"RKC" (space) message & send to 7575

لالہ موسیٰ کی یادگار شادی

قمر زمان کائرہ صاحب سے میرا پہلا تعارف پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ہوا تھا۔ وہ ان چند سیاستدانوں میں ایک ہیں جنہوں نے صحافیوں اور سیاستدانوں کو اپنی شخصیت اور ذہانت سے متاثر کیا۔ ایک ملنسار انسان۔
ان کے بچوں کی شادیوں کا دعوت نامہ تھا۔ بڑے عرصے سے کائرہ صاحب سے رابطہ نہیں رہا لہٰذا مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے یاد رکھا۔ میری اور کائرہ صاحب کی کئی دفعہ ٹی وی شوز میں دھواں دھار بحثیں ہو چکی ہیں۔ ہم انسان ہیں‘ کبھی کبھار شاید دل میں رنجش رہ جاتی ہے اور میں نے رپورٹنگ میں زیادہ تر مخالف ہی بنائے ہیں‘ دوست کم ہیں۔ شادی کا کارڈ دیکھ کر یاد آیا کہ چند برس پہلے کائرہ صاحب کا ایک جوان بیٹا حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا‘ جس کا پورے ملک کو صدمہ ہوا تھا۔ میرے مرحوم دوست انور بیگ‘ ارشد شریف اور میں کائرہ صاحب سے تعزیت کے لیے ان کے گھر لالہ موسیٰ گئے تھے۔ ارشد شریف سے کائرہ صاحب کا خصوصی تعلق تھا۔ انہوں نے ارشد کو کافی دیر تک اپنے گلے سے لگائے رکھا ۔آج جب میں کائرہ صاحب کے بچوں کی شادی پر جانے کیلئے انہی راستوں پر سفر کر رہا تھا تو مجھ پر اداسی طاری رہی کہ کبھی میں‘ ارشد اور انور بیگ اکٹھے ایک ہی گاڑی میں یہاں سے گزرے تھے۔ کیا علم تھا کہ چند برس بعد ارشد شریف اور انور بیگ چل دیں گے اور ان کے بغیر زندگی دکھ اور درد سے بھر جائے گی۔
میں کبھی سیاسی لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو جاتا تھا‘ خصوصاً جب میں نے 2002ء کی پارلیمنٹ سے سیاسی رپورٹنگ شروع کی تھی۔ ہر دوسرا شخص آپ کو غیر معمولی لگتا تھا۔ وہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا اور ایک سیاسی مزاحمت جاری تھی۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی پارٹی کے لوگ اسمبلیوں میں جوش بھری تقریریں کرتے تھے۔ لگتا تھا کہ اگر ان لوگوں کو اقتدار ملا تو یہ ملک وقوم کی حالت بدل دیں گے لیکن پھر 2008ء میں انہیں اقتدار ملا اور بڑے بڑے بت ٹوٹتے دیکھے اور سیاسی رومانس کا اچھا انجام نہ ہوا۔ سیاسی لوگ بڑی خوبصورتی سے دوسروں کو استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ آپ کو لگے گا کہ ان سے بڑا سگا کوئی پیدا نہیں ہوا‘ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت تک ہے جب تک آپ ان کے مطابق کھیل کا حصہ ہیں۔ تاہم ان سیاسی لوگوں میں سے کائرہ صاحب‘ اسحاق خاکوانی اور یوسف تالپور کو قدرے مختلف پایا۔ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ۔ رکھ رکھائو اور مروت بھرے۔ میں اکثر کمیٹیوں کے اجلاس میں جاتا رہتا ہوں لہٰذا پتا چلتا رہتا ہے کون سا بیورو کریٹ یا وزیر یا رکنِ پارلیمنٹ کتنے پانی میں ہے۔ کائرہ صاحب جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن بنے تو ان کی صلاحتیوں کا اندازہ ہوا۔ اچھے سوالات اور اچھی بحث کرتے تھے۔ ان سے اچھا تعلق بنا کیونکہ ذہین لوگ مجھے ہمیشہ سے اچھے لگتے ہیں۔ اگرچہ بعد میں جب وہ وزیر اطلاعات بنے‘ ہمارے اور ان کے کام کی نوعیت بدلی تو تعلق اس طرح برقرار نہ رہ سکا۔ کائرہ صاحب سے اکثر کاشف عباسی کے شو میں ٹاکرا ہوتا تھا۔ میں انہیں کہتا تھا کہ پاکستان میں چند سیاستدان ایسے بھی ہیں جو اپوزیشن میں آکر ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ ان پر ہارورڈ یا آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر کا شک گزرتا ہے۔ کائرہ صاحب بھی ان میں سے ایک ہیں۔ جمہوریت اور سیاست کے حوالے سے ان کی رائے اور اپروچ ہمیشہ مختلف رہی ہے۔ ویسے تو وہ ٹھنڈے مزاج کے لگتے تھے لیکن کبھی کبھار ٹی وی شوز میں کچھ غصہ بھی کر جاتے۔ اس کے باوجود میں انہیں ہمیشہ ٹھنڈی طبیعت کا حامل‘ سمجھدار اور پڑھا لکھا سیاستدان سمجھتا ہوں۔
جب کارڈ ملا تو مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے یاد رکھا کہ جو لوگ ان کے بیٹے کے غم میں شریک ہوئے تھے اب اگر ان کے گھر میں خوشیاں آ رہی ہیں تو انہیں بھی یاد رکھا جائے۔ میرے بارے میں ویسے بھی ارشاد بھٹی کہا کرتا تھا کہ کوئی راہ چلتے بھی کہہ دے کہ رئوف صاحب میری شادی ہے اور آپ نے آنا ہے تو جناب سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے بھی پہنچ جاتے ہیں چاہے اگلے نے تکلفاً ہی کہا ہو۔ میں اسے جواب دیتا تھا کہ میں ایک دیہاتی انسان ہوں‘ مجھے لگتا ہے کہ اس کی اپنی یا بیٹے؍ بیٹی کی شادی میں میرے جانے سے خوشی آ سکتی ہے تو میں کچھ تکلیف کر لوں‘ کیا فرق پڑے گا۔ ارشاد بھٹی میری سائنس یا مزاج کبھی نہ سمجھ سکا۔ خیر‘ کائرہ صاحب کی ٹیم کے افراد نے صرف کارڈ بھیج کر تسلی نہیں کی بلکہ یاددہانی کے علاوہ گوگل میپ بھی بھیجا جس سے لگا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کے یار دوست ان کی اس خوشی میں شریک ہوں۔
میں نے اپنے ساتھ دوست قبلہ جنید مہار کو لیا کہ چلیں سفر اچھا گزرے گا۔ اندازہ تو تھا کہ کائرہ صاحب کے بچوں کی شادی پر کافی لوگ ہوں گے کیونکہ وہ سب سے اچھا تعلق رکھنے والے بندے ہیں لیکن جب وہاں پہنچا تو اندازہ ہوا کہ وہاں تو ہزاروں لوگ تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سی شادیوں میں شرکت کی ہو گی لیکن اتنی تعداد میں لوگ اور انتظامات نہیں دیکھے تھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بارہ ہزار لوگ شادی میں شریک تھے۔ باقی چھوڑیں اسلام آباد اور لاہور کا کون سا صحافی یا اینکر ہوگا جو وہاں نہ پہنچا ہو۔
اتنی بڑی تعداد میں شادی میں شریک مقامی اور باہر سے آئے لوگوں کو دیکھ کر قبلہ جنید نے ایک اہم بات کی۔ کہنے لگے کہ مان لیا کائرہ صاحب ایک سیاستدان ہیں اور لوگوں سے تعلقات رکھتے ہیں لیکن اہم بات کچھ اور ہے۔ اس وقت نہ وہ وزیر ہیں‘ نہ گورنر‘ نہ پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت کر رہی ہے اور نہ ہی پنجاب میں اس کی حکومت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اقتدار کے وقت لوگ اپنی شکل دکھانے کے لیے حاضری دیتے ہیں۔ یہ ہزاروں لوگ اُس وقت کائرہ صاحب کے بچوں کی خوشی میں شریک ہونے یا حاضری لگوانے آئے ہیں‘ جب وہ اقتدار میں نہیں ہیں۔ یہ سب ان کا ذاتی تعلق ہے۔
یوں لگتا تھا کہ پورا لالہ موسیٰ بلکہ شاید پورا پنجاب شادی ہال میں امڈ آیا ہے۔ اکثر ایسے مواقع پر انتظامات اچھے نہیں ہوتے یا کھانا کم پڑ جاتا ہے۔ مجھے تو انتظامات بھی اچھے لگے اور کھانا بھی وافر موجود تھا۔ کائرہ صاحب نے اعلان کیا تھا کہ کسی بندے کا گن مین اندر نہیں آئے گا نہ مسلح افراد ساتھ ہوں گے۔ اس پر انہوں نے عمل بھی کر کے دکھایا۔ اتنے رش میں کائرہ صاحب کو ڈھونڈنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ خیر وہ جلد ہی مل گئے۔ ہم ٹھہرے دیہاتی لوگ کہ جہاں جانا ہے‘ سلامی ضرور دینی ہے۔ کائرہ صاحب نے مجھے دیکھا تو بڑے خوش ہوئے۔ شام سے اب تک وہ ہزاروں لوگوں سے مل چکے تھے لیکن ایک ایک بندے کو نام سے بلا کر اسے احساس دلا رہے تھے کہ آپ کو ذاتی تعلق کی وجہ سے دعوت دی تھی۔ میں نے سلامی کا لفافہ دینے کی کوشش کی تو بولے: کلاسرا صاحب! میں نہ سلامی لیتا ہوں نہ دیتا ہوں۔ یہ کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا: سر جی! ہم دیہاتی لوگ ہیں‘ مٹی اور روایتوں سے جڑے ہیں‘ ہمارے ہاں برادری اور تعلق ایسے ہی چلتے ہیں۔ سلامی کا مقصد شادی والے گھر کا بوجھ کچھ کم کرنا ہوتا ہے۔ آپ یقینا یہ اخراجات افورڈ کر سکتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ کلچر یا روایت پسند ہے۔ خیر‘ کائرہ صاحب نے کسی شخص سے ایک روپیہ بھی سلامی نہیں لی۔ سب کو عزت دی۔ کھانا بھی اچھا پکا ہوا تھا۔ مجھے مکھڈی حلوہ پسند آیا اور شوق سے کھایا۔ پوٹھوہار کے اس مکھڈی حلوے کی بھی اپنی شان ہے اگر اچھا پکا ہو۔ یقین کریں اس کا بہت اچھا ذائقہ تھا۔ مطلب اب بھی ایسے کچھ سیاسی لوگ موجود ہیں جو اقتدار میں نہ ہوں تب بھی لوگ سینکڑوں میل سفر کر کے ان کے بچوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
کائرہ صاحب نے جوان بچے کا دکھ جھیلا‘ اب بچوں کی خوشی بھی دیکھی۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ کبھی دکھ کبھی سکھ۔ جی ٹی روڈ کے اردگرد جو رنگ ورونق دیکھی اس کی خوبصورت کہانی پھر کبھی سہی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں