"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات میں تاخیر اور نظام کا مستقبل

19 دسمبر 1984ء کو پاکستان میں جو سیاسی‘ آئینی اور قانونی زلزلہ آیا تھا وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں جس قدر اہم ہے اسی قدر متنازع بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس روز جنرل ضیا الحق حکومت نے ایک ریفرنڈم کرایا تھا جس میں عوام سے استفسار کیا گیا کہ وہ جنرل ضیا کے نافذ کردہ اسلامی نظام کے حق میں ہیں یا نہیں۔ دراصل یہ ریفرنڈم ضیا الحق کی صدارت کو آئینی جواز دینے کی ایک کوشش تھی۔ الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق ''عوام‘‘ کی بھاری اکثریت نے ''ہاں‘‘ میں جواب دیا۔ ''ہاں‘‘ کہنے والوں کوجنرل ضیاء الحق کی صدارت کے حق میں ووٹ تصور کیا گیا یوں ضیا الحق کو مزید پانچ سال کیلئے صدر قرار دے دیا گیا۔ اپوزیشن بشمول بینظیر بھٹو‘ آزاد مبصرین اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اس ریفرنڈم پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں عوامی شرکت بہت کم تھی‘ دباؤ کا ماحول تھا اور نتائج خود ساختہ تھے۔ یہ ریفرنڈم سیاسی تاریخ میں ایک ایسا سانحہ مانا جاتا ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت‘ آئین اور اقتدار کے توازن پر طویل مدتی اثرات مرتب کیے۔
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے پورے خطے میں ایک منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے مگر بدقسمتی سے اس ملک کا نظام چلانے والا اشرافیہ کا گروہ اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں رہا۔ کرپٹ ذہنیت اور ہر اچھے کام کے راستے میں رکاوٹ بن جانا اس گروہ کا خاصہ رہا ہے۔ ضیا الحق کے ریفرنڈم کے آئینی خالق شریف الدین پیرزادہ‘ جسٹس رفیق تارڑ‘ جسٹس ایس اے نصرت اور رائٹ وِنگ کی سیاسی جماعتوں کے حامی میڈیا پرسنز تھے۔ اس سے قبل ضیاالحق نے 1979ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اور یہ سلسلہ 1988ء تک کامیابی سے چلایا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریفرنڈم کی بدعت سے اپنے آپ کو پانچ سال کیلئے صدر منتخب کرایا تھا۔ یہ ریفرنڈم جو اپریل 2002ء میں کرایا گیا اس کے آئیڈیا کے پس منظر میں بھی شریف الدین پیرزادہ کا نام لیا جاتا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اس ریفرنڈم کو آئینی حیثیت دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر‘ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے اس ریفرنڈم کی مخالفت کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ کے ذریعے ریفرنڈم کرانے کا مشورہ دیا تھا جسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ جس آئینی بینچ نے اس ریفرنڈم کو قانونی حیثیت دی تھی اس میں جسٹس افتخار چودھری بھی شامل تھے۔
ہمارے نظام میں بے شمار ایسے کردار موجود رہے ہیں جو اپنے غلط فیصلوں سے ملکی مفاد کو شدید نقصان پہنچاتے رہے۔ اس وقت پورے ملک کے نظام کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ملک کرپشن زدہ مسائل کا شکار ہے اور اس کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ سیاستدانوں کے خاندانوں کی مستقل رہائش گاہیں بیرونِ ملک ہیں‘ کاروبار بھی باہر ہیں مگر انہیں سیاست پاکستان میں کرنی ہے۔ ایسی ذہنیت کے لوگ ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ معاشی ماہرین اور اداروں کے مطابق اس وقت معاشی شرح نمو 2.7 فیصد ہے۔ سرمایہ کاری بھی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ غربت کی شرح 45 فیصد پر جا پہنچی ہے۔ گزشتہ تین عشروں میں یہ بلند ترین شرح ہے۔ بے روزگاری 21 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس وقت مقتدر حلقوں پر کسی سیاسی جماعت یا کسی تحریک کا کوئی دباؤ نظر نہیں آ رہا۔ طاقتور حلقے جو راستے بنا رہے ہیں‘ جو اعتماد وہ ظاہر کر رہے ہیں‘ اس کے بعد یہ سوچنا بھی درست نہیں کہ ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے۔ انہیں اس نظام کا مکمل ادراک ہے اور ان کی نظریں بہت دور تک ہیں۔
نظام کی درستی کیلئے پہلے مرحلے میں اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں‘جو 2021ء سے التوا کا شکار ہیں۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخاب کا پس منظر انتظامی سازشوں کا شکار اور بہت پریشان کن رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے دوران اسلام آباد کے بلدیاتی انتخاب عین اس موقع پر ملتوی ہوگئے جب کاغذاتِ نامزدگی داخل ہو چکے اور تمام مراحل مکمل تھے۔ عدم اعتماد کے ذریعے اس حکومت کی رخصتی کے بعد جو پی ڈی ایم حکومت آئی تو اس نے بھی بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رخنہ ڈالتے ہوئے یونین کونسل کی تعداد میں اضافہ کر کے الیکشن کمیشن کے شیڈول کو متاثر کیا۔ اب الیکشن کمیشن نے 15 فروری 2026ء کو انتخابات کرانے کا حتمی شیڈول جاری کیا ہے۔اس وقت ایوانِ اقتدار کے اندرونی حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وزارتِ داخلہ اسلام آباد کے بلدیاتی قوانین میں اہم تبدیلیاں لا رہی ہے اور احسن اقبال اس فارمولا پر کام کر رہے ہیں کہ اسلام آباد میں 25اراکان پر مشتمل بلدیاتی وفاق کونسل بنا دی جائے اور چیف کمشنر اسلام آباد کو اس کا چیئرمین بنا دیا جائے۔ وفاقی کونسل کے دو اراکین کے انتخابات کیلئے طریقہ وضع کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد انتہائی حساس یونٹ ہے اور اس شہر کا نظام ایسا مثالی ہونا چاہیے جو بین الاقوامی معیار کا ہو۔ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ بلڈنگ کمیشن جو فارمولا بنا رہی ہیں‘ اس کے خدوخال سامنے آنے کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا۔ بادی النظر میں یہ نظر آ رہا ہے کہ اسلام آباد کے لوکل گورنمنٹ انتخابات ایک بار پھر بیورو کریسی اور اشرافیہ کے مفادات کی نذر ہو جائیں گے۔
پنجاب کے لوکل گورنمنٹ انتخابات مارچ 2026ء میں ہونے کے امکانات ہیں۔ پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2025 کی متنازع شقوں پر اپوزیشن نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے اور ایڈووکیٹ جنرل نے پنجاب حکومت کا مؤقف جمع کرا دیا ہے کہ پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات جماعتی سطح پر کرانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ لہٰذا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں جماعتی سطح پر بلدیاتی انتخابات مارچ میں ہو جائیں گے۔ بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات جو 28 دسمبر کو ہونا تھے‘ وفاقی آئینی عدالت کے حکم پر ملتوی کر دیے گئے کیونکہ بلوچستان کے شدید ترین موسم کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مشکل تھا۔ پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا دنگل بڑا معنی خیز ثابت ہو گا۔ شنید ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائیں گے۔ اسلام آباد کے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات اگر 15 فروری کو ہو جاتے ہیں تو اس کے نتائج کو دیکھ کر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول بھی جاری ہو سکتا ہے۔
ادھرپارلیمنٹ کی راہداریوں میں چہ مگوئیاں سننے کو مل رہی ہیں کہ 28ویں آئینی ترمیم سے پاکستان کے موجودہ آئین کے خدوخال میں اہم ترامیم ہونے جا رہی ہیں۔ دراصل پاکستان کی دستوری تاریخ میں کئی نشیب وفراز آتے رہے‘ ان کا پس منظر چونکہ طویل ہے اس لیے مکمل تجزیہ اگلے کسی کالم میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔ مختصراً جائزہ یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد آئین ساز اسمبلی کا جواز نہیں بنتا تھا کیونکہ چیف مارشل ایڈوائزر‘ صدرِ مملکت اور کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات کرانے کیلئے جولائی میں جو ایل ایف او 1970ء جاری کیا تھا‘ 16 دسمبر 1971ء کو اس کا وجود ختم ہو گیا تھا لہٰذا آئین ساز اسمبلی کا تصور مبہم ہو چکا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کے چیف جسٹس حمود الرحمن سے میری تین گھنٹے طویل ایک ملاقات بھی ہوئی تھی اور انہوں نے آف دی ریکارڈ جو واقعات مجھے بتائے تھے‘ اب ان کو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ سب کچھ اگلے کالم میں بیان کیا جائے گا۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ موجودہ نظامِ حکومت دیمک زدہ ہو چکا۔ پارلیمان‘ عدلیہ‘ انتظامیہ‘ بیورو کریسی اور کابینہ کو عوام کے جذبات کا کچھ ادراک نہیں لہٰذا فیصلہ سازوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حکومت اور مستقبل کا نظام تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ موجودہ نظام اور حکومت کے مستقبل کا کسی کو کچھ علم نہیں‘ کیونکہ نہ کبھی اس بارے میں کوئی اعلان ہوا اور نہ ہی نظام اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اعلان کرنا ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں