"DRA" (space) message & send to 7575

کیا ایک اور پاک بھارت جنگ ہونے والی ہے؟

پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں امن‘ تعاون اور دوستی کے لمحات کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں‘ حالانکہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ سب سے لمبی بین الاقوامی سرحد ہے۔ 77سال پہلے دونوں ملکوں کے باشندے ایک ہی ملک کے شہری تھے۔ اب بھی دونوں ملکوں کی بہت سی اقدار مثلاً زبان‘ لباس‘ پکوان اور موسیقی مشترک ہیں مگر آپس میں میل جول بڑھانے کے بجائے تقسیم ہند کے بعد سے دونوں ممالک تین بڑی اور دو چھوٹی جنگیں لڑ چکے ہیں اور مشترکہ سرحد خصوصاً جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اکثر اوقات فائرنگ اور گولا باری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘ مگر غیر جانبدار عالمی حلقے پاک بھارت کشیدگی‘ جو کبھی کبھی مسلح تصادم کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے‘ کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کو ٹھہراتے ہیں۔ ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر دنیا کے تقریباً تمام ممالک کی متفقہ رائے ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی دور نہیں ہوتی جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری‘ جن میں پاکستان کے دوست ممالک بھی شامل ہیں‘ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ممالک پر زور دیتے ہیں کہ باہمی مفاد اور خطے میں امن کی خاطر دو طرفہ بات چیت‘ اور پُرامن ذرائع سے باہمی تنازعات‘ جن میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہے‘ حل کرنے کیلئے مذاکرات کریں۔ بین الاقوامی دباؤ کے تحت پاکستان اور بھارت نے دیگر تنازعات کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کیلئے دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع بھی کیا ہے۔ مثلاً 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت پاک بھارت امن مذاکرات شروع کروانے میں امریکہ‘ یورپی یونین‘ برطانیہ اور روس کے علاوہ چین نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا مگر بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ بی جے پی کے رہنما نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد نہ صرف پُرامن مذاکرات کا سلسلہ بند ہوچکا ہے بلکہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
22اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 26سیاحوں کی ہلاکت کا واقعہ مودی حکومت کے انہی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ پانچ اگست 2019ء کو نریندر مودی نے مکمل طور پر یکطرفہ‘ غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370کے تحت جو خود مختاری اور آزادی حاصل تھی‘ کو ختم کردیا۔ 22 اپریل 2025ء کا واقعہ مودی حکومت کے اسی غیر آئینی اقدام کا منفی اور ناگزیر نتیجہ ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے عجلت میں اپنے ماضی کے ان ظالمانہ اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور پاکستان کواس حملے کا موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ایسے اقدامات کا اعلان کر دیا جو بین الاقوامی برادری کی نظر میں نہ صرف بے بنیاد اور بلا جواز ہیں بلکہ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کا مقدر ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب جب بھارت نے پاکستان کے خلاف دھمکیوں اور تادیبی کارروائیوں پر مبنی دباؤ کی سفارتکاری استعمال کی ہے‘ وہ اپنے مقصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال 1990ء کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی بات چیت اور مذاکرات شروع کرنے پر کئی برس تک جاری رہنے والا ڈیڈ لاک تھا۔ بھارت کا موقف تھا کہ مذاکرات میں پہلے دو طرفہ تجارت‘ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے میں ویزوں کے اجرا کو آسان اور سادہ بنایا جائے اور دیگر غیرسیاسی مسائل پر بات چیت کی جائے اور کشمیر پر بات چیت بعد میں کی جائے۔ مگر پاکستان کا موقف تھا کہ مذاکرات کے سلسلے میں غیرسیاسی مثلاً تجارت‘ سیاحت اور ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے سے متعلق مسائل کے ساتھ کشمیر پر بھی بات ہونی چاہیے۔ کئی سال تک بھارت پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں ڈیڈ لاک قائم رہا۔ بالآخر بھارت کو پاکستان کا موقف تسلیم کرنا پڑا اور 1997ء میں مالدیپ میں سارک کی سالانہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اِندر کمار گجرال کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے ایک سٹرکچرڈ ڈائیلاگ فریم ورک‘ جس کے اندر باقی تنازعات کے علاوہ کشمیر پر بھی بات چیت شامل تھی‘ پر اتفاق کیا اور سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ فروری 1999ء میں بھارت کے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا دوستی بس کے ذریعے پاکستان کا دورہ مذاکرات کے اسی سلسلے کا نتیجہ تھا‘ بلکہ جنوری 2004ء میں سارک کی 12ویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم واجپائی کے درمیان ملاقات میں کمپوزٹ ڈائیلاگ اور امن مذاکرات کے پرانے سلسلے کو دوبارہ بحال کرنے کے فیصلے کی بنیاد بھی نوازشریف اور اِندر کمار گجرال کی طرف سے شروع کیے گئے مذاکراتی سلسلے نے فراہم کی تھی‘ جس میں پاک بھارت مذاکرات کے ساتھ کسی شرط کو نتھی کرنے کا بھارتی موقف مسترد کر دیا گیا تھا۔
اب بھارت ایک دفعہ پھر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے اپنی پرانی غلطی دہرا رہا ہے۔ پہلگام کے واقعہ پر اپنے فوری ردعمل میں بھارتی حکومت نے پاکستان کو بلا جواز اور بغیر کسی ثبوت کے موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے جن پانچ اقدامات کا اعلان کیا ہے ان میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے۔ یہ ایک کھوکھلی دھمکی اور بھارت کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ امریکہ اور عالمی بینک‘ جن کی وساطت سے یہ معاہدہ طے پایا تھا‘ کے مطابق بھارت کے پاس ایسا کوئی انفراسٹرکچر نہیں کہ جس سے وہ پاکستانی دریاؤں (سندھ، چناب اور جہلم) کا پانی روک روک سکے۔ پھر نریندر مودی نے اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ اس کی واحد وجہ پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور اپنے ملک کے اندر اپوزیشن کی طرف سے سخت تنقید کا جواب دینا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر مودی حکومت کے اس اقدام کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ بھارت اس معاہدے کی روشنی میں جنوبی ایشیا کے ایک اور ملک بنگلہ دیش کے ساتھ بھی دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ (1996ء) کر چکا ہے۔ گزشتہ برس بنگلہ دیش میں 15 برس سے برسر اقتدار عوامی لیگ کی رہنما حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کیلئے مودی حکومت نے بھارت کے ہوائی اڈوں سے بنگلہ دیش کی سب سے زیادہ برآمد کی جانے والی آئٹم‘ ریڈی میڈ گارمنٹس بیرونِ ملک بھیجنے کی رعایت واپس لے لی ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات مزید خراب ہوئے تو بھارت 1996ء کے معاہدے سے دستبردار ہونے یا معطل کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ نیپال کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کا کوئی امکان نہیں کیونکہ بھارت کی طرف سے کوئی بھی دریانیپال کی طرف نہیں بہتا مگر ہمسایہ ممالک کے خلاف دباؤ کی ڈپلومیسی کا عادی ہونے کی وجہ سے ناراضی کی صورت میں بھارت نیپال کے ساتھ سرحد بند کرکے اس پر معاشی دباؤ ڈال سکتا ہے کیونکہ نیپال کی 80فیصد درآمدی اور برآمدی تجارت بھارت کے ذریعے ہوتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے چھوٹے ملکوں پر معاشی دباؤ ڈال کر انہیں اپنی مرضی کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر عمل پیرا کرنا بھارت کی پرانی پالیسی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا اس پالیسی کا تسلسل ہے۔ پاکستان تو اس بھارتی اقدام کے خلاف بھرپور مزاحمت کر رہا ہے مگر جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی اس میں شریک ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک ملک کا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے تمام چھوٹے ممالک کا مسئلہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں