"SUC" (space) message & send to 7575

رمضان بیچنے والے اور رمضان کمانے والے

ایک طبقہ تو وہ ہے جن کے لیے رمضان حصولِ ثواب کا ایک بہت اہم مہینہ ہے۔ وہ اس مہینے بے شمار دنیاوی کاموں سے منہ موڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ ملازمتیں‘ کاروبار‘ دنیاوی دھندے اگرچہ زندگی کا حصہ رہتے ہیں لیکن اس زندگی کا رُخ اپنے محور پر رمضان کے گرد چکر لگانے لگتا ہے۔ یہ تیس دن اپنے روز وشب کے ساتھ اس پورے طبقے کے لیے‘ جو پورے ملک میں غالب اکثریت کا طبقہ ہے‘ ایک الگ ہی نظام لے کر آتے ہیں۔ لیکن اسی ملک میں ایک طبقہ ان سے الگ بھی ہے۔ یہ رمضان بیچنے والے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ہر سال رمضان میں اپنا اپنا سودا بیچنے والوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا سودا سب سے مختلف‘ سب سے چونکا دینے والا اور سب سے مشہور ہو۔ ان کے نزدیک رمضان صرف دنیاوی فائدوں کے حصول تک محدود ہے۔ان میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو سال کا بیشتر حصہ اخلاقی برائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں مگر رمضان آتے ہی نیکی کی ترغیب دینے لگ جاتے ہیں۔کبھی سننے میں آتا ہے کہ آج اپنے شعبے کا فلاں مشہورشخص اسلام میں اخلاقی نظام پر درس دے گا‘ اورکبھی یہ کہ آج فلاں شخص روزے کے جسمانی اور روحانی فوائد پر روشنی ڈالے گا۔ ایک وڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک نامور ٹک ٹاکر مسجد کے منبر کے قریب مائیک تھامے کھڑی ہے اور سامنے نمازی صف بہ صف اس کا بیان سن رہے ہیں۔ لیکن اس طبقے کو چھوڑ کر‘ جن لوگوں کے لیے رمضان نہ بہروپ بدلنے کا نام ہے‘ نہ پیسہ کمانے کا نام ہے‘ وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ چند سال پہلے میں افطار سے قبل شدید ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ اپنے حساب سے میں ٹھیک وقت پر دفتر سے نکلا تھا کہ افطار سے قبل گھر پہنچ جاؤں گا لیکن فیروزپور روڈ سے جیل روڈ کی طرف مڑنے والی سڑک کے قریب اس قدر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں کہ ٹریفک کے رینگنے کا لفظ بھی اس کے لیے کچھ مبالغہ آمیز محسوس ہوتا تھا۔ جو گاڑی جس رخ پر جس جگہ پھنسی ہوئی تھی وہاں سے ہلنے جلنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ شدید گرمی‘ لمبا روزہ اور سارے دن کی تھکن اس پر مستزاد۔ اس ہجوم میں آہستہ آہستہ افطار کا وقت اور یہ یقین قریب آتا گیا کہ افطار اب یہیں اور اسی سڑک پر ہوگا۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے افطار کیا جا سکے حتیٰ کہ پانی بھی نہیں۔ گاڑی سے باہر نکلنے یا چھوڑ کر کسی دکان تک جانے کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ ایسے میں ایک فرشتہ صفت نوجوان کہیں سے نمودار ہوا جس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تھیں۔ وہ گاڑیوں میں یہ بوتلیں تقسیم کر رہا تھا۔ ایک یخ بوتل میرے حصے میں آئی۔ مت پوچھئے کہ کیسی نعمت تھی اور کیسی اور کتنی دعائیں اس نوجوان کے لیے دل سے نکلیں۔ ایسے کتنے ہی لوگوں کا روزہ اس نے بروقت افطار کرایا‘ ان کی پیاس بجھائی۔ اس کو جو اجر ملا ہو گا وہ اللہ کو علم ہے اور یقینا اسی اجر میں اس کے دل کی وہ خوشی بھی شامل ہو گی جو اس عمل کے نتیجے میں اسے ملی ہو گی۔
اسی طرح اب افطار کرانے والوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ مسجدوں‘ بازاروں‘ دکانوں‘ محلوں اور سڑکوں پر افطار کے دستر خوانوں میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں یہ افطار دسترخوان دیکھے جا سکتے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ بہت فراخدلی اور خوشدلی کے ساتھ لوگ ان میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ رمضان بیچنے والے نہیں رمضان کمانے والے ہیں۔
صرف پاکستان میں نہیں‘ دنیا بھر میں مسلمان بہت خوشی اور محبت کے ساتھ رمضان کا استقبال کرتے ہیں۔ عرب ممالک ہوں‘ ترکیہ ہو‘ برصغیر پاک وہند ہو یا مشرق بعید کے ممالک۔ فجی سے لے کر آباد دنیا کے آخری سرے تک مسلمان غیر معمولی انداز میں اس مہینے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ استنبول میں استقبالِ رمضان کی ایک بہت منفرد اور دلچسپ روایت ہے۔ پانچ مرکزی سلطان مسجدوں کے دو میناروں کے درمیان رات کو بلندی پر روشنی سے استقبالِ رمضان کے مختلف کلمات لکھے جاتے ہیں: مثلا ً ''اے بارہ مہینوں کے سلطان خوش آمدید‘‘ یا ''چاہو اور چاہے جاؤ‘‘۔ اس روایت کو ترکیہ میں ''ماہیا‘‘ (mahya) کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ''آسمان پر لکھی تحر یر‘‘۔ بجلی کی ایجاد سے پہلے یہ تحریر لالٹینوں سے لکھی جاتی تھی۔ آپ خود تصور کر سکتے ہیں کہ لالٹینوں سے گول دائروں والے حروف بنانا کتنا مشکل ہوتا ہو گا۔ افطار کے وقت ترکیہ‘ عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین میں لمبے لمبے دسترخوان بچھ جاتے ہیں اور مکمل اجنبیوں کو جس لجاجت اور تواضع کے ساتھ اپنے اپنے سجے ہوئے دستر خوان پر دعوت دی جاتی ہے وہ منظر بہت لوگوں نے دیکھا ہے۔ رمضان میں عمرے پر جانے والوں کا بھی غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے۔ اسی ہفتے میں مکہ مکرمہ میں حرم کعبہ کے بارے میں خبر ہے کہ ایک دن میں پانچ لاکھ افراد نے وہاں عبادتوں کا شرف حاصل کیا۔ ہر سال یہ تعداد پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔
رمضان اپنے آخری عشرے میں داخل ہو گیا ہے۔ کل کو یہ مہمان چلا جائے گا اور اگلے سال جب آئے گا تو ممکن ہے کہ ہم خاک اوڑھ کر سو رہے ہوں۔ نجانے پچھلے سال کے کتنے ہی عزیز رشتے دار اس رمضان کو نہ دیکھ سکے اور ہم میں سے کتنے ہی ایسے ہوں گے جنہیں اگلے سال یہ مہینہ نصیب نہ ہو سکے گا۔ ہم سب اپنے پیاروں کو مٹی دے کر پھٹتے دلوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ قبرستان سے باہر آتے ہیں اور باہر آتے ہی گھر داری اور دنیا داری کے دو لمبے ہاتھ ہمیں کھینچ کر اسی دنیا سے لپٹا دیتے ہیں۔ اب جبکہ اس ماہ کے صرف چند ایام باقی رہ گئے ہیں‘ کیا ہم اپنے روز مرہ معاملات پر ایک نظر ڈال کر یہ چند دن نئے معمول کے ساتھ نہیں گزار سکتے۔ اگر ہم اس ماہ میں انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی استطاعت اور گنجائش کے مطابق کچھ چیزیں اپنے معمول میں شامل کر لیں تو یقینا یہ اجر اور یہ خوشی ہمارے حصے میں بھی آ سکتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم اپنی ہمت سے بڑھ کر یہ کام کریں لیکن کھجور بھر نیکی بھی کوئی کم نہیں ہوتی۔
ہم اپنے ماتحتوں سے اس ماہ کام کا بوجھ کم کردیں۔ اپنی گاڑی موٹر سائیکل یا بیگ میں گنجائش کے مطابق کھجوریں اور پانی رکھ لیں‘ شاید دفتر‘ دکان‘ بازار یا سڑک پر کسی روزہ دار کے کام آ سکیں۔ کسی نادار اور کم استطاعت والے رشتے دار پڑوسی یا جاننے والے کو دس پندرہ دن کا راشن لے دیں۔ ماشاء اللہ بہت سے فیاض اور دل والے یہ کام بڑے پیمانے پر کرتے ہیں‘لیکن جس کے لیے جو ممکن ہے اتنا کرلے۔ پانی کا ایک سیراب کر دینے والا گھونٹ بھی پیاسے کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین بعض اوقات بہت کسمپرسی کے عالم میں ہوتے ہیں۔ ان میں روزے دار بھی ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور افطار کا بندوبست ہو سکے تو مریض اور تیماردار‘ دونوں کی دعا مل سکتی ہے۔ افطاری پر ہر گھر میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور رنگ برنگ پکوان اور کھانے بنائے جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی ایک روزہ دار مثلاً گھریلو ملازم یا خادمہ کے گھر میں سے ایک اضافی فرد کو بھی افطار کروا سکیں تو ان گھرانوں تک بھی یہ رزق پہنچ جائے گا جو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اللہ سب کو سلامت رکھے لیکن اگلے رمضان آپ یا میں کہاں ہوں گے‘ کچھ پتا نہیں۔ تو کیا ہم اس سال کا مہمان روٹھ جانے دیں؟ دسترخوان پرساتھ نہ بٹھا لیں؟ کیا خیال ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں