"KMK" (space) message & send to 7575

خارجی اب داخلی ہوتے جا رہے ہیں

میں سال میں کتنے مشاعرے اور کہاں کہاں پڑھتا ہوں‘ اس کا بہرحال اس کالم سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کالم کے قارئین اور مشاعرے کے سامعین دو بالکل مختلف مخاطبین ہیں۔ ممکن ہے ان میں کچھ مشترک بھی ہوں مگر ان تھوڑے سے مشترک مخاطبین کو بنیاد بنا کر کالم کو مشاعرے کے سامعین پراور مشاعرے کو کالم کے قارئین پر نہیں تھوپنا چاہیے۔ میں اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھتا ہوں اور میں نے دونوں اصناف کو اور دونوں کے مخاطبین کو ایک دوسرے سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مشاعرہ بطور مشاعرہ کبھی میرے کالم کا حصہ نہیں رہا۔ ہاں البتہ اگر مشاعرے کے کسی پہلو سے کالم نکل آئے تو اور بات ہے کہ آخر باقی کالم بھی تو روز مرہ کی زندگی سے ہی کشید ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک چینل کے مشاعرے کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا تو وہاں ہوٹل میں افطاری کے بعد دیگر شعرا سے گپ شپ شروع ہو گئی۔ ایک شاعر دوست ڈیرہ اسماعیل خاں سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران ان سے ڈیرہ کے حالات پوچھے تو جوں جوں وہ بولتے گئے توں توں دل بیٹھتا گیا۔ ان کی گفتگو کے دوران مجھے آج سے تیس‘ پینتیس سال پہلے کا ڈیرہ اسماعیل خان یاد آ گیا۔ کیا شاندار اور پُرامن شہر تھا۔ میں تب شمال مغربی سرحدی صوبہ‘ المعروف صوبہ سرحد (حالیہ صوبہ خیبر پختونخوا) میں بہت زیادہ جایا کرتا تھا اور اس کی وجہ میری نوکری تھی۔ میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس کا خیبر پختونخوا میں اچھا خاصا کاروبار تھا اور اس سلسلے میں مَیں سوات‘ پشاور‘ چارسدہ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان تواتر سے آتا جاتا تھا۔ تب میرا ذاتی خیال ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ سرحد میں ہونے کے باوجود اس صوبے کے عمومی مزاج سے بہت ہٹ کر تھا۔ پشتون اکثریت کے صوبے کا ایک بڑا ڈویژن اور خاص طور پر اس ڈویژن کے صدر مقام کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی لسانی شناخت اپنے صوبے کے دیگر علاقوں سے بالکل مختلف تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پشتو بولی اور سمجھی تو جاتی تھی مگر اس شہر کی اکثریت سرائیکی بولتی تھی‘ بلکہ تھی کا کیا مطلب‘ اب بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت سرائیکی بولتی ہے اور اس سرائیکی میں ہلکی سی میانوالی والی کرختگی کا احساس بھی ہوتا ہے مگر لہجے کا یہ معمولی سا فرق ہر کسی کونہ تو محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسی خاص بات ہے جس پر زیادہ توجہ دی جائے۔ ہر زبان کا لہجہ فاصلے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ملتان کی سرائیکی اور بہاولپور کی سرائیکی کے لہجے میں فرق ہے اور ڈیرہ غازی خان کی سرائیکی کا لہجہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ چھ سات عشرے پہلے جب سرائیکی کا لفظ وسیب کے مختلف لہجوں کو اکٹھا کرکے زبان کی مشترکہ اور واحد شناخت کیلئے استعمال نہیں ہوتا تھا‘ تب یہ زبان اپنے لہجوں کے حوالے سے کم از کم تین مختلف ناموں سے پہچانی جاتی تھی۔ یہ لہجے ملتانی (ملتان کے علاقے میں بولی جانے والی سرائیکی)‘ ریاستی (تب بہاولپور کی ریاست کی سابقہ حیثیت کے حوالے سے بہاولپور کے علاقے کی سرائیکی ریاستی کہلاتی تھی) اور ڈیروی (ڈیرہ غازی خان کی سرائیکی) کے نام سے پکارے جاتے تھے۔
قارئین معاف کیجیے میں کہیں اور چلا گیا۔ بات ڈیرہ اسماعیل خان کی ہو رہی تھی۔ شہر میں سائیکل رکشے چلا کرتے تھے اور لوگ سرائیکی زبان بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ ہم ڈیرہ اسماعیل خان میں نہیں بلکہ شاید بہاولپور میں ہیں۔ اس شہر کے لوگ عمومی سرائیکی مزاج کے عین مطابق پُرامن‘ نرم خو اور محبت کرنے والے تھے۔ خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں کے برعکس اس شہر میں سوائے نسوار کی دکانوں کی کثرت کے اور کوئی قدرِ مشترک کم از کم مجھے تو دکھائی نہیں دیتی تھی۔ لڑائی جھگڑا‘ قبائلی تنازعات‘ زبان کی عصبیت اور نسل در نسل دشمنی جیسی پشتون روایات اس شہر میں کم کم تھیں۔ غرض یہ پشتون صوبے میں سرائیکی تہذیب اور روایات کا امین ایسا شہر تھا جہاں بدامنی نام کو نہیں تھی۔
اپنی پرانی یادوں کے حوالے سے جیسے ہی اپنے اس دوست شاعر سے شہر کا حال پوچھا‘ اسے سن کر ملال‘ صدمے اور پریشانی کی ایک کیفیت طاری ہو گئی کہ رات سوتے ہوئے بھی دل پریشان اور دماغ اُلجھا ہوا تھا۔ وہ دوست بتانے لگا کہ شہر سرِ شام بند ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر نامعلوم افراد کا جو دراصل نامعلوم نہیں ہیں‘ غیر اعلانیہ قبضہ ہو جاتا ہے۔ سارا دن شرفا کو روک کر ان کا شناختی کارڈ چیک کرنے اور ان کے سامان کی تلاشی لینے والی پولیس چیک پوسٹیں خالی کر دیتی ہے‘ یعنی جب ان پوسٹوں کی موجودگی کا جواز ثابت کرنے کا وقت آتا ہے اس پر تعینات نفری عوام کی حفاظت کے بجائے اپنی حفاظت کو مقدم جانتے ہوئے رفو چکر ہو جاتی ہے۔ یہ میدانی علاقہ ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان باقاعدہ اور پرانا شہر ہے۔ ایسے میں اگر یہ نامعلوم افراد شہر میں رہتے ہیں تو ان کا سب کو علم ہونا چاہیے اور اگر یہ باہر سے آتے ہیں تو ان کی نشاندہی اور روک تھام ہونی چاہیے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شہر میں باہر سے لوگ آ جائیں جبکہ آنے جانے کے راستے نہ تو خفیہ ہیں اور نہ ہی قدرتی طور پر ایسی جغرافیائی صورت کہ کوئی بھی چھپ کر آسانی سے آ جائے۔
اور یہ معاملہ صرف ڈیرہ اسماعیل خان تک ہی ہے۔ اس کے بعد دریائے سندھ کا پل آ جاتا ہے اور محض دو میل بعد پنجاب شروع ہو جاتا ہے۔ پل پار کرتے ہی ایک طرف دریا خان کا شہر آ جاتا ہے اور دوسری طرف بھکر ہے۔ ان دونوں شہروں میں مکمل امن ہے۔ رات کو لوگ مزے سے چلتے پھرتے ہیں۔ بازاروں میں رونق ہے۔ مکمل چہل پہل ہے۔ کسی کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی خطرہ لاحق ہے۔ لوگ بڑے اطمینان اور یقین کے ساتھ کارہائے زندگی میں مصروف ہیں۔ صرف دو میل دور ایک شہر یرغمال بنا ہوا ہے۔ ہم اسی مملکت کا حصہ ہیں اور شام ڈھلے وحشت و دہشت کے شکار ہو کر گھروں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔یہ معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا ہے اور اس کو کس کی سرپرستی حاصل ہے؟ یہ لوگ ہر روز رات کو آسمان سے تو نہیں ٹپک پڑتے۔ ان کی مانیٹرنگ کس نے کرنی ہے؟ ان پر قابو کس نے پانا ہے اور ان کا سدباب کس نے کرنا ہے؟ فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ شام ڈھلے یہ لوگ ڈیرہ اسماعیل خان کی سڑکوں‘ گلیوں اور محلوں میں آ جاتے ہیں۔ پولیس اپنے تھانوں میں مورچہ بند ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور ہم سرشام اپنے گھروں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے خیبر پختونخوا کے بعض دیگر شہروں کا حال اس سے بھی برا ہے۔
میں سوچنے لگا کہ معاملہ صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حد تک ہی خراب نہیں بلکہ ملتان کے متصل ڈویژن ڈیرہ غازی خان میں کوہِ سلیمان کو پارکرکے شہر کے در و دیوار پر دستک دے رہا ہے۔ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی پولیس یا لیوی چیک پوسٹ پر حملہ ہوتا ہے۔ یہ حملے آج ناکام ہورہے ہیں مگر کب تک؟ ایک طرف یہ عالم ہے کہ وزیر داخلہ گزشتہ کئی دنوں سے منصہ شہود سے غائب ہیں اور دوسری طرف شہروں میں داخل ہو کر خارجی باقاعدہ 'داخلی‘ بنتے جا رہے ہیں اور حکمران جاگ تو رہے ہیں مگر ان کی توجہ دیگر ضروری کاموں کی طرف ہے۔ عوام کی حفاظت بہر حال ان کی پہلی ترجیح نہیں۔ ایسے میں المیہ یہ ہے کہ پڑھنے کے لیے سچ بھی میسر نہیں ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں