"KDC" (space) message & send to 7575

فیض حمید کی الیکشن میں مداخلت کی کہانی

فیض حمید کی سزا سے متعلق جاری کردہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے آخری پیراگراف نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ 11 دسمبر کو جاری کردہ پریس ریلیز کے آخر میں کہا گیا تھا ''سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر انتشار اور عدم استحکام پھیلانے سمیت دیگر معاملات میں مداخلت کے پہلو علیحدہ طور پر دیکھے جا رہے ہیں‘‘۔ پریس ریلیز کے یہ مندرجات نو مئی کے واقعات میں فیض حمید اور عمران خان کے ممکنہ گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ جبکہ ریاست مخالف ان واقعات میں عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کے کردار کے شواہد پہلے ہی مختلف سطحوں پر موضوعِ بحث ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق فیض حمید پر سیاسی اشتعال انگیزی اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے جیسے مقدمات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ اگر عمران خان اور فیض حمید کا نو مئی کے واقعات میں مبینہ گٹھ جوڑ باضابطہ طور پر ثابت ہو جاتا ہے تو تحریک انصاف کے بانی کیلئے مزید مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا میڈیا‘ سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کے اندر ایک مضبوط نیٹ ورک بن چکا تھا۔ انہوں نے ریٹائرڈ افسران کی ایک بڑی تعداد کو عمران خان کی حمایت پر آمادہ کیا‘ جو عمران خان کے جلسوں میں باقاعدہ طور پر شریک ہوتے تھے۔ وہ افسران دراصل موجودہ سیاسی نظام کے خلاف تھے اور اکثر اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث تھے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف جب وزیراعظم بنے تو تحریک انصاف کے ارکان نے اسمبلی سے مستعفی ہو کر حکومت کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل جماعتوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قیادت کے خلاف چلنے والے سبھی مقدمات ختم کرا لیے جبکہ عمران خان اس دوران مقتدرہ مخالف بیانیہ بنانے میں مشغول رہے۔ عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوا اور اس کا ایک نتیجہ سانحہ نو مئی کی صورت وقوع پذیر ہوا‘ جس کی سزا تحریک انصاف بھگت رہی ہے۔
اگر فیض حمید کو فوجی عدالت سے ملنے والی سزا کی بات کی جائے تو فیض حمید اس سزا کے خلاف آرمی کے کورٹ آف اپیلز میں جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں‘ جس کے بعد ان کے پاس آرمی چیف کو اپیل کرنے کا حق بھی ہے۔ فوج کے جوڈیشل پراسیس کے بعد وہ ہائیکورٹ جا سکتے ہیں‘ جس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔ یعنی فیض حمید کو انصاف کے تمام مراحل اور متعلقہ ادارے میسر ہیں۔ فیض حمید کی سزا کا فیصلہ آنے کے بعد ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر یہ بحث چل نکلی کہ ملک کے حساس ترین ادارے کا ڈائریکٹر جنرل کس طرح سیاست اور کاروبار میں ملوث رہا‘ کس طرح ایک ہاؤسنگ سوسائٹی پر قابض ہو کر کرپشن کرتا رہا۔ کس طرح اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا اور طاقت کے نشے میں جو بھی سامنے آیا‘ اس کو راستے سے ہٹا دیا۔ بادی النظر میں یہ معاملہ فیض حمید کی ذات تک محدود نہیں تھا کیونکہ فیض حمید جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت تھے اور انہیں فیض حمید کی حرکات وسکنات کا یقینا علم ہو گا۔ جب فیض حمید ہاؤسنگ سوسائٹی پر قابض ہوئے تو سوسائٹی کے مالک نے پیر آف پگاڑا کے ذریعے اس وقت کے وزیر داخلہ سے مداخلت کی استدعا کی۔ تب تک فیض حمید اور ان کے فرنٹ مین سوسائٹی مالک سے اربوں روپے لوٹ چکے تھے۔ پھر سوسائٹی کے مالک کی طرف سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے فیض حمید کا کیس وزارتِ دفاع کو بھجوا دیا۔ بظاہر فیض حمید کے کیس کا فیصلہ آ چکا ہے لیکن اس کیس سے ابھی مزید انکشافات سامنے آ سکتے ہیں۔
