امریکی مسلمانوں کے شب و روز

ہمیں گزشتہ بیس بائیس برس سے امریکہ کی سیر و سیاحت کا موقع ملتا رہا ہے۔ اس دوران عزیز و اقارب سے ملاقاتوں کے علاوہ مختلف شہروں میں پاکستانیوں کے اجتماعات میں حالِ دل کہنے اور سننے کے مواقع بھی میسر آتے رہے۔ مگر اس بار ایک تو یہاں قیام طویل رہا دوسرے پیش نظر یہ تھا کہ امریکی سیاست و معاشرت اور طرزِ حکومت کو قریب سے دیکھا اور سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ میری یہ بھی خواہش تھی کہ یہاں مسلمانوں کے شب و روز کا مشاہدہ کیا جائے۔ رمضان المبارک کے دوران بچشم خود اسلامی مراکز و مساجد کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی دیکھی جو بے مثال ہے۔ اتحادِ امت کے ہم بہت گن گاتے ہیں‘ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر یکجان ہونے کے نغمے گنگناتے ہیں۔ اس دینی اخوت و محبت کا حقیقی نظارہ یہاں امریکی مسلمانوں میں دکھائی دیتا ہے۔نائن الیون کے بعد امریکی مسلمانوں میں اپنی مساجد اور اسلامک سنٹرز کے ساتھ وابستہ ہونے کا احساس پہلے سے کہیں بڑھ کر اجاگر ہوا۔امریکہ کے مرکزی شہروں میں بڑی بڑی مساجد کے علاوہ چھوٹی چھوٹی مساجد بھی ہیں مگر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کا یہاں کوئی تصور نہیں۔
ڈیلس ریاست ٹیکساس کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 80 لاکھ سے اوپر ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔ ڈیلس سمیت امریکہ کے ہر شہر میں مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 70 سے زائد اسلامک سنٹرز قائم کئے ہیں۔ کسی بھی اسلامک سنٹر میں مسجد کی مرکزی حیثیت ہوتی ہے۔ یہاں بریلوی‘ دیوبندی یا اہلحدیث کے نام پر کوئی مسجد نہیں۔ مساجد کے ائمہ کرام کا تعلق عرب و عجم سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی تعصب دیکھنے میں نہیں آتا۔یہ امام اور خطیب حضرات ذاتی طور پر کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں مگر وہ مسلکی‘ فروعی اور اختلافی مسائل کو چھیڑنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ یہاں کی مساجد 'ایک ہی صف میں محمود و ایاز‘ کی مثال ہیں۔ افریقی حبشی گورے امریکی کے ساتھ کھڑا ہوگا‘ ان کے ساتھ سعودی‘ مصری‘ بھارتی اور پاکستانی کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوں گے۔ یہ ایک ساتھ اجنبی بھائیوں کی طرح نہیں سچے اسلامی جذبات رکھنے والے برادران کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ مردوں کے پیچھے عورتیں بھی نماز ادا کرنے کیلئے کہیں اسی ہال میں اور کہیں اوپر والے ہال میں صف آرا ہوتی ہیں۔یہاں کی مساجد حقیقی معنوں میں فیملی کمیونٹی سنٹرز ہیں۔ مساجد میں پنجگانہ نمازوں کی باجماعت ادائیگی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ خطبا نمازیوں میں عبادات کیلئے شوق و ذوق بڑھاتے ہیں۔ رمضان المبارک یہاں کی مساجد کا موسم بہار ہے۔ اُن دنوں مساجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تاہم سال کے دیگر دنوں میں بھی نمازی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ نمازوں کے علاوہ مساجد میں تجوید و تحفیظ قرآن کا نظام موجود ہے جن میں صرف بچے ہی نہیں بڑے بھی شامل ہوتے ہیں۔ ڈیلس میں اور اسی طرح دیگر امریکی شہروں کی مساجد کے ساتھ ساتھ لیکچرز ہال اور چھوٹے اور بڑے بچوں کیلئے الگ باسکٹ بال کورٹس تعمیر کئے گئے ہیں۔ ہفتے میں خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی تفسیر و حدیث اور اسلامی فقہ وغیرہ کے لیکچرز ہوتے رہتے ہیں۔
امریکی مسلمانوں کے دل دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے دھڑکتے ہیں۔ خطیب حضرات فلسطین‘ کشمیر اور برما وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کے حالات سے نمازیوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں کے نمازی اپنے ستم زدہ بھائی بہنوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ طرح طرح کے فیملی پروگرام بھی مسجد کے نظام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ یوتھ کونسلنگ کے سیشن ہوتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے دیندار ماہرین نفسیات نوجوانوں کے مسائل کو سنتے اور انہیں مشورے دیتے ہیں۔ امریکہ ہی نہیں دیگر بہت سے ملکوں میں بھی نوجوان خود ہی اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق شاید پاکستان اور بھارت کے علاوہ کہیں بھی نوجوانوں کے خاندان ان کے مستقبل فیصلے نہیں سناتے۔ یہاں مساجد میں مسلم نوجوانوں اور ان کے اہل خاندان کی سہولت کیلئے میرج کونسلنگ اور رشتوں کی تفصیلات سے آگاہی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مختلف رشتوں میں دوطرفہ دلچسپی کے بعد شادی کے خواہشمند لڑکے اور لڑکی کی زوم پر بات چیت کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ ذات برادری کا تو خیر کوئی سوال نہیں‘ کہیں کا نوجوان امریکی مسلم کہیں کی مسلم لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ اسی طرح مسلم لڑکیاں بھی کسی بھی ریجن کے مسلم لڑکے سے شادی پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ نکاح خوانی کا فریضہ بالعموم مساجد میں ادا کیا جاتا ہے تاہم بارات اور ولیمہ وغیرہ کی تقریبات کا اہتمام ہوٹلوں اور ایونٹ ہالوں میں ہوتا ہے۔مساجد میں طرح طرح کے پروگرام ہم پاکستانیوں کیلئے باعثِ حیرت ہیں۔ مکانوں کی خریداری کیلئے بلاسود قرضوں کی کمپنیاں خطیب صاحب کی اجازت سے مسجد کے ساتھ ملحقہ ہال میں لوگوں کو مختلف سکیموں کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔ یہاں مساجد میں صرف ان بینکوں اور کمپنیوں کے قرضوں کے بارے میں کمیونٹی کو آگاہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جن کی اچھی شہرت ہوتی ہے۔ اسلامک سنٹرز کے زیراہتمام بلڈ بینک کیلئے خون کے عطیات جمع کئے جاتے ہیں۔ اس کیلئے خطیب صاحب تاریخ کا اعلان کرتے ہیں نیز نوجوانوں اور خواتین و حضرات کو اس کارِخیر کی طرف راغب بھی کرتے ہیں۔
امریکی مساجد کا یہ کلچر ہمیں بہت پسند آیا جس کے مطابق اسی شہر کی مساجد کے خطیب ایک دوسرے کی مساجد میں خطبہ یا وعظ کیلئے مدعو کیے جاتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کے درمیان الفت و یگانگت بڑھتی ہے اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ اسی طرح دوسرے شہروں سے بھی خطیبوں کو مدعو کیا جاتا ہے یہاں کے علمائے کرام کسی خطیب یا سکالر کے اپنی مسجد میں آ کر خطاب کرنے سے انقباضِ خاطر نہیں انبساطِ خاطر محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ کے کئی عالمی شہرت یافتہ سکالرز سے ملاقاتیں ہوئی ہیں ان میں ڈیلس کے شیخ عمر سلیمان‘ ڈاکٹر آصف حرانی‘ شکاگو کے ڈاکٹر مصطفی اور دیگر کئی علمائے کرام شامل ہیں۔ ان حضرات کو امریکہ کے مختلف شہروں کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ جہاں کہیں جاتے ہیں وہاں اتحادِ امت کی اہمیت و ضرورت کو بطور خاص اپنا موضوع سخن بناتے ہیں ۔ہم ان شاء اللہ اتحاد امت مسلمہ اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے حوالے سے امریکی علمائے کرام کا اگلے کسی کالم میں تفصیل سے تذکرہ کریں گے۔ یہ اسلامی مراکز غیر مسلموں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ اپنے ہاں چائے وغیرہ پر بلاتے اور اسلام کے حوالے سے اُن کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں‘ نیز ان کی خواہش کے مطابق انہیں قرآن اور سیرت مصطفیﷺ کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں اور قرآن مجید کا نسخہ بطور ہدیہ انہیں پیش کرتے ہیں۔ یہ مراکز بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بڑے معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
اسلام کی حقیقی منشا اور روح کے مطابق مسجد محض عبادت خانہ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت اور آپس میں مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے اور ساری کمیونٹی کو یکجا کرنے کا مرکز ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ معلوم کر کے بے حد حیرت ہوئی کہ ہر علاقے کی مساجد میں نماز ادا کرنے والے امریکی مسلمان دل کھول کر اپنی مسجد کے روزمرہ اخراجات اور اسلامک سنٹرز کی توسیع کیلئے دل کھول کر فنڈ دیتے ہیں۔ ڈیلس کی بعض مساجد کئی کئی ملین ڈالرز جمع کرتی ہیں۔ کم و بیش اسی طرح دیگر امریکی شہروں میں بھی مساجد کیلئے بھاری فنڈز اکٹھے کئے جاتے ہیں۔امریکی مسلمانوں کی وحدت و یگانگت کے ساتھ مساجد سے وابستگی قابلِ تحسین ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں