عمران خان کی پارٹی بڑی مشکل میں گرفتار ہے۔ ان کی مشکل سوشل میڈیا ہے جسے نہ وہ نگل سکتے ہیں اور نہ اُگل سکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے پی ٹی آئی کے کچھ لیڈر خود کو اس سوشل میڈیا سے دور کررہے ہیں جو عسکری قیادت پر تنقید کررہا ہے۔ پی ٹی آئی لیڈر شپ نے بیانیہ بنایا ہے کہ جو فوج پر تنقید کرتے ہیں یا فوجی قیادت کے بارے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلاتے ہیں ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اب عرصے بعد پی ٹی آئی کو احساس ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کی بہت سی دشمنیاں بن گئی ہیں جو خان کی رہائی میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں۔ اب پی ٹی آئی کیلئے وہ صورتحال بن چکی ہے کہ آگے فوج تو پیچھے سوشل میڈیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کسی ایک کو گلے لگانا ہوگا۔
مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کسی ایک کو گلے لگاتی ہے تو دوسرا اس کا دشمن بنتا ہے اور دونوں اپنے اپنے حساب سے طاقتور دشمن ہیں۔ جس سوشل میڈیا کی وجہ سے فوج دشمن بنی اس سے پی ٹی آئی اپنی لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے تو اس کا وہ ردعمل ہو گا جو شاید پی ٹی آئی نہیں سنبھال پائے گی۔ اگر خود کو سوشل میڈیا سے دور نہیں کرتی تو پھر عمران خان کی رہائی مشکل لگ رہی ہے۔ اب وہ کون سا راستہ اختیار کریں۔
موجودہ سوشل میڈیا پالیسی کے ساتھ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی رہائی یا سیاست میں واپسی مشکل لگ رہی ہے‘ اور عمران خان بھی اتنی جلدی قائل نہیں ہوں گے۔ چند دن پہلے جاوید چوہدری صاحب کے کالم میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ کیسے چند طاقتور امریکی پاکستانیوں نے پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کوششوں سے کچھ برف پگھلی تھی۔ بتایا گیا کہ پہلی دفعہ عسکری قیادت نے عمران خان کے ایشو پر کچھ لچک دکھائی۔ اس معاملے کو آگے بڑھانے سے پہلے کہا گیا کہ جو کچھ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کر رہی ہے اس سوچ کو بدلیں۔ جس طرح اداروں اور ان کے سربراہوں پر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی یوٹیوبر اور انفلوئنسرز تنقید کر رہے تھے اس سے دونوں اطراف کے درمیان کوئی معنی خیز تبدیلی ہونا مشکل تھا۔ اس بات پر امریکی پاکستانی بھی راضی تھے کہ سو شل میڈیا کی وجہ سے ہی سب مسائل پیدا ہوئے ہیں اور معاملات اس حد تک گئے ہیں۔ لیکن اب عمران خان کو یہ بات کون سمجھا سکتا ہے۔ وہ ان معاملات میں نہ کسی کا مشورہ مانتے ہیں اور نہ ہی کوئی ذہن بدلتے ہیں۔ اگر وہ کسی کی بات مان سکتے ہیں تو وہ بشریٰ صاحبہ ہیں‘ لیکن بشریٰ صاحبہ بارے تو بتایا گیا ہے کہ وہ عمران خان سے بھی زیادہ غصے میں ہیں اور ان کا غصہ پچھلے سال سب نے دیکھ لیا تھا جب وہ ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف آئیں اور کہا تھا کہ وہ عمران خان کو چھڑوا کر ہی جائیں گی چاہے اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔ پھر گولیاں چلیں‘ لوگ مارے گئے اور بشریٰ صاحبہ اور علی امین گنڈاپور ورکرز کو گولیوں کے درمیان چھوڑ کر نکل گئے۔ بعد میں بشریٰ صاحبہ نے پارٹی کے بڑوں کو ایک اجلاس میں گالیاں بھی دی تھیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے تو استعفیٰ دے دیا تھا کہ اگر پارٹی میں یہ رویہ ہے تو میں کام نہیں کروں گا۔ باقی لیڈر جنہیں بُرا بھلا کہا گیا کہ وہ بزدل نکلے اور بھاگ گئے‘ انہوں نے بھی غصے کا اظہار کیا تھا کہ وہ عمران خان کی باتیں یا شٹ اَپ کالز برداشت کر سکتے ہیں لیکن ان کی گھریلو خواتین کے اس رویہ کو برداشت نہیں کریں گے۔ ان کا اشارہ بشریٰ صاحبہ اور علیمہ خان کی طرف تھا کیونکہ دونوں خواتین پارٹی قیادت پر شدید تنقید کرتی رہی ہیں۔
ان پاکستانی امریکیوں کی ملاقاتوں کے بعد پی ٹی آئی نے کچھ دن تو اپنے حامی یوٹیوبرز سے دوری کا اعلان کیا کہ ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ پہلا قدم تھا تاکہ تعلقات بہتر کیے جائیں۔ پی ٹی آئی لیڈروں نے کہنا شروع کر دیا کہ باہر بیٹھے یوٹیوبرز جو کچھ کہتے ہیں اس سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ان یوٹیوبرز کا ردعمل آنا تھا کہ سارا الزام ان پر دھرا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب واقعی ذہنی طور پر اپنی سوشل میڈیا کی طاقت کو کم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ میرا اپنا خیال ہے کہ عمران خان سوشل میڈیا کو ایک بہت بڑی طاقت سمجھتے ہیں اور اسے مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ اگر آپ خان صاحب کا پیٹرن سمجھیں تو انہوں نے ہر اس بندے‘ ادارے یا مخالف کے خلاف سوشل میڈیا کو استعمال کیا جو اُن کے ایجنڈے پر نہیں چلا یا نہیں چلنا چاہتا تھا۔ آپ دیکھ لیں جج ہو‘ سرکاری افسر ہو‘ صحافی‘ مخالف سیاستدان یا عسکری قیادت انہوں نے کھل کر اس فورم کو استعمال کیا اور وہ کامیاب رہے۔ میں ایسے اینکرز اور صحافیوں کو جانتا ہوں جو خان صاحب کی باتوں یا پالیسی سے نجی محفلوں میں اختلاف کرتے ہیں لیکن وہ ٹی وی شوز اور اپنے یوٹیوب چینلز پر خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔ میں نے دو تین سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جس خان کو آپ نجی محفل میں برا بھلا کہتے ہیں اسے چینل اور وی لاگز میں مہان بنا کر پیش کرتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا‘ بھائی ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ ہم اس ملک اور قوم کو سیدھی اور سچی بات بتائیں اور جواب میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے گالیاں کھائیں کیونکہ ان کے ہاں خان کے خلاف بات سننے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ خوش ہیں تو خان سے خوش رہیں۔ ہمارا کیا جاتا ہے کہ ہم عمران خان کو چُک کر رکھیں کہ واہ واہ خان صاحب آپ چھا گئے ہیں آپ نے کمال کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان باتوں سے خان خود اور ان کی حامی اور پارٹی خوش ہوتی ہے۔ ہمارے ٹوئٹس کو ری ٹوئٹس کرتے ہیں‘ ہمارے وی لاگز کو پروموٹ کرتے ہیں اور ہم ڈالرز کماتے ہیں۔ ایک تو ہنس رہا تھا کہ اب یہی دیکھو فلاں یوٹیوبر کا کہنا ہے کہ خان جیل میں لمبی گیم ڈال کے بیٹھا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ اب تم خود بتاؤ کپتان خود دو سال سے جیل میں ہے‘ بیوی جیل میں ہے‘ بھانجا جیل میں ہے‘ ٹاپ لیڈرشپ جیل میں ہے‘ ورکرز جیل میں ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا لیکن ہم کہتے ہیں خان لمبی گیم ڈال کے بیٹھا ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان میں ہنگامے‘ جلسے جلوس کرنے کے بعد کچھ نتیجہ نہیں نکلا تو امریکہ سے تین پاکستانی یہاں اسلام آباد میں خان کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلنا کیونکہ خان سوشل میڈیا کا ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔ میں حیران ہو کر سنتا رہا اور کہا: یہ سب باتیں تم اپنے وی لاگ میں کیوں نہیں کہتے؟ اس نے مجھے حیرانی سے کہا: میں تمہیں پاگل لگتا ہوں۔ وہی سودا بیچو جس کے خریدار موجود ہیں۔ میں دس بارہ منٹ کی وڈیو میں عمران خان کو مہان اور عظیم لیڈر ثابت کرکے تین چار سو ڈالرز ایک وڈیو کے کما لیتا ہوں۔ پی ٹی آئی سے بلے بلے واہ واہ الگ‘ ویوز ڈھیرے سارے۔ تو میں نے کہا: اس طرح خان تو جیل میں ہی رہے گا؟ وہ بولا: بیٹھا رہے ہماری بلا سے لمبی گیم ڈال کے۔ ہم ڈالر کما رہے ہیں۔ ہم سچ بولیں تو گالیاں کھائیں‘ تم ہو ناں یہ باتیں کرنے اور گالیاں کھانے کو۔ ہم تو وہی سودا بیچیں گے جو پی ٹی آئی کے کارکن اور حامی خریدنا چاہتے ہیں کہ ڈٹ کے کھڑا ہے ہمارا کپتان۔