جہاں جہاں بھی یہ کالم پڑھا جا رہا ہے‘ میری طرف سے عیدالفطر 1446ھ کی مبارک قبول کیجیے۔ عید کا دن ہے اور آپ اور ہم‘ سب عید منا رہے ہیں۔ پورے مہینے کی محنت کے بعد اس کا انعام مل رہا ہے۔ وہ جو خالق کی ہدایت کے مطابق کھانے پینے اور جائز چیزوں سے اجتناب کیا تھا‘ اس کا اصل اجر تو بعد میں ملے گا لیکن فوری صلہ یہ عید کے دن ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں جب سوچتا ہوں کہ ایک دن پہلے یعنی رمضان کے آخری روزے میں دن کے وقت کھانا پینا ممنوع تھا۔ مخصوص حالات کے سوا کوئی خلاف ورزی کرے گا تو گناہگار ہوگا۔ اور اگلے دن اگر کوئی روزہ رکھے گا تو خلاف ورزی کا مجرم ہو گا۔ کھانے پینے کی وہی ممانعت جو ایک دن پہلے تھی‘ ایک دن بعد بالکل برعکس ہو جاتی ہے۔ اس دن اگر کوئی روزہ رکھے تو نہ صرف یہ کہ کوئی ثواب نہیں بلکہ الٹا گناہ لازم آئے گا۔ ہمارے بچپن میں کہا جاتا تھا کہ عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ نہ کھانے پینے میں کچھ رکھا ہے‘ نہ کھانے پینے سے پرہیز میں۔ اصل چیز اطاعت ہے۔ جب کہہ دیا گیا کہ مت کھائو‘ پیو تو یہی کرنا ہے۔ جب کہا گیا کہ روزہ مت رکھو تو اب یہی کرنا ہے‘ یہی اطاعت ہے۔ حکم کے تابع ہو جانا ہی اسلام ہے۔ حکم کے آگے جھک جانا ہی اسلام ہے۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے مشہور واقعے کو اسی طرح بیان کیا گیا کہ اسلام کا مطلب ٹھیک ٹھیک سمجھ میں آ جاتا ہے۔ کہا گیا کہ ''فلما اسلما‘‘۔ پھر جب دونوں حکم کے آگے جھک گئے یا یوں کہیے کہ پھر جب دونوں اسلام لے آئے۔ آپ دین کی ساری باتوں کا خلاصہ دیکھیں گے تو یہی ہے کہ حکم کے آگے جھک جائو۔ حکم کی مصلحتیں اپنی جگہ‘ اس کے فائدے اپنی جگہ لیکن مصلحتیں مت تلاش کرو‘ فائدے مت ڈھونڈو۔ پہلا کام یہ ہے کہ حکم بجا لائو۔ بعد میں مصلحتیں آشکار ہوتی رہیں گی‘ فائدے ملتے رہیں گے‘ لیکن تمہیں حکم بجا لانا ہے۔ ڈسپلن کے عادی ایک فوجی کی طرح‘ جو یہ نہیں پوچھتا کہ اس وقت اس حکم میں کیا مصلحت ہے‘ میرا کیا فائدہ ہے؟ آپ ایسے فوجی اہلکار کا تصور کریں جو حکم ملنے پر یہ پوچھنے لگے کہ پہلے مجھے اس حکم کا مقصد بتایا جائے‘ فوائد گنوائے جائیں۔ تصور کریں کہ اس پوچھنے والے کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ ادھر ہم ہیں کہ ایک پورے نظم وضبط میں داخل ہونے‘ اس کے قائل ہونے کے باوجود ہر قدم رک کر مصلحتوں اور فائدوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔
عیدالفطر ایک حکم‘ ایک خوشی‘ ایک انعام‘ ایک صلہ‘ ایک اجر۔ اسے کتنے نام دیے جائیں۔ ذرا دیکھیے تو اس ایک عید کے کتنے نام ہیں۔ عید الفطر‘ چھوٹی عید‘ میٹھی عید وغیرہ تو ہمارے ہاں وہ نام ہیں جن سے ہر بچہ بڑا اسے یاد کرتا ہے‘ لیکن دنیا کی مختلف زبانوں میں اسے کیسے یاد کیا جاتا ہے۔ عربی میں عید الفطر‘ فارسی میں عید شیریں‘ بنگالی میں روزار عید‘ چینی میں کائی زہائی جئی‘ ترکی میں رمضان بیرامی‘ شکر بیرامی‘ صومالی میں شئید یاری‘ ملیالم میں سیریا پیرونال‘ انڈونیشین میں ہری لیبرانا‘ قازق زبان میں اوروزا ایت‘ جرمن میں شگر فیسٹ‘ بلغاروی میں رمضان بیرا م‘ البانوی میں کبیر بجرامی وغیرہ وغیرہ۔ زبانیں گنتے جائیے‘ نام بڑھتے جائیں گے اور ہر نام کے ساتھ خوشی کا تصور منسلک ہے۔ دنیا بھرکی قوموں میں خوشیاں اور تہوار کھانے پینے سے جڑے ہوئے ہیں اور عید الفطر کے تو لفظی معنی بھی روزہ کھولنے اور روزہ ختم کر نے کی خوشی کے ہیں۔ عید پر بھی انواع واقسام کے کھانے اور مشروبات اپنی پوری دلکشی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
عید کے کھانوں کی کیا بات ہے۔ چاندی کے ورق میں لپٹی سویّاں ہندوستان پاکستان کی عام سوغات ہیں۔ ہمارے گھرانے میں سویّاں نہیں ''شیر خرما‘‘ بنتا ہے جس میں پستہ‘ چھوارے اور میوے شامل ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پر سال بھر میں صرف عید کے روز تیار ہوتا ہے۔ یہ مخصوص گھرانوں کی مخصوص روایت ہے۔ بزرگ خواتین کے مطابق اعلیٰ معیار کا شیر خرما بنانا بذاتِ خود ایک فن ہے۔ لیکن یہ تو ہمارا ہند وپاک کا علاقہ ہوا۔یہ جو شرق سے غرب تک مسلم ممالک ہیں‘ انہیں بھی تو ایک نظر دیکھیے۔ طرح طرح کے کھانوں سے عید کا خیر مقدم ہو رہا ہے۔ یہ برونائی ہے: ایک خاتون چاولوں کے پکوڑے تیار کر رہی ہیں جسے ''کیٹوپٹ‘‘ (ketupat) کہا جاتا ہے۔ یہ جکارتہ‘ انڈونیشیا ہے: ایک صاحب ''ڈوڈول‘‘ (dodol) نامی مٹھائی بنا رہے ہیں۔ یہ کوالالمپور‘ ملائیشیا ہے: دو تین عورتیں مل کر بانس میں تیار کی ہوئی چاولوں کی ڈش تیار کر رہی ہیں جسے ''لیمانگ‘‘ (lemang) کہا جاتا ہے۔ مشرق بعید کے ممالک میں گوشت کے سالن بھی بہت مرغوب ہیں۔ ایک بیکری پر ''کیو لیپس لیگٹ‘‘ (Kue Lapis Legit) یعنی ایک ہزار پرتوں والا کیک تیار کیا جا رہا ہے جس میں مکھن‘ آٹا اور مسالے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ برما ہے: گھروں میں بریانی تیار کی جا رہی ہے جس میں بادام اور دیگر مغزیات شامل ہیں۔ سوجی سے قسم قسم کی مٹھائیاں بنائی جا رہی ہیں۔ یہ ایران ہے: چیلو کباب کے بغیر کوئی ایرانی دستر خوان مکمل نہیں۔ دنبے کے گوشت کے کباب‘ چاول‘ ابلے ٹماٹر اور چٹنی کے ساتھ یہ ایک لذیذ کھانا ہے۔ اسی طرح زرشک پلائو بھی تہواروں کا حصہ اور ایرانیوں کی مرغوب غذا ہے۔ یہ افغانستان ہے: عید کا تہوار دسترخوان سجا دیتا ہے۔ بھنے ہوئے برّہ میں دم پخت چاول بھرے گئے ہیں۔ کشمش اور اخروٹ والا کابلی پلاؤ دم دیا جا رہا ہے۔
یہ کراچی ہے۔ کباب اور یخنی والا پلاؤ تیار کیے جا رہے ہیں۔ ''لبِ شیریں‘‘ کے لطیف نام کا میٹھا مہمانوں کو پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ لاہور ہے ''قتلمہ‘‘ بنانے والی دکانوں پر بھیڑ ہے۔ یہ دہلی ہے: حلیم نہاری اور شیرمال کھانے کی میزوں پر سجے ہیں۔ لذیذ میٹھے ''ربڑی‘‘ کے تھال سجے ہوئے ہیں۔ یہ ترکی ہے۔ بچے اپنے ہمسایوں اور دوستوں کے گھر ملنے جا رہے ہیں اور ان کی ''راحت الحلقوم‘‘ یعنی ٹرکش ڈیلائٹ اور ''بکلاوا‘‘ نامی تیز میٹھی ترک مٹھائی سے تواضع ہو رہی ہے۔ یہ عراق ہے: عید کا استقبال ''کلائچہ‘‘ بنا کر کیا جا رہا ہے۔ کلائچہ تہواروں پر تیار کی جانے والی عراق کی ایک خاص قسم کی خطائی ہے جس میں کھجور اور بادام اخروٹ وغیرہ بھرے جاتے ہیں اور جس میں گلاب کے پھول کی مہک ہوتی ہے۔ یہ تباہ حال شام ہے: عید یہاں بھی چہروں پر مسکراہٹ لے آتی ہے۔ ''قبہ‘‘ نامی مقبول عام ڈش بنائی جا رہی ہے جو حمس اور شامی سلاد کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ ''قبہ‘‘ گندم‘ قیمہ کی ہوئی پیاز‘ بچھڑے یا بکرے کے گوشت اور مسالوں کو یکجان کرکے کوفتوں کی شکل کا پکوان ہے۔ یہ سعودی عرب ہے: لوگ اپنے گھروں کے باہر قالین بچھا کر بیٹھے ہیں۔ ''المفطح‘‘ کی تیاری ہے جو گوشت‘ چاول‘ دار چینی‘ کالی مرچ‘ زعفران اور لہسن کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ ابلی ہوئی میکرونی کا اضافہ کرکے اسے ابلے ہوئے انڈے سے سجا کر پڑوسیوں کے یہاں بھیجا جا رہا ہے۔ یہ یمن ہے: ''الحنیذیہ‘‘ نامی پکوان بنا کر چاول اور لال مکئی کی روٹی سے کھایا جا رہا ہے۔ یہ مصر ہے: یہاں چار دن تک عیدالفطر منائی جاتی ہے۔ کھانے میں مرکزی ڈش نہایت لذیذ ''سمک مشوی‘‘ مچھلی کی ہے۔ مصری عورتیں''فتّہ‘‘ تیار کر رہی ہیں جو گوشت‘ پیاز اور سرکہ کو بہم ملا کر پکایا جانے والا سوپ ہے اور چاولوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ جگہ ''کاہک‘‘ جو مقامی انداز کا لذیذ بسکٹ ہے‘ تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ صومالیہ ہے: مقامی مٹھائی ''حالوو‘‘ کے طشت بھرے ہوئے ہیں۔ جو چینی‘ گھی‘ مکئی کے آٹے اور مسالوں سے بنائی گئی ہے۔ یہ امریکہ ہے: مہاجر قومیتوں کے ساتھ ساتھ حبشی نسل کے مسلمان بھی عید کی خوشی منا رہے ہیں۔ ''بیف سٹیک‘‘ ان کی خوشیوں کی ایک علامت ہے۔
عید الفطر آپ سے سامنے سجی ہوئی ہے۔ ناموں سے ذائقوں تک! مشرق سے مغرب تک! شمال سے جنوب تک! یہ انعام ہے اور آپ کے لیے ہے۔ آگے بڑھیے اور اپنا انعام وصول کیجیے۔