"KMK" (space) message & send to 7575

اڈہ بوسن کی قلفی سے چوک شہیداں کے پان تک

گزشتہ کئی عشروں سے یہ جملہ دھراتا ہوں کہ ''عید پہلے جیسی نہیں رہی‘‘ تو یقین کریں اب خود کو یہ جملہ خاصا بوسیدہ اور گھسا پٹا لگتا ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ اب عید ویسی تو ہرگز نہیں رہی جس طرح کی عید سے میں بچپن میں لطف اندوز ہوتا رہا ہوں۔ لیکن اس میں ایک سے زیادہ عوامل شامل ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں نے اپنا بچپن چوک شہیداں کے محلے میں گزارا ہے جہاں کی زندگی اس زندگی سے ہی مختلف تھی جہاں میں اب رہتا ہوں۔ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرے بچوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں وہ ماحول اپنے معاشرتی اور معاشی حوالوں سے ویسا ہرگز نہیں جس قسم کا ہمیں میسر تھا۔ تیسری وجہ شاید یہ ہے کہ معلومات کے بہاؤ یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بہت سی چیزوں کو بے معنی کر کے رکھ دیا ہے۔
مجھے تو فلم بینی کا ویسا شوق لڑکپن میں بھی نہیں رہا جیسا کہ اس زمانے میں میرے دیگر ہم عمر لڑکوں میں ہوتا تھا‘ تاہم عید پر نئی فلموں کا لگنا‘ اس کی ٹکٹ کے حصول کیلئے ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے آگے دھینگا مشتی اور زور آزمائی کرنا یا کسی نکڑ میں کھڑے ہوئے کسی مشکوک سے شخص سے بلیک میں ٹکٹ کی خریداری نہ صرف عام بلکہ خاصی مقبولِ عام چیز تھی۔ اب سینما بینی نہ عام دنوں میں عام رہ گئی ہے اور نہ عید پر ہی اس کی کچھ پذیرائی ہے۔ سینما مجموعی طور پر زوال کا شکار ہے۔ بڑے شہروں میں ماڈرن چھوٹے چھوٹے سینماؤں کا کچھ رواج ہے ''مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘‘۔
میں خود اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عید پر ان کے چہروں پر وہ خوشی بہرحال نہیں ہے جس خوشی سے ہم لطف اندوز ہوتے رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ طرزِ زندگی اور آسودگی کا وہ فرق ہے جو مجھ میں اور میرے بچوں کے درمیان ان پچاس سالوں میں پیدا ہوا ہے۔ ہمیں کپڑوں کا نیا جوڑا سال میں دو تین بار نصیب ہوتا تھا‘ جن میں دوبار تو صرف عید پر یہ عیاشی میسر آتی تھی۔ اور بہت سی چیزیں ایسی تھیں جن کیلئے ہم عید کے منتظر رہتے تھے۔ اب ان چیزوں کا کیا کیا نام لوں؟ گھر والی گلی کے آخری سرے پر کھلے میدان میں لگنے والے لکڑی کے جھولے‘ لکڑی کی ہاتھ سے گھمانے والی ٹٹیری‘ نکمے سے سرکنڈے کے اوپر ستلی لپیٹ کر اس کے اوپر چڑھائے گئے پلاسٹک ربن سے بنائی گئی رنگ دار چھڑی۔ جامنی رنگ کا بے ڈھنگا گھوڑا‘ ابلے ہوئے کالے چنوں کی مسالے دار چاٹ‘ تخملنگا کا شربت‘ میٹھا پان‘ چینی والے لچھے‘ گٹے سے بنے ہوئے مور‘ چڑیاں‘ حقہ اور دیگر اسی قسم کی معمولی چیزیں۔ آگ سے بھڑک اٹھنے والا چورن‘ بارہ من کی دھوبن دکھانے والی تین عدد تماشائیوں کو بیک وقت لطف اندوز کرنے والی چھوٹی سی فلمی مشین جیسے اس کا مالک کمر پر اٹھائے پھرتا تھا اور تین عدد تماشائی میسر آنے پر اسے دوسرے کندھے پر لٹکی ہوئی تپائی پر رکھ کر دکھاتا تھا اور ساتھ ساتھ رننگ کمنٹری کرتا تھا۔ معمولی معمولی چیزوں والی لاٹری جس کی چند غیرمعمولی چیزوں از قسم نائس بسکٹ کا ڈبہ‘ پلاسٹک کی گھٹیا سی عینک اور واہیات سا باجا حاصل کرنے کیلئے ہم ان ساری چیزوں کی مجموعی قیمت سے زیادہ پیسے ادا کرکے ان کی پرچیاں نکالتے تھے مگر خوشی ایسی کہ پیسے برباد ہونے کا رتی برابر ملال نہ ہوتا۔ صبح گھر سے نکلتے تو دوپہر کو شکل دکھانے کیلئے گھر آتے اور پھر دوسرے چکر پر نکلتے تو شام ڈھلے واپسی ہوتی۔
جتنے پیسے ہماری جیب میں عید والے دن ہوتے تھے اتنے پیسوں کا عام دنوں میں تو خواب بھی نہیں آتا تھا اور پیسے ہوتے کتنے تھے؟ پچاس یا ساٹھ روپے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم عیدی کے حساب سے محلے کے شاید سب سے امیر اور خوشحال بچے ہوتے تھے اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہمیں ابا جی اور ماں جی سے علیحدہ علیحدہ عیدی ملتی تھی۔ ماں جی ووکیشنل انسٹیٹیوٹ برائے خواتین کی پرنسپل تھیں اور تب وہ سارے خاندان میں واحد خاتون تھیں جو گزٹیڈ افسر تھیں۔ ہمیں گھر کے دو لوگوں سے عیدی ملتی تھی‘ مطلب ہم بہن بھائی تب اپنے حساب سے عید والے دن امیر ترین بچے ہوتے تھے۔ اندازہ لگائیں صرف پچاس ساٹھ روپے کے ساتھ ہم امیر ترین شمار ہوتے تھے۔ میں ہر عید پر بچوں کے تاثرات دیکھتا ہوں‘ ان کے پاس عید والے دن شام تک بلا مبالغہ ہزاروں روپے عیدی کے طور اکٹھے ہو چکے ہوتے ہیں مگر ان کے چہروں پر وہ خوشی ندارد ہوتی ہے جو ہم محسوس کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اب ہمارے بچوں کیلئے ہزاروں روپے ہونا کوئی خاص بات نہیں ہے۔
سال میں کل تین چار نئے جوڑے کپڑوں میں سے دو جوڑے آپ کو عید پر ملتے ہوں تو نئے کپڑوں کی خوشی کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں لیکن جن کو سال میں درجن بھر سے زیادہ کپڑوں کے نئے جوڑے میسر ہوں بھلا ان کیلئے عید کے کپڑوں کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ تب اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پسند کرنے‘ خریدنے یا سلوانے جیسی عیاشی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ماں جی جو کپڑے لے آتیں ابا جی درزی سے سلوا دیتے اور ہم پہن لیتے اور اس پر بھی ایسی خوشی مناتے کہ اب ایسی خوشی کسی نئے کپڑے کے حصول کے بعد ہمارے بچوں کے چہروں پر قطعی مفقود ہے۔ ہمہ وقت خواہشات کی تکمیل‘ پسند کی چیزوں پر دسترس اور ان تک رسائی آہستہ آہستہ خوشی کا سارا مفہوم ہی بدل دیتی ہے۔
ہم نے عید والے اپنے نئے کپڑوں کا کسی دوسرے سے نہ کبھی موازنہ کیا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے کے کپڑوں کو حسد سے دیکھا تھا۔ ہم حسد کے لفظ سے تو نا آشنا تھے ہی‘ ہم تو تب کسی دوسرے کے کپڑوں پر رشک بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ اب بچے مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسرے بچوں سے مختلف اور بہتر کپڑے پہننا چاہتے ہیں۔ کوئی دوسرا بچہ اتفاقاً برانڈ سے اسی قسم کے کپڑے لے آئے تو بچے اس کا علم ہوتے ہی کپڑے تبدیل کرنے یا اس کے بجائے کوئی دوسرا سوٹ لینے چل پڑتے ہیں۔ موازنے‘ تقابل اور مسابقت نے گویا ساری خوشی کو ایک مقابلے کی صورت دے دی ہے‘ جس نے اپنے کپڑوں کی خوشی کو دوسروں کے کپڑوں کے ساتھ موازنے نے گہنا کے رکھ دیا ہے۔
خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے اس عید والے دن گاڑی ملتان شہر سے بارہ پندرہ کلو میٹر دور اڈہ بوسن کی طرف موڑ لی۔ یہ اڈہ قصبہ بوسن کا بازار ہے اور سڑک پر آباد قصبوں کی طرح سڑک کے ساتھ ساتھ کافی دور تک پھیلا ہوا ہے۔ میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور عید پر سجے ہوئے اس بازار میں چلنا شروع کر دیا۔ بچوں نے مکھیوں بھری مٹھائی کے عارضی سٹال پر رونق لگائی ہوئی تھی۔ فضول چیزوں سے بھری ہوئی دکان پر ویسا رش اور گہما گہمی نہ سہی جو چوک شہیداں میں ریاض کی دکان پر ہوتی تھی مگر اس کا کچھ عکس باقی تھا۔ کالے چنوں والی چاٹ بک رہی تھی۔ سڑک کنارے اڑتی دھول کے زیر سایہ چاٹ‘ دہی بھلے اور گول گپوں کی ریڑھیوں کے ارد گرد خریداروں کی کمی نہ تھی۔ ایک بچہ اپنی اوقات سے بڑی قلفی کو اس کے پگھلنے سے پہلے کھانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا مگر چمکتا ہوا سورج اس کے ارادوں کو ناکام بنانے کی سعی کر رہا تھا۔ اس کی قلفی پگھل کر اس کیی قمیص کے سارے دامن کو داغدار کر رہی تھی مگر وہ بچہ پگھلتی قلفی سے بے نیاز اپنی نرم ہوتی ہوئی قلفی کو جیسے تیسے ختم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ چھ سات سال کا یہ بچہ مجھے چھ عشرے پیچھے لے گیا جب میں نے غلام رسول عرف چاچا سولی کی دکان پر عید کیلئے خاص طور پر لگائے گئے پان کے سٹال سے اپنے منہ کے سائز سے بڑا میٹھا پان خریدا اور اپنی باچھوں سے بہنے والے پان کو اپنی نئی بوسکی والی قمیص کے کفوں سے صاف کرتے ہوئے کپڑوں کے خراب ہونے سے لاپروا اپنے پان سے لطف اندوز ہوا تھا۔ چھ عشروں بعد اڈہ بوسن کا یہ بچہ مجھے دوبارہ ''چوک شہیداں‘‘ لے گیا جہاں چاچا سولی عید کے میٹھے پان کا سٹال لگایا کرتا تھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں