"RKC" (space) message & send to 7575

ضیا‘ مشرف اور خان

چلیں ہم صحافی تو ہر بات کو منفی انداز میں سوچنے اور منفی رائے دینے کے عادی تھے لیکن اب لگتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت بھی منفی گفتگو پسند کرتی ہے اور انہیں بُری خبریں پسند آنے لگی ہیں۔ اگر آپ کسی کو اچھی خبر سنائیں تو اُس کے چہرے پر مایوسی اُبھرے گی۔ کچھ دیر بعد گفتگو میں اس کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ لیکن اگر آپ اُسے یہ بتائیں کہ ابھی آسمان گرنے والا ہے اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہے تو اُس کا چہرہ چمک اُٹھے گا اور آپ کو یہ کہہ کر تھپکی دے گا کہ واہ! کیا کمال تجزیہ پیش کیا ہے۔
پرسوں لالہ موسیٰ میں سابق وفاقی وزیر قمرزمان کائرہ کے بچوں کی شادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر گوجر خان سے آگے ایک ریستوران پر رکے تو ایک دو لوگ ملنے آ گئے۔ آپ جتنے بھی تھکے ہوئے ہوں آپ کو سب کو وقت دینا ہوتا ہے ورنہ آپ کو مغرور انسان سمجھا جاتا ہے لہٰذا میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ دیر عزت اور احترام سے ان کی بات سنی جائے۔ میں دوسرے کی بات سنتا ہوں اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوں۔ اگلے کو جواب‘ جواز یا منطق سے سمجھانے کی کوشش نہیں کرتا کہ چلیں‘ اس کی رائے بھی سن لینی چاہیے لیکن ہر بندے کی کوشش ہوتی ہے کہ میں انہیں تباہی و بربادی کی کہانیاں سناؤں۔ مجھے وہ صاحب ایک سلجھے ہوئے سیاسی ورکر لگے اس لیے دل کیا کہ ان سے کچھ دیر گپ لگا لیتے ہیں۔ لیکن پھر وہ روایتی سوال پوچھنے لگے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے: جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ تو جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ میں خاموش رہ سکتا تھا لیکن مجھے لگا کہ موجودہ دور یقینا بُرا ہو گا لیکن جنرل ضیا اور جنرل مشرف کا دور کیسے اچھا ہو گیا؟
وہ صاحب کچھ دیر مجھے آمریت کے ادوار کے فوائد سناتے رہے اور میں چپ رہ کر سنتا رہا۔ وہ کچھ رکے تو میں نے کہا: جنرل مشرف یا جنرل ضیا کی آمریت کو اچھا ثابت کیے بغیر بھی تو موجودہ دور پر تنقید ہو سکتی ہے۔ وہ کہنے لگے :وہ ادوار موجودہ دور سے بہتر تھے۔ میں نے پوچھا: کیسے بہتر تھے؟ بولے: جو کچھ اب ہو رہا ہے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ تشدد‘ سیاسی ورکرز جیل میں ہیں‘ اب تو گولیاں چل جاتی ہیں۔ میں نے کہا: سب باتیں ٹھیک ہوں گی لیکن کچھ حقائق آپ بھی ٹھیک کر لیں تاکہ آپ کا کیس کمزور نہ پڑے۔ اُن کی آنکھوں میں حیرانی اُبھری کہ بھلا موجودہ دور کیسے ضیا یا مشرف دور سے بہتر ہو سکتا ہے‘ خصوصاً جب عمران خان جیل میں ہیں۔ میں نے کہا: جنرل ضیا نے ایک سیاسی وزیراعظم کو جیل میں رکھ کر پھانسی دی تھی‘اُس دور میں پی پی پی ورکرز بھی پھانسی لگے تھے‘ کیا پچھلے ایک سال میں کوئی سیاسی وزیراعظم یا ورکر پھانسی لگا؟ ضیا دور میں تو شاہی قلعے میں سیاسی ورکرز پر قید میں رکھ کر تشدد کیا گیا۔ انہیں سٹیڈیم میں عوام کے سامنے کوڑے مارے جاتے تھے اور اُن کے منہ کے آگے لاؤڈ سپیکر رکھے جاتے تھے تاکہ اُن کی چیخیں عوام کو اونچی سنائیں دیں۔ اگلے دن کوڑوں سے لہو لہان پشت کی تصاویر اخبارات کے صفحہ اول پر چھپتی تھیں۔ جس آمر نے بھٹو کو پھانسی دی اُن کا عمران خان کے ساتھ بہت پیار تھا اور خان صاحب نے انہی کے کہنے پر ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیا۔ پوری قوم نے کہا کہ ریٹائر نہ ہوں لیکن خان صاحب نہ مانے مگر جنرل ضیا کی بات مان لی۔ جس جنرل نے دو دفعہ حکومتیں اور اسمبلیاں توڑیں اور دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجا (ایک کو سنڈھری اپنے گھر تو دوسرے کو گڑھی خدا بخش قبرستان میں) وہ آپ کے خیال میں بہتر تھا؟ جہاں تک سیاسی ورکرز پر تشدد کی بات ہے تو ضیا دور میں سندھ میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فائرنگ کر کے اَن گنت ورکرز کو مارا گیا تھا۔
اب آتے ہیں جنرل مشرف کی طرف۔ اُن کے دور میں بینظیر بھٹو قتل ہوئی تھیں۔ ایک سابق وزیراعظم کا قتل ہو جانا ایک معمولی واقعہ ہے؟ ایک اور سابق وزیراعظم‘ نواز شریف بھی اس دور میں جیل میں رہے اور انہیں دہشت گردی کے الزام میں چودہ برس سزا سنائی گئی‘ جیسے آج عمران خان جیل بھگت رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں مشرف دور میں ہو رہی تھیں وہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں؟ اگر یاد ہو تو جنرل مشرف کے نیب پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ میں سیاسی ورکر صدیق الفاروق کے بارے ایک رِٹ پر جواب دیا تھا کہ ہم تو انہیں گرفتار کر کے بھول گئے تھے۔ اُن دنوں نیب کسی کو بھی اٹھا کر نوے دن کیلئے ریمانڈ کے نام پر قید کر لیتی تھی۔ اکثر سیاستدانوں کی نیب کے ذریعے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ جس نے ایسا نہ کیا وہ پانچ‘ چھ سال جیل میں رہا۔ یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی اس کی مثالیں ہیں۔ جتنے کرپٹ سیاستدان تھے‘ ان کے (ق) لیگ جوائن کرنے پر انہیں کلین چٹ دے دی گئی۔ آپ اب بھی مشرف دور کو اچھا سمجھتے ہیں؟ وہ بولے: لیکن اس میں عمران خان کا کیا قصور ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے تو عمران خان کا نام نہیں لیا نہ ہی انہیں قصور وار کہا ہے‘ اگر آپ نے ان کا ذکر کر ہی دیا ہے تو پھر سن لیں کہ جب یہ سب ہو رہا تھا تو عمران خان اُس وقت مشرف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ عمران خان مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی مہم بھی چلا رہے تھے‘ انہوں نے نہ صرف خود مشرف کے حق میں ووٹ ڈالا بلکہ دوسروں کو بھی قائل کیا۔ عمران خان کو امید تھی کہ جنرل مشرف انہیں وزیراعظم بنائیں گے لیکن جب 2002ء کے الیکشن سے پہلے مشرف نے کہا کہ یہ نہیں ہو پائے گا تو خان صاحب ناراض ہو گئے اور اُن کے خلاف تقریریں شروع کر دیں۔
دیکھا جائے تو عمران خان کو کبھی بھی آمروں سے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ نہ انہیں جنرل ضیا سے مسئلہ ہوا نہ جنرل مشرف سے۔ عمران خان کو زیادہ مسئلہ تو سیاست اور سیاستدانون سے رہا اور آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ جنرل ضیا کا دور اچھا تھا جس میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اورجنرل مشرف کا دور اچھا ہے جس میں بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن عمران خان کو کسی عدالت نے پھانسی کی سزا نہیں سنائی‘ ان کی پارٹی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ ٹی وی چینلز پر اس پارٹی کے نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر وہ اپنی رائے رکھتے ہیں۔ انٹرویوز دیتے ہیں۔ وی لاگز اور شوز ہوتے ہیں۔ یہ سہولتیں جنرل ضیا اور جنرل مشرف دور میں پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت یا ورکرز کو میسر نہ تھیں‘ نہ ہی مشرف دور میں نواز شریف کے ورکرز یا لیڈران یہ سب کچھ سوچ سکتے تھے۔
مان لیا پی ٹی آئی کا الیکشن چرایا گیا‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں‘ لیکن جنرل ضیا نے تو دو حکومتیں توڑیں اور الیکشن بھی چرائے‘ جس کے دور کو آپ اچھا کہتے ہیں۔ مشرف نے بھی یہی کیا۔ دو دفعہ مارشل لاء لگایا بلکہ ایک چیف جسٹس اور درجنوں ججز کو قید کیا‘ عمران خان خود اُس دور میں ججز تحریک میں قید ہوئے اور آپ اُس دور کو آج سے بہتر سمجھتے ہیں کہ آج خان جیل میں ہے۔ وہی مشرف جس نے اکبر بگتی کو آپریشن میں مروادیا اور اس کے بعد بلوچستان آج تک جل رہا ہے لیکن آپ کو مشرف آج بھی بہتر لگتا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ موجودہ حکومت‘ مقتدرہ کی غلط پالیسیوں اور متنازع فیصلوں پر ضرور تنقید کریں لیکن جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو کلین چٹ دے کر عمران خان کا مقدمہ کمزور نہ کریں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں