا دیکھنا ہو گا کہ قومی ایشوز پر سیاسی مذاکرات کی یہ کاوش کسی حد تک کارگر ہوتی ہے۔ کون ان مثبت کوششوں اور کاوشوں پر اثر انداز ہوتا ہے‘ اس پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔
سیاست میں مفاہمت کمزوری نہیں بلکہ دانش مندی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب قومیں مسلسل تصادم‘ انتقام اور اَنا کی سیاست میں الجھ جاتی ہیں تو ریاستی ادارے کمزور اور عوام بددل ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جہاں سیاسی قیادت اختلافات کے باوجود مکالمے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتی ہے وہاں جمہوریت مضبوط‘ معیشت مستحکم اور ریاستی نظام متوازن ہو جاتا ہے۔ مفاہمت دراصل بند گلی سے نکلنے کا وہ راستہ ہے جو سیاست کو آگے بڑھنے کا موقع دیتا ہے‘ بصورت دیگر ضد اور ہٹ دھرمی سیاست کو جمود کا شکار کر دیتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مفاہمت کے ضمن میں جنوبی افریقہ کی مثال ہمیشہ حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہے جہاں نیلسن منڈیلا نے ستائیس برس قید میں گزارنے کے بعد اقتدار میں آ کر انتقام کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ 'سچ اور مفاہمت کمیشن‘ کے قیام نے نسلوں پر محیط باہمی نفرت کو مکالمے میں بدل دیا۔ اسی طرح شمالی آئرلینڈ میں گُڈ فرائیڈے معاہدہ‘ سپین میں فرانکو کے بعد عبوری جمہوری عمل اور نیپال میں بادشاہت سے جمہوریت تک کا سفر اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیاسی مفاہمت کے بغیر ریاستیں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بھی مفاہمت کی اہمیت اب ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت اور متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کی طرف سے اس دعوت کو قبول کرنا سیاسی طور پر خوش آئند پیش رفت ہے۔ تحریک کے نائب صدر مصطفی نواز کھوکھر کا مؤقف واضح اور دو ٹوک ہے کہ یہ مذاکرات کسی فردِ واحد کی رہائی‘ جیل میں ملاقاتوں یا مقدمات کے خاتمے کیلئے نہیں بلکہ پارلیمان اور آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے ہوں گے۔ یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اپوزیشن کم از کم بیانیے کی سطح پر ذاتی نہیں بلکہ قومی سیاست کی بات کر رہی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی اختلافات اکثر ذاتی دشمنی میں بدل جاتے ہیں جس کا خمیازہ نہ صرف جمہوریت بلکہ ریاستی استحکام کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلاوطنی تک‘ ہماری سیاسی تاریخ تصادم اور انتقام سے بھری ہوئی ہے۔ انہی تلخ تجربات کے نتیجے میں 2006ء میں لندن میں میثاقِ جمہوریت طے پایا جس نے سیاسی قیادت کو یہ احساس دلایا کہ آپس میں لڑتے رہنے کے بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہے۔ میثاقِ جمہوریت کے ثمرات یہ تھے کہ 2008ء کے بعد پہلی بار پارلیمان نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اگرچہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور بعد میں میاں نواز شریف بھی اپنی مدت مکمل نہ کر سکے تاہم جمہوری تسلسل برقرار رہا۔ 2018ء میں تیسری قومی اسمبلی کا آئینی مدت پوری کرنا بھی اسی مفاہمتی سوچ کا نتیجہ تھا۔بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے سیاسی مفاہمت کے اس تصور کو مک مکا اور باریاں لینے جیسے نعروں کے ذریعے متنازع بنایا۔ 2018ء میں جب پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اقتدار میں آئی تو اس کے پاس موقع تھا کہ وہ مفاہمت یا کم از کم سیاسی برداشت کا راستہ اختیار کرتی مگر جارحانہ سیاست‘ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی نے سیاسی ماحول کو مزید زہریلا کر دیا۔ نتیجتاً بانی پی ٹی آئی پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے جنہیں آئینی طریقہ کار کے تحت عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی فیصلے ایوانوں میں ہوتے ہیں میدانوں میں نہیں۔ احتجاج‘ تحریکیں اور مخالفت برائے مخالفت وقتی طور پر تو جذبات کو ابھار سکتی ہے مگر دیرپا سیاسی حل فراہم نہیں کر سکتی۔ تحریکِ نظامِ مصطفی ہو یا حقیقی آزادی کے نام سے چلائی گئی پی ٹی آئی کی تحریک‘ نتائج قوم کے سامنے ہیں۔ 9 مئی جیسے واقعات محض ایک سیاسی جماعت کے لیے نہیں بلکہ پوری جمہوری ساخت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ آج ایک بار پھر تاریخ ہمیں یہی سبق دے رہی ہے کہ قومی مفاد میں مل بیٹھے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مفاہمت کی ضرورت جہاں برسر اقتدار جماعتوں کو ہے‘ وہاں شاید اس سے کہیں زیادہ ضرورت پی ٹی آئی کو بھی ہے۔ سیاست کا حسن ہی یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود آئین کی بالادستی‘ عوامی خوشحالی اور ملکی استحکام کے لیے درست سمت میں آگے بڑھا جائے۔
یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان ایک نئے میثاق پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مذاکرات کبھی پیشگی شرائط پر نہیں ہوتے۔ قانونی معاملات عدالتوں کے ذریعے اور سیاسی معاملات مذاکرات اور مفاہمت ہی سے حل ہوتے ہیں۔ اگر ہم جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ضد‘ اَنا اور تصادم کی سیاست کو خیرباد کہہ کر مکالمے اور مفاہمت کی راہ اپنانا ہوگی کیونکہ یہی سیاست کی اصل روح ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں