عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی وزیراعظم یا اہم وفاقی وزیر سابق ہو جائے تو وہ پھر اینکرز کے ساتھ اکیلے شو کرتا ہے‘ پینل کے ساتھ نہیں بیٹھتا۔ ٹی وی انٹرویوز کیلئے ان کی یہی شرط ہوتی ہے کہ وہ اس شو میں اکیلے مہمان ہوں گے۔
چودھری نثار علی خاں نے ایک دفعہ ایک ٹاک شو میں کسی دوسرے مہمان کے ساتھ شرکت کی تھی جس پر وہ بہت پچھتائے تھے۔ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں علم نہ تھا کہ اس شو میں ان کے علاوہ بھی کوئی دوسرا سیاستدان موجود ہو گا۔ خیر اس کے بعد چودھری نثار علی کبھی اُس اینکر کے شو میں نہیں گئے۔ بعد ازاں اگر انہوں نے اپنے کسی اعتماد یا پسند کے اینکر کو انٹرویو دیا بھی تو اپنے گھر پر ہی دیا جہاں ان کے خیال میں ان پر اچانک زبانی حملہ آور ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔
اگر بندہ ملک کا سابق وزیراعظم رہا ہو تو وہ کبھی بھی کسی چینل پر کسی پینل کے ساتھ نہیں بیٹھے گا۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنی داڑھی کسی دوسرے کے ہاتھ نہیں دے گا۔ اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہوں‘ راجہ پرویز اشرف ہوں یا نواز شریف‘ وہ آپ کو کبھی کسی پینل کے ساتھ کسی پروگرام میں نظر نہیں آئیں گے۔ نواز شریف تو خیر انٹرویو ہی نہیں دیتے۔ ایک مرتبہ ہمارے محترم طلعت حسین نے ان کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی تھی جس سے میاں صاحب نے یہ سبق سیکھا تھا کہ آئندہ کسی کو انٹرویو نہیں دینا بلکہ کسی صحافی سے ہی نہیں ملنا۔ اگر ملنا بھی ہو تو اُن چند صحافیوں سے جو قابلِ بھروسہ ہیں۔
عمران خان پہلے سب صحافیوں سے مل لیتے تھے لیکن جب وزیراعظم بنے تو وہ بھی صرف اُن سے ملتے تھے جو انہیں سب اچھا کی رپورٹ دیتے تھے اور باقیوں کو وہ خود سے دور رکھتے تھے۔ شہباز شریف بھی اسی ماڈل کو فالو کرتے آئے ہیں کہ اُس صحافی‘ اینکر یا کالم نگار کے قریب مت جاؤ یا اسے قریب مت آنے دو جو آپ کی سیاسی سوچ سے اتفاق نہیں کرتا یا آپ کو ملکی تاریخ کا عظیم ترین سیاستدان نہیں مانتا۔ وہ بھی انٹرویو دیتے وقت دھیان رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں کہ اینکر اُن کا کتنا وفادار ہے اور وہ کوئی ایسا سوال نہ پوچھے جس سے بعد میں کوئی ویسا مسئلہ ہو جیسا نواز شریف کو طلعت حسین کے انٹرویو کی وجہ سے ہوا تھا۔
شاہد خاقان عباسی شاید وہ اکیلے سابق وزیراعظم ہیں جو جب سے اس عہدے سے ہٹے ہیں‘ ایک تو بہت تلخ ہو گئے ہیں‘ دوسرا وہ تقریباً ہر ٹی وی شو میں نظر آتے ہیں۔ بعض دفعہ تو وہ دن میں دو دو‘ تین تین شوز میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ پینل پر دو تین دیگر سیاستدان اور صحافی بھی ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی اچھی سیاسی سوچ ہے‘ اور وہ دیگر وزرائے اعظم کے برعکس خود کو ہر جگہ میسر کرتے ہیں۔ شاید اس کی دو وجوہات ہیں‘ ایک یہ کہ انہوں نے نئی سیاسی پارٹی بنائی ہے جس کی پروموشن کیلئے ہر جگہ جانا ضروری ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کے اوپر اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور کا کوئی سیاسی یا مالی بوجھ نہیں ہے جیسے دیگر وزیراعظم محسوس کرتے ہیں‘ یعنی ان کی سیاسی یا مالی وراثت اتنی اہم نہیں کہ ان سے اس دور کے حوالے سے سخت سوالات پوچھے جائیں جس سے پشیمان ہونے کا ڈر ہو‘ جیسے باقی سابق وزرائے اعظم کو ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کے دور میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہوئیں جن پر انہیں پشیمان ہونا چاہیے‘ خصوصاً آج جب وہ ٹی وی شوز میں اصلی نسلی جمہوریت پر لیکچردیتے ہیں۔
آج اگر سیاسی اشرافیہ مقتدرہ کے ہاتھوں مجبور ہو چکی ہے تو اس میں شاہد خاقان عباسی دور کا مختصر عرصہ بھی شامل ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ان کے دور میں فیض آباد پر ایک دھرنا ہوا تھا۔ اس دھرنے کو ختم کرانے کیلئے مظاہرین کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا‘ اس کا صاف مطلب ریاست کو نان سٹیٹ ایکٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑنا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ وزیراعظم اپنے ایک وزیر کو برطرف کریں گے جبکہ وزیر داخلہ اور ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی اس معاہدے پر دستخط کریں گے۔ یوں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ نان سٹیٹ ایکٹر فورس نے وزیراعظم عباسی سے یہ معاہدہ کرایا اور بعد میں ان مظاہرین میں پیسے بھی بانٹے گئے تھے۔ آج جب شاہد خاقان عباسی بتاتے ہیں کہ ملک برباد ہوگیا ہے‘ ریاستی رِٹ ختم ہو گئی ہے‘ اس ملک کا کچھ نہیں بننے والا تو وہ بھول جاتے ہیں کہ اس پورے کھیل میں ان کا اپنا کتنا حصہ ہے۔
اب ان سے اس بابت سوال کر لیں تو وہ اس کے سو جواز دیں گے‘اپنی مجبوریاں گنوائیں گے کہ سارے کام مقتدرہ کر رہی تھی۔ اگر ایسا تھا تو آپ وزیراعظم ہوتے ہوئے کیا کررہے تھے؟ اگر آپ یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا سکتے تھے تو پھر وزیراعظم کیوں بنے تھے؟ جیسے آپ خود کو مقتدرہ کے ہاتھوں مجبور سمجھتے تھے‘ ویسے ہی آپ کے بعد عمران خان اور شہباز شریف بھی خود کو مقتدرہ کے ہاتھوں مجبور سمجھتے رہے۔ اگر آپ اس وقت دباؤ میں نہ آتے تو ایک روایت قائم ہو جاتی‘ چاہے اس کے نتائج جو بھی نکلتے۔ ویسے کیا نتائج نکلتے؟ وہی جو محمد خان جونیجو کیلئے نکلے تھے‘ جب انہوں نے جنرل ضیا کے خلاف سٹینڈ لے لیا تھا یا پھر بینظیر بھٹو‘ جب وہ غلام اسحاق؍ جنرل بیگ کے ہاتھوں برطرف ہوئیں یا نواز شریف والے نتائج نکلتے جب وہ غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرف ہوئے یا پھر یوسف رضا گیلانی والے نتائج‘ جو ایک جج کے ہاتھوں برطرف ہوئے۔ ایک دن ہر وزیراعظم نے گھر جانا ہوتا ہے‘ عوام صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ کون عزت اور احترام کے ساتھ گھر گیا اور اپنے پارلیمانی اختیار پر سمجھوتا نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ جو سابق وزیراعظم اپنے دور میں خود مقتدرہ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کے سامنے نہ ٹھہر سکا وہ کیسے ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں ملک کی خرابیاں گنوا سکتا ہے؟ باقی چھوڑیں‘ جب عمران خان کو ہٹایا گیا تو عباسی صاحب نے وزیراعظم شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت میں اپنے دوست مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنوایا اور خود ان کے ساتھ مل کر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) چلاتے رہے۔ دھیان رہے مار دھاڑ‘بڑے بڑے کام اور 'وارداتیں‘ سب اسی کمیٹی میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ کابینہ ایک بڑا فورم ہے لیکن اصل چوکے چھکے تو ای سی سی میں لگتے ہیں۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ اگر آپ شاہد خاقان عباسی کو یہ آپشن دیں کہ وہ وزیراعظم بننا چاہیں گے یا ای سی سی کا چیئرمین تو وہ ای سی سی کا چیئرمین بننا پسند کریں گے۔ اس لیے جب مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ سے ہٹایا گیا تو وہ ناراض ہو گئے اور اچانک انہیں ملک کے حالات برے لگنا شروع ہو گئے۔ ان کا ماننا ہے کہ نواز شریف؍ شہباز شریف کی حکمرانی؍ سیاست میں مفتاح اسماعیل کو ہٹانے تک کوئی خرابی نہ تھی۔ وہی مفتاح اسماعیل جنہوں نے بینکوں کو کھل کر ایل سیز کی مد میں لُٹ مچانے کی چھٹی دی‘ جس کے بعد پہلی دفعہ ملک میں ڈالرز کی تین چار مارکیٹیں قائم ہوئیں اور ڈالر کا ریٹ اوپر گیا۔ تب ڈالر کا سٹیٹ بینک ریٹ 220 روپے اور اوپن مارکیٹ ریٹ 230 روپے تھا جبکہ بینکوں نے 248 روپے پر ایل سیز کھول کر اربوں کمائے۔ حوالہ ہنڈی کا ریٹ تب 260 روپے فی ڈالر تھا۔ اس پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے انکوائری کی اور سٹیٹ بینک نے مانا کہ کچھ بینکوں نے لٹ مچائی تھی جن کو چند کروڑ جرمانہ ہوا۔ آج شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل پھولے نہیں سماتے کہ کیا حسین دور تھا اُن کا‘ مگر اب سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ یقینا برباد ہوا ہو گا لیکن اس بربادی میں وہ اپنے حصے کا کریڈٹ لینا بھول جاتے ہیں اور بڑے بھولپن سے یوں ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے اب کچھ نہیں بچا۔