جمعرات کے روز ایک دفعہ پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانے کا دل کیا مگر پھر خبر ملی کہ اجلاس ملتوی ہو گیا ہے۔ پتا چلا کہ اجلاس کی کارروائی چلانے کے لیے ایوان کے اندر جتنے ارکان کے موجود ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی تعداد میں ممبران موجود نہیں تھے۔ آپ کا سوال ہو گا کہ کتنے ارکان ضروری ہوتے ہیں جس کے بعد ہائوس کا اجلاس ہو سکے۔ اس کام کیلئے غالباً84 ممبران کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگلا سوال ہو گا کہ اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد کتنی ہے۔ میرا جواب سن کر شاید آپ کی آنکھیں حیرت سے پھیل جائیں کہ تین سو چالیس ممبران میں سے چوراسی ممبران بھی ہائوس میں نہیں آتے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر یہ اسمبلی کیا کر رہی ہے‘ اس پر اربوں کا بجٹ کیوں خرچ ہو رہا ہے؟ اگر اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرنی تو پھر اس ایوان میں جانے کے لیے یہ سب ایم این ایز اپنا تن من دھن کیوں لگا دیتے ہیں؟ اپنی زندگیاں کیوں خراب کر لیتے ہیں؟ پولیس‘ تھانے‘ کچہریاں‘ جیلیں‘ یہ سب کچھ کیوں بھگتتے ہیں اگر انہوں نے اسمبلی کے اندر اجلاس میں بیٹھنا ہی نہیں؟ تین سو چالیس میں سے صرف چالیس‘ پچاس ممبران ہی اجلاس میں آئے اور باقی تقریباً تین سو ایم این ایز نے اجلاس میں جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ یا تو وہ اپنے علاقوں سے ہی نہیں چلے کہ چھوڑو! مقصد اسمبلی میں پہنچنا تھا‘ پہنچ گئے ہیں‘ تنخواہ وقت پر مل رہی ہے‘ الائونس مل رہا ہے‘ فری پی آئی اے کی ٹکٹیں مل رہی ہیں‘ دوائی علاج سب کچھ مفت ہے‘ عالمی دورے مفت ہیں‘ پارلیمنٹ لاجز میں کمرے ملے ہوئے ہیں۔ اگر چیئرمین کمیٹی ہیں تو پھر ایک سرکاری گاڑی مع پٹرول اور ڈرائیور بھی ملی ہوئی ہے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو سفارتی پاسپورٹس بھی ملے ہوئے ہیں‘ جن پر وہ دنیا کے ساٹھ ستر سے زائد ممالک کے ایئرپورٹ پر اتر کر محض انٹری ویزہ لے کر جا سکتے ہیں۔ اب اگر اجلاس میں شریک نہیں بھی ہوئے تو پریشانی کی کیا بات ہے‘ کیونکہ اجلاس میں حاضری بائیو میڑک سسٹم سے نہیں ہوتی بلکہ اب بھی وہاں ہاتھ سے حاضری لگتی ہے اور ایک رجسٹر رکھا ہوتا ہے جس پر اسمبلی کا ایک اہلکار حاضری لگاتا ہے۔ ماضی میں تو کچھ ایم این ایز نے اس اہلکار کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی کہ میں اجلاس میں آئوں یا نہ آئوں‘ میری حاضری لگا دینا۔ چند ممبران اسمبلی خود بھی ایک دوسرے کی جعلی حاضری لگا دیتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ انہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ جعلی حاضری لگاتے ہیں۔ اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے۔ اب ہر ایم این اے کو اجلاس میں شریک ہونے پر فی اجلاس دس ہزار روپے ملتے ہیں۔ پہلے پانچ ہزار روپے تھے‘ جو اب دو گنا ہو چکے ہیں۔ ممبرانِ اسمبلی اجلاس میں بھی نہیں آنا چاہتے اور دس ہزار روپے بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ آپ پوچھیں گے کہ کیا ان کو تنخواہ نہیں ملتی کہ دس ہزار روپے الائونس بھی دیا جاتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ انہیں پہلے پونے دو لاکھ روپے کے قریب تنخواہ ملتی تھی‘ جو ان کے نزدیک کم تھی۔ حالانکہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا الگ سے الائونس ملتا ہے‘ جس سے لگ بھگ تنخواہ کے برابر الائونس بھی ہر ماہ مل جاتا تھا۔ ایک‘ ڈیڑھ ماہ پہلے ان سب ممبران نے مل کر اپنی تنخواہ پونے دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے تک کر لی ہے مگر پانچ لاکھ روپے تنخواہ کے بعد بھی وہ ہائوس میں نہیں آتے۔ اب آپ کو سمجھ آ رہی ہو گی کہ لوگ سیاستدان بننے کے لیے کیوں اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ تو صرف قانونی پیسے ہیں۔ ابھی ہم نے ترقیاتی کاموں کے نام پر ملنے والے اربوں روپے کی بات نہیں چھیڑی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ وہ کیا کہانی ہے؟
یہ کون سی نئی کہانی ہے بھیا کہ آپ حیران ہو رہے ہیں۔ ہمارے محبوب معاشی ماہر ڈاکٹر محبوب الحق نے 1985ء کی اسمبلی میں سیاستدانوں کے منہ کو ترقیاتی کاموں کا لہو لگایا تھا کہ تم لوگوں کا کام قانون سازی اور ملک چلانا نہیں ہے‘ بلکہ تم نے گلیاں‘ سڑکیں‘ نالیاں اور سکول بنوانے ہیں بلکہ بنوانے کے نام پر اربوں روپے ہم دیں گے‘ آپ کوئی مرضی کا ٹھیکیدار پکڑ کر لے آئیں اور اس کو ٹھیکہ دلوا کر اس سے اپنا کمیشن کھرا کر لیں۔ کبھی دور تھا کہ سیاستدان جیب سے پیسے لگا کر سیاست کرتے تھے۔ کوئی زمین بیچ کر یا بینکوں سے قرضہ لے کر چودھراہٹ کا شوق پورا کرتا تھا۔ پھر ڈاکٹر محبوب الحق کی بدولت ٹھیکیدار دوست جمہوریت کا دور شروع ہوا اور جیبیں بھرنا شروع ہوئیں۔ اب ہر کوئی سیاست میں داخل ہونے کے لیے بے چین ہونے لگا اور اخلاقیات وغیرہ سب کھوہ کھاتے چلے گئے اور پھر چل سو چل۔ اب پیسہ ہی سب کا پیر بن گیا۔ آپ نے مفتاح اسماعیل کا یہ بیان سنا ہو گا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ اس سال ممبرانِ اسمبلی کے لیے ساڑھے پانچ سو ارب روپے ترقیاتی فنڈ رکھا گیا ہے۔ اس پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز پر ممبران تیس فیصد کمیشن لیتے ہیں۔ (یقینا سب ممبران نہیں لیتے لیکن اکثریت کے بارے میں یہی تاثر ہے اور یہ بات ایک سابق وزیراعظم کہہ رہا ہے)
اب آپ بتائیں کہ اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار کون سا ہو سکتا ہے کہ اتنے مالی مفادات ہوں‘ پھر ٹی وی چینلز پر بحث مباحثہ‘ مفت مشہوری‘سوشل میڈیا پر فالوونگ‘ ضلع بھر میں رعب ودبدبہ‘ پوری ضلعی بیورو کریسی آپ کے ماتحت‘ تھانہ کچہری سب کچھ آپ کے کنٹرول میں۔ علاقے کے جو لوگ ووٹ نہ دیں ان کا جینا تک حرام کر دیں۔ اتنا سب کچھ لینے کے باوجود بھی اگر یہ تین سو سے زائد ایم این ایز اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوں تو پھر آپ کیا کہیں گے؟ آپ کچھ کہیں یا نہ کہیں‘ انہیں پتا ہے کہ ان کا وزیراعظم بھی اسمبلی نہیں آتا‘ ان کا کسی نے کچھ بگاڑ لیا ہے؟ نواز شریف صاحب آٹھ آٹھ ماہ تک اسمبلی نہیں جاتے تھے۔ عمران خان صاحب چھ چھ ماہ اسمبلی سے غیر حاضر رہے۔ شہباز شریف صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو نوے فیصد حاضری تھی اور جب سے وزیراعظم بنے ہیں‘ حاضری بیس فیصد بھی نہیں ہے۔ ممبران اپنے ہائوس کے کپتان کو دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ہائوس نہیں آتے اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا لہٰذا انہیں کسی نے کیا کہنا ہے؟
کل ہی میں ایم این اے نفیسہ شاہ صاحبہ کو حامد میر کے شو میں سن رہا تھا‘ جو ممبران اسمبلی کو ملنے والے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کے فوائد گنوا رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتیں سن کر شاہد خاقان عباسی یاد آ رہے تھے کہ کتنی بڑی رقم کمیشن کی نذر ہو جاتی ہے اور ان فنڈز کا مقصد حلقے کے لوگوں کی ترقی اور فلاح سے زیادہ اسمبلی ارکان کی فلاح ہوتا ہے۔ چلیں آپ ترقیاتی فنڈز میں سے اپنا حصہ بھی لیں‘ تنخواہیں بھی لیں‘ مفت پی آئی کی ٹکٹیں بھی لیں‘ مفت علاج‘ پروٹوکول‘ گاڑیاں لیں‘ بیرونی دورے بھی کریں لیکن اس کے باوجود اگر اجلاس میں 84 ایم این ایز شریک نہ ہوں تو آپ نے اس سب کا کیا کرنا ہے؟
اسمبلی کی کارروائی دیکھنے اور رپورٹ کرنے کا بھی الگ سے سیاسی چسکا ہے۔ جسے ایک دفعہ لگ جائے پھر مشکل ہی چھوٹتا ہے۔ میں نے سیاسی رپورٹنگ 2002ء میں شروع کی تھی اور اس دوران بہت کچھ سیکھا۔ اس بیچ کئی حکومتیں گرتی اور بنتی دیکھی ہیں لیکن ایک چیز اچھی دیکھی کہ اس کے بعد ہر پارلیمنٹ نے اپنی پانچ سال میعاد پوری کی‘ چاہے اس میعاد کو دو دو وزیراعظم نے مل کر پورا کیا۔ لیکن سوچیں کہ آپ اپنا چسکا پورا کرنے جائیں تو پتا چلے کہ آج تین سو ممبران کا موڈ نہیں تھا لہٰذا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب کل ان صاحبان کا موڈ بنا تو پھر دیکھیں گے۔