مہذب معاشروں سے تقابلی جائزے کی تو بات ہی نہ کریں۔ اگر صرف اپنے ماضی سے ہی موازنہ کرلیں تو حالات کی خرابی پر رونے سے بڑھ کر کچھ کرنے کو دل کرتا ہے۔ میں بنیادی طور پر رجائی شخص ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ معاملے کے روشن رُخ پر نظر رکھوں۔ خرابی کے ٹھیک ہو جانے کی امید رکھوں اور حالات کے بہتر ہو جانے کا یقین دل میں بسائے رکھوں‘ مگر ایمانداری کی بات ہے کہ معاملات اب اس امید‘ انتظار اور گمان کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔اب امریکہ سے واپس آکر یہ کہنا کہ حالات درست ہونے کے بجائے مزید خراب کی طرف رواں ہیں‘ مناسب نہیں لگتا کہ روزانہ کی بنیاد پر خرابی کی سمت رواں اس معاشرے میں ایسا تقابل کرنا بھی ایک باقاعدہ جرم ہے کہ ایسا کرنے پر بے شمار ناصح آپ کی طبیعت صاف کرنے پر اُتر آتے ہیں۔ کسی کے نزدیک آپ احساسِ کمتری کا شکار ہیں‘ کوئی آپ کو کافروں سے متاثر قرار دے کر آپ کے ایمان کی دھجیاں اڑانے لگ جائے گا‘ کوئی آپ کو باہر مقیم بچوں کے طعنے مارنے لگ جائے گا‘ کسی کے نزدیک آپ حب الوطنی سے عاری قرار پائیں گے‘ کوئی خوش فہم آپ کے تجزیے کے پرخچے اڑاتے ہوئے مغرب کی اخلاقی بربادی اور اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ترانہ گائے گا‘ کوئی مہربان آپ کی غیر ملکی یا ترا کا حساب مانگے گا‘ کوئی ناراض ہو کر آپ کو یہ مشورہ دے گا کہ اگر یہ ملک اتنا ہی خراب ہے تو آپ بھلا واپس ہی کیوں آئے ہیں اور کوئی آپ کو صرف یہ طعنے مارے گا کہ باہر سے آنے کے بعد آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے‘ آپ کو یورپ کا ذہنی غلام قرار دے گا اور بس۔
ان تمام متوقع طعنوں‘ مشوروں اور کچوکوں سے بچنے کیلئے مناسب ہے کہ موازنہ صرف اپنے ہی ماضی سے کرکے اپنی موجودہ حالتِ زار کا اندازہ لگایا جائے۔ مسائل بہت ہیں اور کالم کا دامن اس کے مقابلے میں نہایت ہی تنگ اور ناکافی ہے کہ بندہ کس کس بات کا موازنہ کرے اور کس کس چیز کے تحت الثریٰ میں گرنے کا ذکر کرے۔ اگر صرف ٹریفک کا معاملہ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات درست ہونے کے بجائے خرابی کی طرف گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ون وے کی خلاف ورزی اول تو کوئی کرتا ہی نہیں تھا اور اگر کرتا تھا کسی کے اشارہ کرنے یا متوجہ کرنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے سر جھکا کر یا دوسرے لفظوں میں ''نیویں پاکر‘‘ گزر جاتا تھا۔ درست سمت سے آنے والے ہاتھ ہلا کر یا زبانی احساس دلاتے تھے تو غلط سمت سے آنیوالا اگر بہت ڈھیٹ ہے تو سر جھکا کر یا منہ دوسری طرف پھیر کر گزر جاتا تھا اور اگر بہتر اخلاقی درجے پر فائز ہے تو آگے سے معذرت خواہانہ انداز میں کوئی مناسب اشارہ کرکے کہ میں جلدی میں ہوں یا کوئی اور بہانہ کرکے مزید کنارے کی طرف ہو جاتا تھا مگر اب صورتحال بالکل ہی مختلف ہو چکی ہے۔آپ کسی کو ون وے کی خلاف ورزی پر کوئی اشارہ کریں یا زبانی طور پر سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ جواباً آپ سے باقاعدہ بدتمیزی کرنا شروع کر دے گا۔ اگر اسے لگے کہ وہ آپ سے جوان‘ تگڑا اور صحتمند ہے تو گاڑی سے اُتر کر باقاعدہ لڑنے پر تیار ہو جائے گا۔ اگر گاڑی آپس میں ٹکرانے کا احتمال یا امکان پیدا ہو جائے تو آپ کو باقاعدہ ڈانٹتے ہوئے کہے گا کہ آپ دیکھ کر گاڑی نہیں چلا سکتے؟ اگر آپ یہ کہیں کہ آپ درست سمت سے آ رہے ہیں جبکہ وہ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آ رہا ہے تو آگے سے جواب ملے گا کہ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ جسے چاہیں ٹکر مار دیں۔ اب بھلا اس کٹ حجتی کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے؟
ملتان سے بہاولپور کی سڑک دو رویہ ہے۔ اب تو حالت نسبتاً کچھ بہتر ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے تک بہاولپور سے ملتان آنے والی سڑک کی حالت خاصی خراب تھی جبکہ ملتان سے بہاولپور جانے والی سڑک بہت اچھی تھی۔ میں ملتان سے بہاولپور جا رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ جانے والی اس سڑک پر سامنے سے ایک گاڑی آ رہی ہے۔ میں اس وقت ایک ٹرک کو کراس کر رہا تھا اور میرے دائیں طرف جگہ تنگ تھی۔ ظاہر ہے یکطرفہ ٹریفک والی اس سڑک پر میں سامنے سے کسی گاڑی کے آنے کی توقع نہیں کر رہا تھا مگر میری توقع سے کیا ہوتا ہے۔ سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر میں نے محض اس زعم میں کہ میں درست سمت پر ہوں اسے اَنا کا مسئلہ بناتے ہوئے کسی متوقع حادثے کا سبب بننے کی بجائے رفتار آہستہ کر لی اور ٹرک کے پیچھے ہو گیا تاکہ وہ گاڑی گزر جائے۔ خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ جب وہ گاڑی میرے پاس سے گزرنے لگی میں نے شیشے سے ہاتھ نکال کر صرف سوالیہ اشارے کے انداز میں ہاتھ ہلا دیا۔ میرا مطلب صرف اسے باور کرانا تھا کہ وہ غلط سمت سے آ رہا ہے۔ جونہی وہ گاڑی میرے قریب سے گزری میں نے دیکھا کہ اس کی فرنٹ سیٹ پر ایک باوردی پولیس والا بیٹھا ہوا ہے۔ مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ جو لوگ ہمیں اس کام سے روکنے پر مامور ہیں وہ خود یہی کر رہے ہیں۔ تاہم یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ میں ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک گاڑی نے مجھے نہایت تیز رفتاری سے کراس کیا اور ساتھ ہی اس گاڑی سے کسی نے ہاتھ باہر نکال کر مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی سے اشارہ کرنے کیلئے باہر نکلا ہوا بازو باوردی تھا۔ میں سمجھ گیا کہ سرکار کو میرا اشارہ ناگوار گزرا ہے۔اور وہ سب کام چھوڑ کر میری جواب طلبی کیلئے واپس آئے ہیں۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرکے روکی اور گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ دوسری گاڑی چند گز آگے رک گئی۔ اس سے ایک سب انسپکٹر صاحب نہایت کروفر سے نکلے اور میرے قریب آ کر پوچھنے لگے کہ اشارہ آپ نے کیا تھا۔ میں نے اس کے سینے پر لگی ہوئی نام کی پلیٹ پر اس کا نام پڑھ کر اسے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں! اشارہ میں نے کیا تھا۔ وہ کہنے لگا :اشارہ کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ اگر ہم لوگ غلط گزریں تو آپ ہمیں باقاعدہ روک لیتے ہیں۔ ہم نے تو اس کا کبھی برا نہیں منایا۔ میں نے تو صرف آپ کی غلطی کی نشاندہی کیلئے اشارہ کیا ہے۔ بجائے شرمندہ ہونے کے وہ مزید تپ گیا اور کہنے لگا :آپ میرے ساتھ تھانہ بستی ملوک تک چلیں۔ میں نے کہا مجھے تھانے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں ڈی پی او بہاولپور کو فون کرکے صرف یہ بتا دوں کہ میں ان سے وقت مقررہ پر ملاقات نہیں کر سکوں گا اور مجھے تھوڑی تاخیر ہو جائے گی۔ اب اس کا اعتماد تھوڑا متزلزل ہو گیا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کو ڈی پی او سے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کوئی کام نہیں‘ وہ میرے دوست ہیں اور میں صرف ان سے ملنے کیلئے جا رہا ہوں۔ یہ سن کر وہ باقاعدہ پریشان ہوگیا مگر اس کی افسرانہ اَنا اب اسے کوئی باعزت پسپائی کا راستہ نہیں دے رہی تھی۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر میں نے اسے باعزت واپسی کا راستہ دیتے ہوئے کہا تو اب میں آپ کے تھانے چلوں یا مجھے بہاولپور جانے کی اجازت ہے؟ وہ کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا: سر! آپ تو ہمارے صاحب کے مہمان ہیں‘ میری مجال ہے آپ کو تھانے لے جاؤں۔ میں نے اسے کہاشکر ہے کہ میں آپ کے صاحب کا مہمان ہوں وگرنہ تھانہ بستی ملوک میں آپ کا براہِ راست مہمان ہوتا۔ وہ بے شرموں کی طرح دانت نکال کر ہنسنے لگ گیا۔ پھر نہایت لجاجت سے کہنے لگا: سر جی! میں ان شاء اللہ آئندہ ون وے کی خلاف ورزی نہیں کروں گا مگر آپ صاحب سے میری شکایت نہ لگایئے گا۔ میں ہنس پڑا۔
ابھی میں تھانیدار اور تھانہ بستی ملوک سے بچ کر نکلا ہی تھا کہ ون وے کے خلاف سامنے سے ایک گہرے سبز رنگ کی جیپ آتے دیکھی‘ نمبر پلیٹ والی جگہ پر نمبروں کے ساتھ ایک مکا بھی بنا ہوا تھا۔ میں نے اسے اشارہ کرنے کے بجائے آنکھ بچا کر نکلنے میں خیریت جانی کہ اس محکمے میں میرا کوئی جاننے والا افسر نہیں تھا۔ تاہم مجھے ایک بات سمجھ میں آ گئی کہ آخر کسی ملک میں گورنمنٹ کی رٹ کیسے رخصت ہوتی ہے۔