"RKC" (space) message & send to 7575

کپتان نے مایوس نہیں کیا!

عمران خان نے اس بار بھی مقتدرہ کو مایوس نہیں کیا۔ ایک ماہ بعد جب ان سے بہن کی ملاقات کرائی گئی تو جو سخت پیغامات باہر بھجوائے گئے وہ وہی تھے جو ان کے حریف چاہتے تھے۔ آپ حیران ہوں گے کہ بھلا عمران خان کیوں ایسا پیغام دیں گے جس سے مخالفین کی امیدیں پوری ہوں۔ اس کے پیچھے دلچسپ فلاسفی ہے۔ عمران خان اور مقتدرہ کے مابین جاری لڑائی کے حوالے سے میرا ماننا ہے کہ مقتدرہ جب کسی کو جیل میں ڈالتی ہے تو وہ اس کے ذہن کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ہینڈل بھی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ خان نے بھی مقتدرہ کی قوتوں کے ذہن اور مزاج کو سمجھا ہو اور اسی کے مطابق پالیسی بنا کر چلتے ہوں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں مقتدرہ عمران خان سے آگے رہی ہے اور جب چاہتی ہے اپنی مرضی کے نتائج برآمد کرا لیتی ہے۔
عمران خان اور مقتدرہ کا رومانس بہت پرانا ہے۔ جب عمران خان کو سیاست کا شوق پیدا ہوا تو جنرل (ر) حمید گل‘ جنرل پاشا‘ جنرل ظہیر الاسلام سے جنرل فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ تک سب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ان سب کو عمران خان کی شکل میں ایسا ہیرا نظر آیا جو ان کے مقاصد کی تکمیل کرے گا۔ جنرل پاشا‘ جنرل ظہیر یا جنرل حمید گل کو یقین تھا کہ خان نواز شریف اور زرداری خاندان کی کرپٹ وراثت سے ہماری جان چھڑائے گا اور پاکستان اس کی قیادت میں ترقی کرے گا اور ہم پیچھے بیٹھ کر اسے ہینڈل کریں گے۔ البتہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے مقاصد کچھ اور تھے۔ جنرل باجوہ بہت پہلے جان چکے تھے کہ نواز شریف انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دیں گے۔ جنرل باجوہ جنرل کیانی کے قریبی تھے اور اسی سکول آف تھاٹ سے تھے۔ جنرل کیانی کو بھی توسیع ملی تھی اور جنرل باجوہ بھی توسیع چاہتے تھے۔ اس کام کیلئے انہیں عمران خان موزوں لگے‘ جو ڈاکٹر Faustus کی طرح ہر قیمت پر (وزیراعظم بننے کا) جنون پال چکے تھے۔ جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع جبکہ عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ چاہیے تھی۔ یوں نقد سودا طے ہوا اور اس سارے کھیل میں جنرل فیض حمید کو اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگا۔ انہیں پتا تھا کہ اگر عمران وزیراعظم بنے تو 2019ء میں جنرل باجوہ کو توسیع ملے گی اور پھر 2022ء میں وہ آرمی چیف بننے کی دوڑ میں آ جائیں گے۔ انہیں سمجھ آگئی کہ اگر 2022ء میں آرمی چیف بننا ہے تو دو کام کرنا ہوں گے؛ پہلا کام‘ 2018ء میں عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں ڈی جی سی کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا اور پھر 2019ء میں جنرل باجوہ کو توسیع دلانا۔ دوسرا کام یہ تھا کہ عمران خان کو کم از کم نومبر 2022ء تک وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رکھا جائے‘ کیونکہ اسی صورت میں وہ آرمی چیف بن سکتے تھے۔ یوں عمران خان اور جنرل باجوہ سے بڑا صبر اور کوشش کا امتحان جنرل فیض کا تھا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ان تینوں میں سے زیادہ کوشش اور محنت جنرل فیض نے کی اور زیادہ سٹریس بھی انہوں نے ہی لیا‘ کیونکہ وہ اُس ایجنسی کے سربراہ تھے جس نے پہلے عمران خان کو وزیراعظم اور پھر جنرل باجوہ کو توسیع دلانے کیلئے پارلیمنٹ میں نواز شریف اور آصف زرداری کی جماعتوں سے بھی ووٹ لینے تھے اور اس وقت وہ دونوں جیل میں تھے۔ پلان کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے اور جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع مل گئی۔ البتہ جب جنرل فیض حمید کا وقت قریب آنے لگا تو جنرل باجوہ اور عمران خان کے مابین اختلافات بڑھنے لگے اور پھر جو کچھ ہوا‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ یوں نومبر 2022ء میں عمران خان وزیراعظم نہ تھے بلکہ شہباز شریف ان کی کرسی پر بیٹھ چکے تھے۔ اس طرح فیض حمید کی چھ‘ سات سالہ محنت ضائع گئی۔ محنت ضائع جانا ایک طرف‘ اب تو وہ جیل میں بیٹھے ہیں اور خبریں آ رہی ہیں کہ انہیں چودہ سال سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔ ممکن ہے کہ جنرل فیض کو اپنے سیل میں کبھی کبھار راتوں کو تنہائی میں یہ محسوس ہوتا ہو کہ اس پورے کھیل میں سارا نقصان انہی کا ہوا ہے۔ انہیں کیا ملا اتنی کوشش کر کے؟
