جھوٹ کچھ وقت کیلئے تو چل سکتا ہے لیکن زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہیں ہوتا اور حقیقت بالآخر سامنے آکر رہتی ہے۔ اسی طرح کچھ سائنسی اصولوں کے مطابق جب چیزیں اپنی بنیاد سے اکھڑتی ہیں تو پھر تب تک لڑھکتی رہتی ہیں جب تک منطقی انجام سے دوچار نہ ہو جائیں۔ بھارت اور اس کی سرکار آج کل اسی عمل سے گزر ر ہے ہیں۔ رواں برس اپریل میں بھارت کی طرف سے پلان کیے گئے پہلگام فالس فلیگ کا مقصد تو پاکستان کو پھنسانا اور اس واقعہ کو جواز بنا کر پاکستان پر چڑھ دوڑنا تھا لیکن پاکستان کے خلاف پھیلایا جانے والا یہ شر پاکستان کیلئے خیر کا باعث بن گیا اور بھارتی منصوبہ بندی اسی کے گلے پڑ گئی۔ معرکہ حق میں افواجِ پاکستان نے بھارت کو شکست فاش سے دوچار کیا اور وہ بھارتی لیڈر شپ جو آپریشن سندور کا آغاز کرکے تکبر‘ غرور اور گھمنڈ میں مبتلا تھی آج نفسیاتی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا اور عالمی ادارے بھارتی عزائم کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی‘ پہلگام فالس فلیگ اور سات مئی کو پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق اپنی رپورٹ میں پاکستانی مؤقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن سندور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا‘ بھارت پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ اور یہ کہ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی غیرقانونی ہے‘ پانی کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جا سکتا‘ بھارت خلوصِ نیت سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرے۔ رپورٹ کی شفافیت کیلئے اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے بھارتی سرکار کو ایک سوالنامہ بھیجا اور جواب کیلئے ساٹھ دنوں کا وقت دیا لیکن بھارتی حکومت جواب دینے میں ناکام رہی جس پر ماہرین نے یہ رپورٹ جاری کردی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت کے پاس پاکستان پر لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا بھارت طاقت کے غیرقانونی استعمال سے انسانی زندگیوں کے نقصان کا ازالہ کرے گا‘ اس پرمعافی مانگے گا؟ اور یہ کہ کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داریاں ادا کرے گا‘ پاکستان کے قانونی‘ بنیادی‘ انسانی حقوق کی پاسداری کرے گا؟ بتایا جائے بھارت جموں کشمیر تنازع کے پُرامن حل اور کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا ارادہ رکھتا ہے؟ ماہرین نے سوالنامے کے ساتھ بھارتی حکام کو یہ بھی واضح کیا تھا کہ ان سوالوں کے جواب رپورٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں گے ۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ بھارت نے ان سوالوں کے جواب نہیں دیے کہ یہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر جواب شائع کئے جائیں گے۔
مذکورہ رپورٹ کو بھارتی سرکار کیلئے چارج شیٹ قرار دینا بے جا نہ ہو گا۔ یو این رپورٹ کے مطابق بھارتی اقدامات پاکستان کی خود مختاری کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے کہا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل (4)2 کے تحت طاقت کے استعمال کی ممانعت کی خلاف ورزی کی اور خود پاکستان پر مسلح حملہ کیا جس سے پاکستان کو چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت دفاع کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان نے کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ کی کسی بھی عالمی ادارے کے ذریعے تحقیقات کی پیشکش کرتے ہوئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا تھا مگر بھارت نے پاکستان کی اس پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر پاکستان نے جواباً جو کچھ کیا اپنے دفاع میں کیا جس کا حق اسے اقوام متحدہ قوانین دیتے ہیں۔ ماہرین کے ایک اور گروپ نے بھارت کی طرف سے پاکستان کے حصے کے دریاؤں کا پانی روکنے اور پھر اچانک پانی چھوڑنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہونے پر بھارت کو سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار قرار دیا۔
ماضی میں بھارت نے اپنے مذموم ایجنڈا کے تحت پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر دفاعی محاذ پر رکھا اور پاکستان جو خود دہشت گردی کا شکار تھا اور ہے‘ وہ عالمی سطح پر جھوٹے بھارتی پروپیگنڈا کو پوری طرح ایکسپوز نہ کرسکا جس کا بھارت نے فائدہ اٹھایا‘ لیکن پہلگام فالس فلیگ کے بعد سے صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔ بھارت نے اس واقعہ کو پاکستان کے گلے ڈالنے کی پوری کوشش کی لیکن نہ صرف یہ کہ اس فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کو اپنی جارحیت پر پاکستانی افواج کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی بلکہ گودی میڈیا کی غلط رپورٹنگ پر بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ جن رافیل طیاروں پر بھارت ناز کرتا تھا وہی اس کی ہزیمت کا باعث بنے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رافیل طیاروں کے گرنے کی تصدیق اور پاک بھارت جنگ بندی میں ان کے کردار نے بھارت کو عالمی محاذ پر بری طرح ایکسپوز کیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی لیکن یہی واقعہ اس کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے اور وہ آج دفاعی پوزیشن میں کھڑا ہے۔ وہ دنیا کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے کہ پہلگام واقعہ کیونکر رونما ہوا‘ اس کا ذمہ دار کون ہے‘ اور یہ کہ بھارت سرکار نے اس واقعے کی عالمی ثالث کی موجودگی میں تحقیقات کیوں نہیں کرائی۔ آج بھارت کے اندر بھی بی جے پی سرکار پر اپوزیشن‘ سول سوسائٹی اور میڈیا سوال اٹھارہے ہیں اور مودی سرکار انہیں مطمئن نہیں کر پا رہی۔
دوسری جانب پاکستان نے اس ساری صورتحال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ الزام تراشی کا مقابلہ الزام تراشی سے کرنے کے بجائے ایسا مؤقف اختیار کیا جس نے دنیا کو متاثر کیا۔ پاکستان نے پہلگام واقعہ میں بے گناہ جانوں کے ضیاع کی مذمت کی‘ واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات پر زور دیا اور سرکاری سطح پر ان تحقیقات میں تعاون کا اعلان بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا پاکستان کے اس مثبت کردار کی معترف ہے۔ پاکستان نے اپنے مغربی بارڈر پر پیدا شدہ صورتحال پر بھی دنیا کے سامنے ناقابلِ تردید شواہد کے ساتھ اپنا کیس پیش کیا اور بتایا ہے کہ کس طرح افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے‘ اور یہ کہ افغان طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہے‘ الٹا پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی بھارت ہے جو معرکہ حق میں افواجِ پاکستان سے شکست کھانے کے بعد افغان طالبان کو پاکستان کے خلاف بطور پراکسی استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔افغان طالبان کے ذمہ داروں خصوصاً ان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم کی دہلی میں ہونے والی ملاقاتوں میں بھارت نے انہیں کچھ معاملات میں مدد کی یقین دہانی کرائی اور اس کے عوض وہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال چاہتا ہے۔ اس کی تصدیق افغان طالبان کے بیانات سے بھی ہوتی ہے لیکن ان شاء اللہ اس محاذ پر بھی بھارت کے مذموم عزائم پورے نہیں ہوں گے۔ افغان طالبان کی پاکستان کے خلاف دال گلنے والی نہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت حال ہی میں تہران میں منعقدہ کانفرنس ہے جس میں افغان سرزمین پر دہشت گردی کے حوالے سے افغان انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایاگیا ہے۔ اس کانفرنس میں چین‘ روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذمہ داران کی شمولیت اور افغانستان بارے ان کا مؤقف افغان طالبان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہیے۔ اس عالمی دباؤ کی وجہ سے اب طالبان حکومت کی حیثیت پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں کیونکہ یہ ایک عبوری حکومت ہے‘ اور وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کو بھی دہشت گردی سے پاک نہیں کر سکے‘ اور نہ ہی وہاں نمائندہ حکومت کے قیام پر کوئی پیشرفت ہو سکی ہے۔ افغان طالبان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں بھارت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا ہے یا دوحہ معاہدے کی پاسداری سے اقوام عالم کا اعتماد جیتنا ہے۔