"KMK" (space) message & send to 7575

ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی تو نہیں

میں آج ہی امریکہ پہنچا ہوں بلکہ پہنچا بھی کب ہوں‘ ابھی راستے ہی میں ہوں اور سفر ختم نہیں ہوا۔ میں ملتان سے ڈیٹرائٹ کے لگ بھگ 31گھنٹے پر مشتمل سفر کا آخری مرحلہ طے کرنے کے لیے نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر اگلی فلائٹ کا منتظر ہوں۔ میں اس وقت جب ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ بھارت سے افریقہ اور وہاں سے امریکہ ہجرت کرنے والے کھوجہ خاندان کے 34سالہ نوجوان زہران ممدانی کو نیویارک کے میئر کا الیکشن جیتے ایک روز گزر چکا ہے۔ جہاں ایک طرف نیویارک میں میری آمد سے 24گھنٹے قبل ممدانی نے نیویارک کے میئر کا الیکشن جیت کر کئی ریکارڈ قائم کیے ہیں‘ وہیں دوسری طرف ملتان سے روانگی کے اگلے ہی روز ''ملتان ایونیو‘‘ کی تعمیر کا آغاز ہو رہا ہے۔ کہیں میں تاخیر سے پہنچا ہوں اور کہیں سے جلدی روانہ ہو گیا ہوں۔ صرف اسی پر ہی کیا منحصر‘ ساری زندگی اسی طرح گزر گئی کہ کہیں تاخیر ہو گئی اور کہیں عجلت نے کام خراب کر دیا۔
کسی ملک کی ترقی یا تنزلی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی۔ بہت سے عناصر اور عوامل مل کر ترقی کے راستے کا تعین کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل کر کے ترقی کا ثمر حاصل کرتے ہیں۔ امریکہ کی ترقی کے بھی بہت سے عوامل ہیں۔ یاد رہے کہ فی الوقت بات امریکہ کی مادی ترقی کی ہو رہی ہے‘ اس کی اخلاقی حیثیت کی نہیں ہو رہی۔ امریکہ میں ہمارے نقطہ نظر کے مطابق‘ بہت خرابیاں ہوں گی‘ بہت سے معاملات میں گڑبڑ ہو گی مگر یہ ہمارا نقطہ نظر ہے۔ امریکہ پر امریکیوں کے حساب سے نظر دوڑائیں تو اس کی ساری خرابیاں کم از کم ان کے لیے فائدہ مند رہی ہیں۔ بات فی الحال امریکہ کی مادی ترقی‘ عالمی حیثیت‘ علم و ہنر میں اولیت اور معاشی قیادت کی ہو رہی ہے۔ ان عوامل میں علم‘ تحقیق‘ اداروں کا قیام‘ نظام کا مسلسل نگرانی کرنا‘ مستقبل کی منصوبہ بندی‘ دنیا جہان سے اپنے اپنے کام کے ماہرین کو امریکہ کی جانب راغب کرنا اور اپنے طے کردہ سیاسی نظام کو پوری آزادی اور خود مختاری سے چلانا ہے۔
اس امریکی سیاسی نظام میں ہمارے حساب سے خرابیاں بھی ہوں گی جیسے یہ کہ کوئی صدارتی امیدوار زیادہ ووٹ لینے کے باوجود ہار جائے کہ اسے عوامی حمایت یعنی پاپولر ووٹ تو زیادہ ملے مگر وہ امریکی صدر کو منتخب کرنے والے الیکٹورل سسٹم کے تحت پچاس امریکی ریاستوں کو حاصل کل 538الیکٹورل ووٹوں میں سے 270ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا۔ کسی غیر امریکی یا امریکی سیاسی نظام کی اس اختراع سے لاعلم شخص کے لیے تو یہ حیران کن یا قابلِ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک بندہ زیادہ ووٹ لے کر بھی ناکام رہے اور دوسرا کم ووٹ حاصل کر کے بھی امریکہ کی صدارت پر متمکن ہو جائے۔ لیکن یہاں فارم 47کا نہ کوئی وجود ہے اور نہ ہی یہاں کوئی اس قسم کی حرکت کرنے کا سوچ ہی سکتا ہے۔ فارم 47سے قطع نظر‘ امریکی اپنے اس الیکٹورل کالج کے ذریعے اپنے صدر کے انتخاب والے سیاسی بندوبست سے مطمئن ہیں۔ انہیں ہم جیسوں کے اس نظام پر اعتراض یا حیرانی کی کوئی پروا نہیں اور ظاہر ہے انہیں ہونی بھی نہیں چاہیے۔
امریکہ کی ترقی کے بہت سارے عوامل میں سب سے اہم اداروں کی مضبوطی ہے اور یہ چیز امریکی سسٹم کو استحکام‘ دوام اور آگے بڑھنے کا جذبہ دیتی ہے۔ امریکی سیاسی نظام نے وفاق اور ریاستی اداروں میں اختیارات کا ایسا توازن قائم کر رکھا ہے کہ کسی کو حقوق سے محرومی یا حقوق غصب کرنے جیسا مسئلہ درپیش نہیں۔ کسی کو معاملات کو اپنے تئیں سلجھانے کے لیے کسی کو غائب نہیں کرنا پڑتا۔ حالت جنگ میں بھی صدارتی الیکشن ہوئے اور کسی نے بھی جنگ کو بہانہ بنا کر صدارتی الیکشن مؤخر نہیں کیے۔ امریکہ میں جمہوریت ان کے آئین کے عین مطابق ایک تسلسل سے چل رہی ہے اور ان کی ساری ترقی کے پیچھے سب سے اہم چیز جمہوریت کا تسلسل اور اس کے نتیجے میں پالیسیوں کا استحکام ہے۔ اسی استحکام نے اداروں کو مضبوط کیا ہے۔ تاہم اداروں کو مضبوط کرنے سے مراد وہ ہرگز نہیں جو پاکستان میں لی جاتی ہے۔
زہران ممدانی کی مخالفت میں وہ دونوں عناصر یکجا تھے جو تیسری دنیا میں الیکشن لڑنے اور جیتنے کے لیے لازمی تصور ہوتے ہیں۔ یہ دو عناصر طاقت اور دولت ہیں۔ ممدانی کے خلاف امریکہ میں طاقت کی علامت صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف میدان میں تھے بلکہ پوری طرح متحرک بھی تھے۔ دوسری طرف دنیا کا امیر ترین فرد ایلون مسک بھی ممدانی کے مخالف امیدوار سابقہ گورنر نیویارک اینڈریو کومو کی پشت پر تھا۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ بھی اپنی پارٹی یعنی ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کَرٹس سلوا کی حمایت کرنے اور اس کی انتخابی مہم چلانے کے بجائے آزاد امیدوار کومو کے ساتھ تھے۔ زہران ممدانی نے طاقت اور دولت کو شکست دیتے ہوئے نئی تاریخ رقم کی لیکن یہ ساری باتیں امریکہ کے اندرونی معاملات ہیں۔ ممدانی کی فتح نے اصل میں امریکہ سے باہر امریکی صدر کی لامحدود طاقت کے تصور سے ہوا نکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
امریکی صدر کی تمام تر مخالفت کے باوجود نیویارک کے میئر کے الیکشن میں ممدانی کی واضح فتح نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر آپ کا ووٹر آپ کے ساتھ ہے اور آپ کو عوام کی طاقت پر بھروسہ ہے تو پھر کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ امریکی صدر کی تمام تر طاقت وہاں بالکل بے معنی اور بیکار ہو جاتی ہے جہاں سامنے والا عوامی حمایت اور طاقت پر بھروسہ کرتا ہو۔ عوامی حمایت کے مقابلے میں صدرِ امریکہ کی کیا حیثیت ہے‘ یہ بات ممدانی کی فتح نے ساری دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے بے عزتی کروانے والے حکمرانوں کو‘ بے عزتی سے ڈر کر چاپلوسی کرنے والوں کو‘ ٹرمپ کی بے جا حمایت کرنے والوں کو‘ ان کی خوشامد کرنے والوں اور خلاف از واقع تعریفیں کرنے والوں کو نیویارک کے میئر کے الیکشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ اصل شے اپنے عوام پر بھروسہ اور اعتماد ہے۔ ورنہ امریکی صدر کی تو یہ حیثیت ہے کہ وہ چاہنے اور پوری کوشش کرنے کے باوجود نیویارک میں میئر کا اپنا امیدوار نہیں جتوا سکتا۔ امریکی صدر کی یہ وقعت ہے کہ وہ اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر ایک عدد فارم 47بھی جاری نہیں کر سکتا۔ ایک ہم ہیں کہ فارم 47جاری کرنے کی لامحدود طاقت رکھنے کے باوجود امریکی صدر سے ڈرتے ہیں۔ کالم لکھنے کے دوران اچانک شاہ جی کا فون آگیا۔ انہوں نے یہ فون دراصل میرے طویل سفر کے باعث متوقع تھکاوٹ سے لطف لینے کی غرض سے کیا تھا‘ تاہم میں نے اسے غنیمت جانتے ہوئے سے ان سے پوچھا کہ ہمارے حکمران سدا سے امریکہ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ امریکی صدر سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟ اگر ٹرمپ پاکستان میں ہوتا تو صرف ایک عدد فارم 47کی مار تھا۔ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: تم بھی بھولے بادشاہ ہو۔ تمہیں علم ہونا چاہیے کہ فارم 47کے طفیل حکمران بننے والے کسی اور کو فارم 47جاری نہیں کر سکتے۔ ہاں! البتہ اپنی طفیلی حکمرانی کو بچانے کیلئے امریکی خوشنودی میں ضرور لگے رہتے ہیں۔ تم جس فارم سینتالیس کو طاقت کی علامت سمجھ رہے ہو وہ دراصل ہمارے حکمرانوں کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ اس کمزوری کو چھپانے کے لیے وہ زورآوروں اور طاقتوروں کی خوشنودی میں لگے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی تو نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں