یومِ تشکر کی خوشی میں سارے امریکہ میں چھٹی تھی۔ بازار‘ دفتر‘ تعلیمی ادارے‘ کاروباری مراکز‘ حتیٰ کہ عام خرید و فروخت کی دکانیں تک بند تھیں۔ اوپر سے ٹرکی نامی پرندے کی شامت آئی ہوئی تھی۔ ہر شوقین اسے روسٹ کرکے کھا اور کھلا رہا تھا۔ یہ آج سے 404 سال قبل وقوع پذیر ہونیوالی اس مہربانی کی یاد میں ہو رہا تھا جب 1620ء میں برطانیہ کی بندر گاہ پلائی ماؤتھ سے 102 یورپی آباد کاروں کولے کر مے فیئر نامی بحری جہاز پہلے کیپ کوڈ اور بعد ازاں امریکی ریاست میسا چیوسٹس کیساتھ لنگر انداز ہوا۔ اور اس جگہ کا نام بھی اپنی جائے روانگی کی یاد میں پلائی ماؤتھ رکھا۔
سفر سے تھکے ہوئے اور بھوک سے مارے ہوئے ان مسافروں کو مقامی قبائل نے خوش آمدید کہا۔ انہیں قطعاً اندازہ نہ تھا کہ یہ بھوک‘ فاقے اور سفر کی تھکاوٹ کے مارے ہوئے بظاہر مظلوم دکھائی دینے والے مسافر بعد میں ان کیلئے مصائب کا ایسا دروازہ کھولیں گے جس سے ان کی تباہی‘ بربادی‘ نسل کشی اور احسان کشی کی ایسی کہانی لکھی جائے گی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملے گی۔ مقامی موسم‘ سخت سردی اور حالات سے ناآگاہی کے سبب آنے والے گورے سخت مشکلات کا شکار تھے۔ انہوں نے اپنے مہربان میزبان مقامی قبائل سے مل کر کاشت کاری کرنے کا ایک معاہدہ کیا۔ یورپ سے آنے والے آباد کار مقامی فصلوں‘ ان کے موسموں اور طریقہ کاشت کاری سے مکمل بے بہرہ تھے۔ تاہم مقامی قبائل‘ خاص طور پر ایک شخص سکوانٹو(Squanto) نے آباد کاروں کو مکئی لگانا‘ مچھلی کو بطور کھاد استعمال کرنا اور مکئی‘ لویبا اور کدو کی اقسام‘ تینوں کو بیک وقت ایک ہی کھیت میں کاشت کرنے کا طریقہ کار جسے ''تھری سسٹرز‘‘ کہا جاتا ہے‘ سکھایا۔ اگلے سال جب فصل پک کر تیار ہوئی تو آباد کاروں نے اپنے مہربان اور کاشتکاری سکھانے والے مقامی قبیلے کی دعوت کی۔ اس دعوت میں انہوں نے دریائی شکار کردہ پرندے از قسم ہنس‘ بطخ‘ مرغابی‘ ہرن کا گوشت‘ سمندری خوراک‘ ابلی ہوئی مکئی‘ سبزیاں اور مقامی پھل پیش کیے۔ یہ بات طے ہے کہ اس روز والی دعوت میں ٹرکی یعنی پیرو شامل نہ تھا۔ اس پرندے کی شامت بعد میں اس دن کی یاد میں منائے جانے والے دنوں کا حصہ بنی۔
اب اس بارے میں راوی مختلف آرا کا شکار ہیں کہ اس شاندار آغاز والی دعوت کا انجام کیا ہوا۔ ایک گروہ جو اپنے بیانیے کو زیادہ طاقت‘ زور اور مہارت سے استعمال کرنے پر قادر تھا اس نے اس دعوت کا انجام بخیر رکھا اور ہم سب نے عمومی طور پر اسے ہی درست اور سچا تسلیم کر لیا‘ یہ یومِ تشکر والا گروہ ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس رات جب دعوت ختم ہوئی تو میزبان مقامی امریکی قبیلے کو‘ جو اس رات مہمان کے طور پر اس دعوت میں مدعو تھا‘ شراب پلائی گئی اور پھر ان کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ ان کو حصے میں دی جانے والی مکئی‘ لوبیے اور کدو کی فصل کو یکطرفہ طور پر ہضم کیا جا سکے‘ یہ یومِ سوگ والا گروہ ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس رات مقامی قبیلے کا قتلِ عام ہوا تھا یا نہیں‘ یہ بات تو تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ ''مہمان مہربانوں‘‘ نے اپنے میزبانوں کا قتلِ عام کیا‘ ان کی زمینوں پر قبضے کیے‘ ان کی نسل کشی کی‘ معاہدہ شکنی کو اپنا وتیرہ بنایا‘ ان میں بیماریاں پھیلائیں اور ان کو گھروں سے بے گھر کر دوسری ریاستوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔
ایسے بے شمار واقعات اب دستاویزی شکل میں موجود ہیں تاہم دعوت دے کر قتل کرنے کا سب سے ہولناک واقعہ 1637ء میں ہونے والا Mystic massacre ہے جس میں آباد کاروں نے اپنے مہربان پیکوٹ قبیلے والوں کو دعوت کے بہانے بلایا اور گھیر کر مار دیا۔ اس قتلِ عام میں 600سے زائد مقامی قبیلے کے لوگ مارے گئے۔ کئی نیو انگلش کالونیوں نے اس بہیمانہ قتلِ عام کی خوشی میں شکرانے کی تقریبات منائیں۔ گو کہ یہ واقعہ بہرحال اس Thanksgiving والے دن کی شروعات سے منسوب نہیں‘ تاہم بہت سے مقامی امریکی قبائل خاص طور پر اس قتلِ عام پر ہونے والے شکرانے کی روایت کو اس یومِ تشکر کی حقیقی مگر چھپائی جانے والی تاریخ قرار دیتے ہیں۔ اب حقیقت کچھ بھی ہو‘ یہ بات طے شدہ ہے مقامی امریکی قبائل کو دعوتوں کے بہانے بلا کر ان کا بے رحمانہ قتلِ عام کیا گیا اور تقریباً ہر ایسے قتلِ عام کے بعد شکرانے کی تقریبات منائی گئیں۔ موجودہ Thanksgiving کی تاریخ یعنی ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو ابراہم لنکن نے 1863ء میں خانہ جنگی کے بعد قوم کو متحد کرنے کی غرض سے قومی تہوار قرار دیا۔ تب سے یہ دن اسی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ آج دنیا بھر میں عموماً اور امریکہ میں نوجوانوں اور بچوں کو خصوصاً اس دن کے حقیقی پس منظر سے قطعاً کوئی آگاہی نہیں اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ قابض گوروں نے اپنے بیانیے کو اس تسلسل اور شدت کیساتھ دہرایا کہ وہ سچ بن کر چھا گیا۔ مجھے اس پر اپنے بی اے کے انگریزی کے مرحوم استاد خالد ناصر یاد آ گئے۔
خالد ناصر ایسے شاندار استاد تھے کہ اب ایسے استادوں کی صرف حسرت کی جا سکتی ہے۔ انگریزی ادب اور تاریخ سے ایسی آگاہی کہ بندہ ششدر رہ جائے۔ اوپر سے پڑھانے اور سمجھانے کے فن میں ایسے یکتا کہ مجھ جیسے نالائق اور انگریزی سے چالو طالب علم کو بھی پڑھا کر دم لیا۔ تب ہماری بی اے کی کتاب میں مشہور برطانوی مورخ A. J. P. Taylor کا ایک مضمون تھا: Evacuation from dunkirk یعنی ڈنکرک سے انخلا تھا۔ یہ مضمون دوسری عالمی جنگ میں فرانس میں جرمن فوج کے ہاتھوں فرانسیسی اور برطانوی اتحادی فوج کی بدترین شکست کے بعد انتہائی سلیقے اور منظم طریقے سے فرار ہونے کی عظیم الشان داستان پر مبنی تھا جس میں تاریخ دان نے جرمن فوج کی محّیرالعقول کارکردگی اور فتح کو سراہنے کے بجائے شکست خوردہ فوج کے فرار کو گلیمرائز کرتے ہوئے اسے عالمی تاریخ میں ایک انتہائی منفرد انخلا بتاتے ہوئے مفرور افواج کو ایسا خراجِ تحسین پیش کیا کہ شکست خوردہ فوج کے سامنے فاتح افواج کا سارا کردار صفر ہو کر رہ گیا۔ اس فرار میں ایسی ایسی خوبیاں نکالی گئیں اور ایسے ایسے نادر خیالات کے ساتھ جذبات سے کھیلا گیا کہ مضمون کے اختتام پر فاتح شکست خوردہ اور شکست خوردہ فاتح بن گئے۔ میں اس مضمون کے اختتام پر یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ فرار خواہ وہ کتنی بھی بہادری‘ نظم و ضبط اور ایثار سے ہی کیوں نہ کیا جائے بہرحال کوئی ایسی قابلِ فخر بات نہیں کہ اس پراینٹھا جائے اور اسے گلیمرائز کرتے ہوئے اس پر شادیانے بجائے جائیں۔ کلاس کے بعد میں نے پروفیسر خالد ناصر صاحب سے پوچھا کہ آخر شکست کے بعد فرار ہونے میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اس قسم کا فخر یہ مضمون لکھا گیا اور ہمارے کورس میں شامل کیا گیا؟ خالد ناصر مسکرائے۔ آپ یقین کریں مجھے آج بھی ان کی وہ مسکراہٹ یاد ہے۔ خوش شکل اور اس سے بڑھ کر نہایت ہی خوش لباس‘ خوش اخلاق اور خوش اطوار پروفیسر خالد ناصر میری طرف جھک کر کہنے لگے: مسٹر خالد! جب تک شیر اپنی کہانی خود نہیں لکھتا شکاری ہمیشہ ہیرو رہے گا اور شیر ہمیشہ ظالم درندے کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ جس کے ہاتھ میں قلم اور طاقت ہے وہی کہانی کا فاتح اور ہیرو ہوگا۔ قلم سے محروم ہمیشہ وِلن کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا اور ہم اسے وِلن ہی سمجھتے رہیں گے۔
اس دنیا میں بیانیے کے سچے یا جھوٹے ہونے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بیانیے کو کس طاقت‘ تسلسل اور مہارت سے بیان کیا جاتا ہے۔ دنیا کو سچائی یا جھوٹ سے زیادہ بیانیے کی طاقت متاثر کرتی ہے۔ وگرنہ بیانیے کی سچائی کا تو یہ عالم ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے دعویدارفارم 47کے طفیل اسمبلی میں پہنچنے کو شرمندگی کے بجائے فخر سمجھتے ہیں اور یہی حال ان کے حواریوں کا ہے۔ معاف کیجئے میں کہاں Thanksgiving Day سے فارم 47 پر پہنچ گیا۔