فیض حمید کے اس زوال سے ایک سبق یہ بھی سیکھا جا سکتا ہے کہ کسی عہدے کیلئے اتنی دور تک نہیں جانا چاہیے۔ اگر تقدیر آپ کا راستہ روک رہی ہے تو ایک دو کوششیں کر کے رک جائیں۔ آپ کا مقدر آپ سے بہتر آپ کے بارے میں جانتا ہے کہ اس نے آپ کو کہاں لے کر جانا ہے اور کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔ میں نے اپنی زندگی سے یہی سیکھا ہے کہ کسی جائز کام یا خواہش کیلئے کوشش ضرور کریں لیکن اس کے حصول میں پاگل پن کی حد تک نہ چلے جائیں‘ جیسے ڈاکٹر فائوسٹس نے کیا تھا۔ ڈاکٹر فائوسٹس سب کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا‘ چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ اس کیلئے اس نے اپنی روح کا سودا شیطان سے کیا‘ جس نے اس کی سب خواہشات پوری کر دیں اور مرنے کے بعد اس کی روح کو جہنم میں چھوڑ آیا۔ اگر قدرت آپ کا راستہ روک رہی ہے تو رک جائیں! لیکن ہم انسان مقدر سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور انتقام ہماری سوچ پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہی پرانی کہاوت کہ ہم دشمن کی قبر کھودتے کھودتے اپنی قبر بھی ساتھ کھودتے چلے جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی کچھ عمران خان اور فیض حمید کے ساتھ ہوا۔ جہاں انہیں رکنا چاہیے تھا وہ نہ رک سکے اور اپنی تقدیر کو ضرورت سے زیادہ ہی آزمانے چل نکلے۔ وہ جوائنٹ وینچر لانچ کیا جو انہیں جیل تک لے گیا‘ جہاں سے دونوں کے جلدی نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
اب دیکھا جائے تو عمران خان وہی ردِعمل دے رہے ہیں جو مقتدرہ اور حکمران چاہتے تھے۔ میں نے پچھلے دنوں ٹی وی شوز میں بھی یہ کہا کہ عمران خان سے ملاقات کی پابندی کے پیچھے مقتدرہ کی ایک سوچ ہے۔ وہ غصے میں عمران خان سے کوئی اہم فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ خان کو غصہ کیسے دلانا ہے اور کیسے غصے میں بم کو لات مارنے پر مجبور کرنا ہے۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ اس طرح ملاقاتوں پر پابندی لگا کر عمران خان کو غصہ دلایا گیا۔ دیگر دو تین کام بھی کیے گئے تاکہ خان کو غصہ آئے۔ سیانے کہتے ہیں کہ غصے میں انسان ہمیشہ اپنا نقصان کرتا ہے۔ پچھلی دفعہ غصہ دلا کر پی ٹی آئی ارکان سے پارلیمانی کمیٹیوں سے استعفے دلائے گئے تاکہ حکومت کو جو مشکلات پیش آ رہی ہیں‘ وہ دور ہوں۔ خان نے استعفے دینے کا حکم دیا تو پی ٹی آئی ارکان خوش نہ تھے کیونکہ ان اجلاسوں سے انہیں تگڑا الائونس ملتا تھا اور دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع بھی۔ یوں وہ عمران خان سے دلبرداشتہ ہو گئے۔ اب کی دفعہ جب پورا ایک ماہ ملاقات نہ کرائی گئی تو میں نے ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اس دفعہ بھی خان کو غصہ دلا کر نروس سسٹم پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی ایک خوبی کے سب قائل ہیں‘ وہ فیصلہ پہلے کرتے ہیں اور اس کی وجوہات بعد میں تلاش کرتے ہیں۔ میجر عامر اپنے ایک دوست کے بارے کہا کرتے تھے کہ وہ ناراض پہلے ہوتا ہے اور ناراضی کی وجہ بعد میں ڈھونڈتا ہے۔ دوسرا‘ جو خان کے کانوں تک پہلے پہنچ جائے اور جو کوئی کچھ کہہ دے‘ وہ اسے فوراً تسلیم کر کے سخت فیصلے کر لیتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ اپنی ہی پارٹی کے چھ سات اراکین کو 'غدار‘ قرار دے دیا کہ وہ لوگ NDU کیوں گئے تھے۔ ایک ہی ٹویٹ میں آدھی سے زیادہ پارٹی کو میر جعفر اور میر صادق قرار دے دیا۔ ان میں ثناء اللہ مستی خیل جیسا جانباز بھی شامل ہے‘ جس نے این ڈی یو میں زرداری صاحب کی تقریر کے دوران سب کے سامنے عمران خان کا مسئلہ اٹھایا اور پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ میں نے انہیں خان کیلئے لڑتے بھی دیکھا۔ پہلے پی ٹی آئی والے ایک دوسرے کو ٹائوٹ‘ مخبر اور ایجنٹ کہتے تھے مگر اب سب میر صادق اور میر جعفر ہیں۔ یہی کچھ وہ خان سے کرانا چاہتے تھے کہ پارٹی میں سب ایک دوسرے کو ٹائوٹ‘ ایجنٹ اور مخبر کہیں مگر خان نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں غدار قرار دے دیا۔ ہمارے کپتان نے ایک دفعہ پھر انہیں مایوس نہیں کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں