"AYA" (space) message & send to 7575

پاکستان کو کن خطرات کا سامنا ہے؟

مزے کی بات ہے ہماری نالائقی ہمارے کام آ گئی۔ جو معاشی پردھان آتا تھا کہتا تھا کہ ایکسپورٹ بڑھاؤ‘ اسی میں نجات ہے۔ کسی جادو سے ایکسپورٹ ہم بڑھا دیتے تو آج رو رہے ہوتے کہ ہم پر امریکی ٹیرف لگ گئے ہیں۔ انڈونیشیا‘ ویتنام اور دیگر مشرقی ایشیا کے ممالک سر پکڑے بیٹھے ہیں کیونکہ اُن کی معیشتیں برآمد پر مبنی ہیں اور بھاری ٹیرف لگنے سے اُن کی معیشتوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ہم بے نیاز ہیں کیونکہ سوائے فیصل آباد اور کچھ دیگر شہروں کے ٹیکسٹائل پراڈکٹ کے ہم کیا ایکسپورٹ کرتے ہیں؟ لوگ یا مین پاور ایکسپورٹ کرتے ہیں اور اس برآمد پر تو کوئی ٹیکس نہیں لگا۔ نچلے گریڈ کی مزدوری ہمارے نصیب میں لکھی ہوئی ہے اور وہ ہم کرتے رہیں گے۔ اور ہماری معیشت ہے کہ باہر سے بھیجی ہوئی رقم پر ہی چل رہی ہے۔ ہمارے لوگ پیسہ بھیجنا بند کر دیں تو معیشت ڈوب جائے۔ڈوبی تو ویسے ہی ہے لیکن تباہ کاری بڑھ جائے۔
اصل خطرات مختلف ہیں۔ شاید بیشتر لوگ اب تک نہیں سمجھ رہے لیکن سب سے سنگین خطرہ ہمیں موسم کا ہے۔ موسمی حالات میں جو تغیر پیدا ہوتا جا رہا ہے اُس سے ہماری زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں‘ زراعت متاثر ہو رہی ہے‘ فصلوں پر برُا اثر پڑ رہا ہے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ہمارے چکوال میں پانی کی راشننگ شروع ہو گئی ہے۔میونسپلٹی کا پانی جو کہ ایک دو ڈیموں سے آتا ہے ایک دن چھوڑ کر گھروں کو ملتا ہے۔ اور جو ملتا ہے اُس کی مقدار بھی کم ہو رہی ہے۔ گاؤں سے چکوال جاتا ہوں تو پہلا سوال ہوتا ہے کہ نیچے ٹینکی میں پانی ہے؟ایک دو بار رکشہ ٹینکروں سے پانی منگوانا پڑا ہے۔ یہی صورتحال رہی تو ہمارے شہروں کا حال کراچی والا ہو جائے گا جہاں پانی حاصل کرنے کا واحد طریقہ واٹر ٹینکروں پر انحصار ہے۔ اور بجائے اس مسئلے پر سوچنے کے ہم ہیں کہ چولستان کی نہروں کا شوشا چھوڑرہے ہیں۔ جو زیر کاشت زمینیں ہیں اُن کیلئے پانی کم پڑ رہا ہے‘ دریاؤں اور تالابوں کا بُرا حال ہو گیا ہے۔ دریائے سندھ کا حال یہ ہو گیا ہے کہ کئی جگہ نالا لگتا ہے دریا نہیں۔ لیکن آفرین ہمارے فیصلہ سازوں پر کہ چولستان آباد کرنے چلے ہیں۔ یہ نہیں بتائیں گے کہ زمینیں کن کو الاٹ ہونی ہیں لیکن سبز پاکستان کی داستانیں سنائی جا رہی ہیں۔ اور کیونکہ طاقتور لوگ ہیں تو اس موضوع پر ہم کھل کر بات بھی نہیں کرسکتے‘ لہٰذا احتیاط ہی بہتر ہے اور تھوڑے کہے کو ہی بہت سمجھا جائے۔
موسمیات اور پانی کی قلت کے ساتھ ایک اور مسئلہ جڑا ہوا ہے اور وہ پلاسٹک فضلہ کا ہے۔ یہ جو ستھرا پنجاب اور دیگر ایسے نعرے لگاتے پھرتے ہیں ان کی آنکھیں نہیں ہیں کہ دیکھ نہیں سکتے جو تباہی پلاسٹک نے ملک میں پھیلا رکھی ہے؟ اشتہار تھوڑے کم لگائیں اور گلی محلوں میں یا دیہات میں جاکر دیکھیں کہ پلاسٹک فضلہ اس ملک کے ساتھ کیا کررہا ہے۔ پلاسٹک شاپروں اور دیگر پلاسٹک اشیا کا اتنا بے دریغ استعمال اس ملک میں ہوتا ہے کہ شک گزرتا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت سے ہم بالکل محروم ہو چکے ہیں۔ پلاسٹک شاپروں کا استعمال یکسر بند ہونا چاہیے۔ جن فیکٹریوں میں یہ شاپر بنتے ہیں اُن پر فی الفور تالا لگنا چاہیے۔ یہ جو دکانوں میں ناقص قسم کی چپس وغیرہ فروخت ہوتی ہیں بچوں کو بُری عادت پڑ چکی ہے کہ انہیں ضرور کھانا ہے اور پھر پلاسٹک ریپر کو نالی یا گلی میں پھینک دینا ہے۔ تعلیم و تدریس نام کی چیزیں تو یہاں ویسے کوئی نہیں‘ اچھے بھلے لوگ موٹر وے پر گاڑی چلا رہے ہوں گے اور اچانک کھڑکی سے پلاسٹک کا کوئی ریپر ہوا میں پھینک دیں گے۔ اور یہ بات جو ہے کہ پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جاسکتا ہے سراسر بکواس ہے۔ نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون پڑھ رہا تھا کہ دہلی کے عین وسط میں اڈانی گروپ نے پلاسٹک ریسائکلنگ کی ایک فیکٹری قائم کی ہے ‘ شہر سے اکٹھے کیے گئے پلاسٹک کے ڈھیر آس پاس کی آبادیوں کیلئے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں‘ یعنی علاج بیماری سے زیادہ مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ یہ تو یقینِ محکم کہ یہاں کسی نے کچھ کرنا نہیں لیکن کہنے میں کیا ہرج ہے کہ پلاسٹک شاپروں اور بوتلوں کے استعمال پر فوری پابندی لگنی چاہیے۔ لیکن جیسے عرض کیا یہاں بس باتیں ہی ہوتی ہیں‘ ہونا ہوانا کچھ نہیں۔
اسلامی جمہوریہ میں دو نمبری تو ہر چیز کی ہے اور سچ پوچھئے تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دو نمبری ہمارا قومی اعزاز اور پہچان بن چکی ہے۔ سیدھا کام ہم نے کرنا نہیں‘ سامنے دو راستے ہوں ایک سیدھا اور ایک ٹیڑھا اور ہم نے ٹیڑھے کو ہی پسند کرنا ہے۔ بہرحال دو نمبر کا سامانِ شب اب یہاں بہت تیار ہو رہا ہے۔ اس کے دو واضح نقصانات ہیں‘ ایک تو عوام کی صحت پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے اور دوسرا جو پیسہ سرکار کو جانا چاہیے وہ یہ دھندہ کرنے والوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔یہ دو نمبر کادھندہ تب سے شروع ہوا جب نیکی اور پارسائی کی خاطر تصرفِ شب پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ پارسائی تو ہمارے حصے میں آئی نہیں لیکن دو نمبر کا یہ دھندہ پورے ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے‘ خاص طور پر پنجاب میں کیونکہ ہمیشہ سے پارسائی اور منافقت کے کاموں میں پنجاب سب سے آگے رہتا ہے۔ سندھ میں تو پھر بھی جام صادق علی کی منظور کردہ دکانیں موجود ہیں۔ جہاں سے عمر خیام‘ مرزا غالب‘ حضرتِ جوش اور فیض صاحب جیسے شعرائے کرام کی کم از کم ایک چیز میں پیروی کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔
ہم پنجابی یہ مانتے کیوں نہیں کہ اِن چیزوں میں ہم سب سے زیادہ تنگ نظر ہیں؟ پانچ دریاؤں کی یہ دھرتی ہے‘ تین دریا ہاتھ سے گئے اور جو ہمارے پاس رہے اُن کا بھی گندگی سے برا حال کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی دریاؤں کا دیس تو کہلاتا ہے۔ غلام فرید ‘ شاہ حسین اور وارث شاہ کی یہ زمین ہے۔ کیا کیا گویے یہاں پیدا نہیں ہوئے۔ کن کن کا نام لیا جائے‘ سہگل‘ رفیع‘ نورجہاں ‘ بڑے غلام علی خان وغیرہ وغیرہ۔ ان ہستیوں کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ کشادہ دل اورکشادہ ذہن دیس ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پتا نہیں کس قسم کے پٹواری اور نظریہ ساز یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں جو دقیانوسی کی بات ہوئی اُس کا کھُراڈھونڈیں تو پنجاب سے جا ملتا ہے۔ بٹوارہ اس صوبے کا ایسا ہوا کہ تمام بھنگڑا اور سرمستی ایک طرف چلی گئی اور یہاں کے حصے میں دو نمبری اور منافقت میں گھٹی پارسائی آئی۔ بارڈر عبور کریں تو فرق صاف نظر آ جائے گا لیکن یہ بارڈر بھی ایسا ہو چکا ہے کہ یورپ کا آئرن کرٹن یا لوہے کا پردہ اس کے سامنے کیا معنی رکھتا ہوگا۔ اُس آئرن کرٹن سے پھر بھی گزرا جاسکتا تھا لیکن پنجاب‘ سندھ اور کشمیر کا بارڈر ایسا بن چکا ہے کہ ہر شے کی آمدورفت بندہو گئی ہے۔ اور اسی میں ہم خوش لگتے ہیں۔
عرض یہ کہ چین یا جاپان تو ہم نے بننا نہیں۔ جو بنیادی اور سادہ چیزیں ہیں اُن کی طرف دھیان دیں۔ جو تھوڑا بہت ملا ہے اُس کو بچا کر رکھیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں