کالم تو کسی اور موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا مگر آج صبح کے اخبار میں ایک خبر پڑھی تو یہ خبر مجھے اپنے دو گزشتہ کالموں کی وہ عملی صورت دکھائی دی جس کی خاطر میں نے یہ دونوں کالم لکھے تھے۔ میرے مورخہ اٹھارہ مارچ اور بیس مارچ کے دونوں کالم معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کیلئے عوام کی ذمہ داری‘ تربیت اور شمولیت سے متعلق تھے۔ یہ خبر کمشنر ملتان کی جانب سے ملتان کے ایک قدیمی سکول میں اسی سلسلے میں آگاہی کی کاوش سے متعلق تھی۔
مورخہ 20 مارچ کو‘ یعنی عین اُسی روز جب میرا کالم دنیا اخبار میں چھپ چکا تھا‘ کمشنر ملتان نے شہر کے سب سے قدیمی اور شاندار ماضی کے حامل گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول‘ جو اَب ہائر سیکنڈری سکول ہو چکا ہے‘ میں طلبہ کے ساتھ ایک غیر روایتی تربیتی نشست رکھی اور ان سے مکالمہ کیا۔ یہ ایک قابلِ تقلید اور قابلِ ستائش قدم ہے جس کی تشہیر اس لیے ضروری ہے کہ اچھائی کو اجاگر کرنا اور پھیلانا ''امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کے پہلے درجے کی ہی ایک صورت ہے۔ ویسے بھی اگر ہم تنقید کرتے ہیں تو تعریف کرنے میں بھلا کیا امر مانع ہے؟
میرے گزشتہ دونوں کالموں کا موضوع فی الوقت ہمارے معاشرے کولاحق خرابیوں‘ کوتاہیوں اور مسائل سے متعلق تھا اور میرا تھیسس تھا کہ بدترین موجودہ صورتحال کے مدنظر اب سب کچھ سرکار پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ عوام کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ جب تک عوامی شعور بیدار نہیں ہوگا یہ مسائل ختم ہونا تو رہے ایک طرف ان میں مزید ابتری آئے گی اور حالات مزید ناگفتہ بہ ہوتے چلے جائیں گے۔ اس سلسلے میں سب سے ضروری چیز عوام کو اس بارے میں آگاہی دینا‘ انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور معاشرتی بہتری میں انہیں شامل کرنا ہے وگرنہ اس کے بغیر کسی قسم کی بہتری کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مسئلہ تعلیم سے بڑھ کر تربیت کا ہے اور اس سلسلے میں سرکار‘ ادارے‘ مذہبی رہنما‘ اساتذہ اور والدین اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں وگرنہ معاشرہ بتدریج اس طرح تنزلی کی طرف نہ جا رہا ہوتا۔ شکر ہے کسی ایک شخص کی حد تک‘ اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے کو سرکار کی چھتری تلے سکولوں کے طلبہ کو آگاہی دینے کا آغاز ہوا‘ جو خوش آئند بھی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں اس ماڈل کو پھیلایا جائے گا۔ تربیت کا آغاز تو ویسے ماں کی گود اور گھر سے ہی شروع ہوتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ابتدائی اور سب سے اہم ادارہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے‘ وگرنہ خرابیاں اس حد تک نہ پہنچتیں۔ تربیت کا دوسرا اہم ترین ادارہ مدرسہ ہے اور اس میں بھی اولین درجوں میں ہی مثبت خیالات اور اعلیٰ اقدار بچوں میں راسخ کی جا سکتی ہیں کہ بچوں کی ذہن سازی انتہائی کم عمری سے شروع کی جائے تو نتائج مہیا کرتی ہے وگرنہ سب کچھ بیکار ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس بارے میں عمر کے مختلف درجے متعین کرتے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ بوڑھے طوطوں کو پڑھانا کارِ لاحاصل اور وقت کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
کمشنر ملتان اس سے پہلے ملتان میں ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں اور تب اہالیانِ ملتان کو شہر میں تبدیلی کے حوالے سے چھ ماہ میں اپنا نام بنانے والے سابقہ ڈپٹی کمشنر نسیم صادق کے بعد دوسرا ایسا ڈپٹی کمشنر ملا تھا جس میں لوگوں کو نسیم صادق کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ طلبہ کی تربیت کیلئے ملتان کے تقریباً ڈیڑھ سوسالہ قدیم اور شاید سب سے بڑے گورنمنٹ سکول کا انتخاب بھی اچھی کاوش ہے۔ میں نے اس سکول کے بڑے ہونے میں لفظ ''شاید‘‘ اس لیے استعمال کیا ہے کہ کچھ عشروں سے سرکاری سکول جس مسلسل تنزلی کی طرف گامزن ہیں اس لیے اب میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس سکول کا کیا درجہ باقی بچا ہے‘ وگرنہ یہ سکول ملتان میں اسی اہمیت کا حامل تھا جس طرح کبھی لاہور میں سینٹرل ماڈل ہائی سکول ہوا کرتا تھا۔
میرے ابا جی مرحوم نے میٹرک اسی سکول سے کیا تھا۔ میں نے ان کی میٹرک کی سند دیکھی تو اس پر ان کا امتحان پاس کرنے کا سال 1942ء درج تھا۔ بعد ازاں بڑے بھائی طارق محمود خان مرحوم نے بھی میٹرک تک تعلیم اسی سکول میں حاصل کی۔ مجھے چھٹی کلاس میں بڑے بھائی کے برعکس گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں داخل کرایا گیا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ سکول ابا جی کے کالج سے متصل تھا اور میں ہر روز صبح ان کے ساتھ سکوٹر پر اپنے سکول چلا جاتا تھا۔ تب اس سکول کا معیار بہت ہی شاندار تھا۔ جب میں داخل ہوا تو اس سکول کے ہیڈ ماسٹر نہایت ہی شاندار ماہر تعلیم غلام ربانی شوکت صاحب تھے‘ بعد میں پائلٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالمالک بھٹہ بھی میرے ہیڈ ماسٹر رہے۔ کیا شاندار اور فنا فی التعلیم قسم کے اساتذہ تھے جو ٹیوشن وغیرہ کے تصور سے بہت بلند تر مقصدِ حیات کے ساتھ فروغِ تعلیم میں اپنی زندگی صرف کرکے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بحیثیت معلم انبیاء کے وارث ہیں۔
پائلٹ سیکنڈری سکول کا آغاز 1870ء میں پرائمری سکول کی حیثیت سے ہوا۔ 1875ء میں اسے مڈل سکول کا درجہ مل گیا۔ یکم اپریل 1878ء میں ہائی کلاسز شروع ہوئیں اور اس کا نام میونسپل بورڈ سیکنڈری سکول کر دیا گیا۔ تب یہ سکول حالیہ عمارت میں تھا نہ ہی حرم گیٹ کی عمارت میں۔ 1904ء میں اسے موجودہ عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ 1922ء میں اس میں جے وی کلاسز کا اجرا ہوا تو اسے گورنمنٹ ہائی اینڈ نارمل سکول کا نام دے دیا گیا۔ 1928ء میں نارمل سکول کو اپنی عمارت مل گئی تو اس کا نام دوبارہ گورنمنٹ ہائی سکول رہ گیا۔ یکم جولائی 1960ء کو پائلٹ سکیم کے تحت اسے گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول کا نام دیا گیا۔
اخبار میں خبر پڑھنے کے بعد میں نے سکول میں ایک جاننے والے کو فون کرکے کمشنر کے دورے اور طلبہ کے ساتھ ان کی گزشتہ روز ہونے والی نشست کے بارے معلومات لیں۔ اس واقفِ حال نے بتایا کہ کمشنر ملتان ڈویژن سے ہونے والی نشست میں صرف پائلٹ سیکنڈری سکول کے نویں‘ دسویں اور گیارہویں کلاس کے طلبہ ہی نہ تھے بلکہ دیگر دو سکولوں سے بھی انہی کلاسوں کے طلبہ کو ادھر بلایا گیا تھا۔ کمشنر نے تقریباً اڑھائی سو طلبہ سے مختلف معاشرتی مسائل پر گفتگو کی اور انہیں بہتر پاکستان بنانے کیلئے عوامی شرکت کی اہمیت سے آگاہی دینے کے علاوہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی۔ طلبہ سے سوال و جواب کے دور میں کمشنر نے طلبہ سے صفائی‘ ٹریفک اور تجاوزات کے بارے میں ان کے موجودہ رویے اور مستقبل میں اسے بہتر کرنے کا وعدہ بھی لیا۔ یہ شاید اس سلسلے میں پہلی کڑی اور بارش کا پہلا قطرہ ہے تاہم یہ صرف انفرادی کوشش ہے جبکہ حالات کی خرابی کے پیش نظر آگاہی اور تربیت پر مشتمل یہ مہم قطعاً ناکافی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے ادارہ جاتی طور پر اپنایا جائے اور طلبہ کو شہری ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی کے ساتھ ساتھ انہیں عملی طور پر معاشرے میں اپنا کردار انجام دینے کے لیے بھی تیار کیا جائے۔
میں یہ کالم لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کسی روز کمشنر صاحب سے ملوں اور انہیں کہوں کہ وہ نئی نسل کی تربیت کے ساتھ ساتھ پرانی نسل سے تعلق رکھنے والے اپنے تمام ضلعی افسران کی بھی تربیت کریں کہ وہ خود معاشرے کیلئے رول ماڈل بن کر دکھائیں۔ مجھے یاد ہے انہی کے دفتر کا مکین ایک کمشنر اپنے دفتر سے نکلتے ہوئے روزانہ ٹریفک بند کروا کر اپنے افسرانہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی بذریعہ ٹریفک پولیس کرتا تھا۔ یہ رویہ بھی منفی ردعمل کو جنم دیتا ہے اور منفی ردعمل عوام کو اقدار‘ قانون اور روایات سے بغاوت پر اکساتا ہے۔