وفاقی وزیرمملکت برائے قانون نے چند روز قبل خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کا اشارہ دیا تھا‘ جس کے بعد سے کے پی میں ممکنہ گورنر راج سے مطلوبہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے چند بااثر شخصیات کے نام‘ بطور نئے گورنر خیبرپختونخوا گردش کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی وضعدار شخصیت کے مالک ہیں لیکن ان میں صوبے کے سنگین بحران پر قابو پانے کی صلاحیت کم دکھائی دیتی ہے۔ ان کی گورنر شپ کے پونے دو سال کے عرصہ میں ایسی کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی جس سے وفاق کو صوبے کے حالات کو کنٹرول کرنے میں معاونت ملی ہو۔ کے پی میں موجودہ بحران کے پیشِ نظر محض روایتی انداز اور رسمی حکمت عملی کافی نہیں بلکہ اس بحران کی نوعیت کو سمجھ کر بروقت فیصلے کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
آئین کے آرٹیکل 232 کے مطابق اگر کسی جنگ یا بیرونی مداخلت کی وجہ سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں یا کوئی ایسی اندرونی شورش‘ جس پر قابو پانا صوبائی حکومت کے بس کی بات نہ ہو تو صدر ِمملکت ایمرجنسی نافذ کر کے صوبے میں گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں۔ تاہم اٹھارہویں ترمیم کے مطابق اس کی ایک شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے اس کی منظوری دے۔ اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر 15 دن کے اندر قومی اسمبلی اور سینیٹ‘ دونوں سے اس کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔ آرٹیکل 232 اور 234 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر صدرِ مملکت اس حوالے سے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کر لیں تو اس صورت میں انہیں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے 15 روز کے اندر اپنے فیصلے کی توثیق کرانا ہوگی۔ گورنر راج کی مدت صرف دو ماہ ہو سکتی ہے اور اس کی توثیق پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے کرانا ہوتی ہے‘ جبکہ گورنر راج میں ایک وقت میں صرف دو ماہ کی توسیع ہی کی جا سکتی ہے اوراس کی کل میعاد چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اگر اس دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو گورنر راج تین ماہ تک نافذ رہے گا‘ جب تک کہ قومی اسمبلی کے انتخابات نہ ہو جائیں یا سینیٹ اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہ کر لے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں خیبر پختونخوا میں صورتحال کافی حساس ہے۔ صوبے کی اہم سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ صوبے میں گورنر راج کے معاملے سے عوامی نیشنل پارٹی کو باہر رکھا جائے۔ لہٰذا وفاقی وزیر مملکت برائے قانون کو ایسے کسی بیان سے پہلے زمینی صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے تھا۔ مزید یہ کہ اس وقت صوبے کے نوجوان طبقے کو گورنر راج پر قائل کرنا وفاقی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ کے پی میں گورنر راج نافذ کرنا آسان کام نہیں ہو گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گورنر راج کا بیان محض وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو دباؤ میں لانے کیلئے دیا گیا ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی سنگین صورتحال کے پیشِ نظر وفاقی حکومت صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے پر واقعتاً غور کر رہی ہے۔
کے پی میں گورنر راج نافذ کرنے کیلئے مارچ 1973ء میں خیبرپختونخوا (تب صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں لگائے گئے گورنر راج کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گورنر راج لگانے کے بعد بلوچستان میں تب کے مردِ آہن نواب اکبر بگٹی‘ اور صوبہ سرحد میں اسلم خٹک کی معاونت سے حالات کنٹرول کرنے کے بعد اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتیں تشکیل دی تھیں۔ موجودہ حالات مختلف ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین نئے عسکری تصادم کے خدشات بھی موجود ہیں۔ ان حالات میں خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی لگانے اور گورنر راج نافذ کرنے کے دور رس نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جس کے دیگر علاقوں تک پھیل سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بالکل جائز‘ آئینی اور معمول کے کاموں کو بھی ایسے نظرانداز کیا جاتا ہے کہ اس سے حکومت کا کردار خودبخود مشکوک ہو جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کسی بڑے کام کے حوالے سے ایسی خاموشی اور غیر ضروری رازداری اختیار کی جاتی ہے کہ جس سے عوام میں بے یقینی اور خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ عوام کو اصل مسئلہ وفاقی حکومت کے فیصلوں سے نہیں بلکہ فیصلہ کرنے کے طریقہ کار سے ہے۔ میرے خیال میں وفاقی وزیر مملکت کی طرف سے خیبرپختونخوا میں گورنر راج کا شوشہ تحریک انصاف پر دباؤ بڑھانے کیلئے چھوڑا گیا۔ فی الحال ایسا کوئی منصوبہ سنجیدگی سے زیرغور نہیں۔ موجودہ حالات میں گورنر کو تبدیل کر کے کسی قدآور سیاسی شخصیت کو کے پی کاگورنر لگانا بہتر رہے گا۔
اگر خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی اور گورنر راج نافذ کیا گیا تو بلوچستان اور سندھ کے حالات بھی خراب ہو سکتے ہیں‘ جس سے ملک میں مڈٹرم الیکشن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے مقتدرہ اور ملک کی سیاسی قیادت بہت کم ایک پیج پر رہے ہیں۔ دونوں کے درمیان کبھی مکمل تعاون‘ کبھی ٹکراؤ اور کبھی مقتدرہ کا مکمل کنٹرول دیکھنے میں آیا ہے۔ دونوں فریق ریاست کے ستون ہیں مگر طریقہ کار‘ سوچ اور ترجیحات مختلف ہیں۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں یہ بات واضح ہے کہ اگر آج مقتدرہ اور ملک کی سیاسی قیادت ایک پیج پر ہیں تو اس کی وجہ صرف موجودہ بحران نہیں بلکہ کچھ تاریخی واقعات نے بھی یہ راہ ہموار کی ہے‘ جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا اور وفاق میں بڑھتے تنازعات کے اثرات محض سیاسی نہیں ہوں گے بلکہ سماجی سطح پر بھی یہ اثرات محسوس ہوں گے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو سیاسی انتشار میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ جس سے نہ صرف صوبے بلکہ قومی سطح پر بھی انتظامی اور سیاسی چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کسی بھی اقدام سے قبل سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جائے اور آئینی دائرے کے اندر رہتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔
دوسری جانب باخبر ذرائع کے مطابق مقتدرہ نواز شریف کے حالیہ بیانات کا بغور تجزیہ کر رہی ہے۔ شنید ہے کہ نواز شریف جنرل قمر جاوید باجوہ کا احتساب چاہتے ہیں‘ جبکہ ریاستی اداروں کو عمران خان کے حالیہ بیانات پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ اسی طرح اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی روکنے اور نئے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کافی متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کے آئین میں چند مزید ترامیم درکار ہیں۔ اقلیتی اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 224 میں ترامیم کر کے آرٹیکل 226 کی روح کو بحال کرنا ہوگا تاکہ آئینی ڈھانچہ مزید متوازن اور مستحکم بنایا جا سکے۔
اُدھر 28نومبر کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے آئین پاکستان میں ہونے والی 27ویں ترمیم کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کرتی ہے اور احتساب اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔اس پرپاکستانی دفتر خارجہ نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان میں پاکستان کے مؤقف اور زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کی گئی۔پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے اعلامیہ کو مسترد کرنے کے بعد پاکستان کے امریکہ اور یورپی یونین ممالک کے ساتھ تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔ ان ممالک کی طرف سے پہلے بھی پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ پاکستان میں موجود ان ملکوں کے سفارتخانے بھی اپنے اپنے ممالک کو پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹیں بھجواتے رہتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ملکی خارجہ پالیسی پر بھی دباؤ ڈالتی ہے جس کے اثرات پاکستان کی علاقائی ساکھ اور تجارتی تعلقات پر بھی پڑیں گے۔