1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف راولپنڈی سازش کیس تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کے محرک اس وقت کے میجر جنرل اکبر خان تھے‘ جنہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ سازش تیار کی تھی لیکن ان کی اہلیہ نسیم جہاں نے ملٹری انٹیلی جنس کو اس حوالے سے بروقت آگاہ کر دیا‘ جس کے بعد وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں‘ مقدمات چلتے رہے‘ لیکن بعد ازاں سب کو معافی دے دی گئی۔ میجر جنرل اکبر خان نے رہائی کے بعد 1959ء میں اپنی اہلیہ نسیم جہاں کو طلاق دے دی تھی۔ بعد ازاں 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنا سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا‘ اور ان کی سابقہ اہلیہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی ممبر بن گئیں۔ ماضی کے واقعات کے پیشِ نظر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل‘ فیض حمید کو بھی معافی مل جائے گی۔
فیض حمید پر تنقید کرنے والوں میں ایسے سیاسی رہنما بھی شامل ہیں‘ ایک زمانے میں فیض حمید جن کے سہولت کار تھے۔ تنقید کرنے والوں میں ایک ایسی شخصیت پیش پیش ہے جس کی نااہلی کا کیس ڈراپ کرنے کیلئے فیض حمید نے ذاتی طور پر چیف الیکشن کمشنر کو سفارش کی تھی؛ البتہ چیف الیکشن کمشنر ان کے دباؤ میں نہیں آئے تھے۔ فیض حمید نے الیکشن کمیشن کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کو ختم کرانے کیلئے بھی چیف الیکشن کمشنر پر دباؤ ڈالا تھا‘ تاہم الیکشن کمشنر نے فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی ختم کرنے کیلئے مداخلت سے انکار کر دیا اور 5 اگست 2022ء کو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈز ضبط کرنے کا حکم دیا‘ جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ فیض حمید نے چیف الیکشن کمشنر پر دباؤ ڈالوا کر انہیں عمران خان سے خفیہ ملاقات کیلئے راضی کرنے کی کوشش بھی کی‘ لیکن چیف الیکشن کمشنر ڈٹے رہے اور اس ملاقات سے صاف انکار کر دیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف آئے دن نت نئی منطق پیش کرتے رہتے ہیں۔ وہ جس منصب پر فائز ہیں وہ ان سے سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ ماضی میں ان کے جنرل باجوہ‘ فیض حمید اور حساس اداروں کے سربراہان سے ذاتی تعلقات تھے اور نواز شریف بھی ان کے توسط سے عسکری قیادت سے رابطے میں تھے۔ سیاستدانوں کا یہی فن ہے کہ حاضر سروس سے رفاقت کو اعزاز سمجھتے ہیں اور جب وہ ریٹائر ہو جائیں تو ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔
پاکستان آج ایک سنگین قومی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ بحران صرف معیشت یا سیاست تک محدود نہیں بلکہ ریاست‘ اداروں‘ معاشرے اور قومی اخلاقیات سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ہم مسلسل ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں‘ ماضی کے زخم کھرچ رہے ہیں اور اختلاف کو دشمنی میں بدل چکے ہیں۔ اس روش نے ہمیں بطور قوم کمزور کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایک قومی Truth and Reconciliation پراسیس کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا عمل جہاں سچ کو تسلیم کیا جائے‘ غلطیوں کا اعتراف ہو اور اجتماعی طور پر معافی اور درگزر کا راستہ اختیار کیا جائے۔ دنیا کی کئی اقوام اسی راستے سے خانہ جنگی‘ آمریت اور شدید تقسیم کے بعد دوبارہ کھڑی ہوئیں۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہر طبقے‘ ہر ادارے اور ہر سیاسی قوت سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ کوئی مکمل بے گناہ نہیں اور کوئی مکمل مجرم بھی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سچ ماننے سے انکار کرتے ہیں اور ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ اختلافِ رائے کو ختم نہیں کیا جا سکتا مگر اسے نفرت میں بدلنا قومی خودکشی ہے۔ اختلاف کو برداشت کرنا‘ سننا اور آئینی دائرے میں رکھنا ہی مضبوط ریاست کی علامت ہے۔ ہمیں اداروں کی حیثیت کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ عوام کو محض تماشائی نہیں بلکہ اصل فریق تسلیم کرنا ہو گا۔ عوام کی معاشی تباہی‘ ذہنی تھکن اور مایوسی کو تسلیم کیے بغیر کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں اور ان پر اعتماد کے بغیر ریاست کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ یہ مطالبہ کسی ایک جماعت یا کسی ایک ادارے کے حق میں یا خلاف نہیں‘ بلکہ صرف اور صرف پاکستان کیلئے ہے۔ اگر ہم نے سچ‘ معافی اور مفاہمت کا راستہ نہ اپنایا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ قومیں نفرت سے نہیں‘ درگزر اور خود احتسابی سے بنتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں