منیب الحق کا خیال ہے کہ میرے پاکستان سے جاتے ہی معاملات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ منیب الحق کے مطابق میں جب تک پاکستان میں ہوتا ہوں تب تک حالات ٹھیک رہتے ہیں۔ منیب کا یہ خیال دراصل خیالِ خام سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ میں خوب جانتا ہوں کہ میرے پاکستان میں ہوتے ہوئے حالات کتنے ٹھیک ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ ویسے بھی حالات خراب کرنے والے مجھ سے پوچھ کر حالات خراب نہیں کرتے ہیں۔ ہم جیسے بے وقعت لوگوں کی بھلا اوقات ہی کیا ہے۔ جو لوگ اس ملک اور اس کے 25 کروڑ عوام کے حال اور مستقبل کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں انہیں بھلا اور کس چیز کی پروا ہو سکتی ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ستائیسویں ترمیم کی توپ میری پاکستان سے غیر موجودگی میں چلائی جا رہی ہے۔ تاہم میں موجود بھی ہوتا تو سوائے دل جلانے کے اور کیا کرتا؟ ویسے یہ کام تو میں ملتان سے 11ہزار630 کلومیٹر دور بیٹھا بھی کر رہا ہوں۔ ایک کہاوت ہے کہ ''قہر درویش برجان درویش‘‘ سو یہ مسافر یہاں بھی صرف اپنا دل جلا رہا ہے‘ کڑھ رہا ہے اور اپنی بے بسی سے ''لطف‘‘ لے رہا ہے۔
لیکن محض منیب الحق کی بات کو غلط ثابت کرنے کیلئے سرکار نے میرے ملتان سے نکلتے ہی‘ یعنی اگلے ہی روز ملتان ایونیو کے نام سے ایک شاندار منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ مجھے اگر علم ہوتا کہ میرے ملتان سے نکلتے ہی ملتان کی قسمت کھل جائے گی تو میں اپنا رختِ سفر پہلے باندھ لیتا۔ مگر پھر خیال آیا کہ اگر ملتان میں میرے ہر سفر پر ایسا ہونا شروع ہو جاتا تو ملتان بلامبالغہ اب تک واقعی پیرس بن چکا ہوتا مگر حال یہ ہے کہ ملتان اب تک پہلے جیسا ملتان بھی نہیں بن سکا‘ پیرس بننا تو دور کی بات ہے۔
ایک صاحبِ علم دوست سے ملتان ایونیو کی تفصیلات دریافت کیں تو اس نے بتایا کہ یہ شاید پاکستان بھر میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا روڈ پروجیکٹ ہے جس میں تین تین لین پر مشتمل دو رویہ سڑک کی تعمیر کے علاوہ مین روڈ اور سروس روڈ کے درمیان والے نو کلومیٹر پر یعنی دو طرفہ اٹھارہ کلومیٹر پر مشتمل یہ ساری پٹی پارکنگ اور گرین بیلٹ پر مشتمل ہو گی اور سڑک کے دونوں طرف واقع کمرشل ایریا موجودہ بے ہنگم اور غیر منظم پارکنگ سے نجات حاصل کرے گا۔
میں نے پوچھا کہ اس منصوبے پر کل خرچہ کتنا آئے گا؟ اس پر اس دوست نے بتایا کہ یہ شاید ملتان کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر دو ارب 80 کروڑ روپے صرف ہوں گے اور یہ چار ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل ہو جائے گا۔ میں نے اسے وہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ صرف چار ماہ میں؟ اللہ کے بندے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے قلعہ کہنہ قاسم باغ کے تحفظ‘ بحالی اور تزئین وآرائش کیلئے آج سے تقریباً گیارہ ماہ قبل مبلغ دو ارب 78کروڑ روپے منظور ہوئے تھے۔ یہ منظوری کیونکہ مالی سال 2024-25ء کیلئے تھی اس لیے میرا خیال ہے (جو ممکن ہے غلط ہی ہو) اگر کوئی رقم اپنے منظور کردہ مالی سال کے دوران خرچ نہ کی جائے تو وہ Lapse ہو جاتی ہے۔ واللہ عالم کہ یہ رقم واپس چلی گئی یا ابھی اس کام کیلئے میسر ہے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ابھی تک اس کام کی ابتدا بھی نہیں ہوئی۔ میں نے اس منصوبے پر دسمبر 2024ء میں چار قسطوں پر مشتمل اپنے تحفظات بھرے کالم بعنوان ''ایک بار پھر وہی قصۂ شہر ناپرساں‘‘ لکھتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ خدانخواستہ یہ میری خواہش یا پیشگوئی نہ تھی‘ محض خدشات تھے جو اَب تک تو درست ثابت ہو رہے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں ایک نہایت ہی ذمہ دار سرکاری افسر سے بات کی اور تجویز دی کہ اس کام کی نگرانی‘ پیشرفت اور شفافیت پر نظر رکھنے کیلئے ایک عدد سٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس میں ملتان سے تعلق رکھنے والے دو تین نیک نام شہریوں کے علاوہ ایک دو انجینئرز اور آرکیٹیکٹ بھی شامل کر دیے جائیں تاکہ یہ شہر نہ صرف اس سارے پروجیکٹ کی اونرشپ میں شریک ہو بلکہ کام اور فنڈز کے حقیقی استعمال کو بھی یقینی بنائے اور اس کام کیلئے صرف سرکاری افسروں‘ متعلقہ محکموں اور درمیان میں کود پڑنے والی این جی اوز کے مل بیٹھ کر باہمی رضامندی سے سرکاری فنڈ غتربود کرنے کی قدیم روایت پر کچھ نہ کچھ قدغن لگ سکے۔ اس سرکاری افسر نے میری بات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوئے اس پر عمل کی یقین دہانی کرائی مگر آج گیارہ ماہ گزر گئے ہیں‘ سٹیئرنگ کمیٹی کا بننا تو رہا ایک طرف‘ اس پروجیکٹ پر طریقے سے کام ہی شروع نہیں ہو سکا۔
میرا وہ دوست یہ ساری گفتگو سننے کے بعد کہنے لگا کہ تمہارے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں لیکن اس پروجیکٹ کے بارے میں بہرحال حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ملتان کی انتظامیہ اس منصوبے کو اس کے ڈیزائن کے مطابق جلد از جلد مکمل کروانے پر کمربستہ ہے اور اس کے افتتاح سے قبل ہی چار لین پر مشتمل اس دو رویہ سڑک کے دونوں کچے کناروں کو پختہ کرکے اس کی چوڑائی کو چار سے چھ لین میں بدلا جا چکا ہے۔ تمہاری بدگمانی اور تحفظات سے قطع نظر کچھ نہ کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ باقی تم واپس آؤ گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا اور پھر جو جی میں آئے لکھ دینا۔ تاہم آج کی صورتحال یہ ہے کہ کام نہ صرف شروع ہو چکا ہے بلکہ اس کے واضح آثار دکھائی بھی دے رہے ہیں۔ وہ بتانے لگا کہ یہ منصوبہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں گرین پارک ویز کا تصور پہلی بار عملی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس دو طرفہ 18کلومیٹر طویل راستے پر دائیں جانب وقفے وقفے سے تقریباً ساڑھے پانچ کلو میٹر پر مشتمل اٹھارہ جبکہ بائیں جانب سولہ پارکنگ سٹیشنز یعنی کل چونتیس پارکنگ سٹیشنز بنیں گے جن میں تقریباً 1600 گاڑیاں بیک وقت پارک ہو سکیں گی۔ ان پارکنگ سٹیشنز کے علاوہ باقی پٹی پر دونوں طرف تقریباً ساڑھے آٹھ کلومیٹر پر مشتمل گرین ایریاز میں بینچ‘ پھول‘ گھاس‘ پودوں اور درختوں کیساتھ ساتھ بچوں کیلئے جھولے اور واکنگ ٹریکس ہوں گے۔ یہ سب کچھ شہر کو خوبصورت بنانے کے علاوہ ماحول کو بھی بہتر بنائے گا۔
اللہ مجھے بدگمانی سے بچائے! میں بے اعتباری کا اظہار نہیں کر رہا‘ حسبِ معمول محض اپنے خدشات کا اظہار کر رہا ہوں کہ پہلے پہل ان گرین بیلٹس میں گول گپوں کی ایک آدھ ریڑھی کھڑی ہو گی‘ اس کی دیکھا دیکھی دہی بھلے والے اپنا مال لے کر میدان میں آئیں گے‘ گولے گنڈے والوں نے بھلا کیا قصور کیا ہے کہ وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھو سکیں۔ چپس تو بچوں کو ویسے بھی پسند ہیں۔ اس کے ساتھ اگر کولڈ ڈرنک اور جوس نہ ہوں تو بھلا خاک مزہ آئے گا؟ خاتونِ خانہ کے منہ میں اگر گول گپے دیکھ کر پانی بھر آئے اور وہ شوہر کو وہاں گاڑی روکنے کا کہے تو بھلا شوہر کی کیا مجال ہے کہ وہ گاڑی کو بریک نہ لگائے۔ اس کے بعد کی صورتحال کی منظر کشی فضول ہے آپ چشمِ تصور سے خود اندازہ لگا لیں کہ آگے کیا ہوگا۔ پہلے پہل ایک آدھ ریڑھی سے صرفِ نظر کرنے والے سرکاری اہلکار اپنی دور رس منصوبہ بندی کے عین مطابق بعد ازاں فی ریڑھی ہزار روپے روزانہ جیب میں ڈال کر آنکھیں بند کر لیں گے۔ پورے پاکستان میں یہ طریقہ کار بڑے عرصے سے چل رہا ہے۔
پہلے رکشہ تین سواریوں کیلئے ہوتا تھا۔ پھر مقامی ہونہار انجینئروں نے اسے چھ سیٹوں والی سواری میں بدل دیا۔ اب نو سواریوں والے رکشے دندناتے پھر رہے ہیں جن کو دس بارہ سال تک کی عمر کے بغیر ڈرائیونگ لائسنس والے ڈرائیور ایسے چلا رہے ہیں جیسے کبھی میلوں ٹھیلوں میں موت کے کنویں پر موٹر سائیکل چلتے تھے۔ ابھی آگے آگے دیکھیں ممکن ہے بارہ سواریوں والا رکشہ بھی سڑک پر آ جائے۔ سرکار حسبِ معمول سو رہی ہے۔