"RKC" (space) message & send to 7575

میری نانی اماں کے نام

میں اکثر پرانی کتابوں کی دکان پر جاتا ہوں۔ یوں کہہ لیں کہ اب تو میرا اپنا بیڈ روم بھی پرانی کتابوں کی ایک دکان بن چکا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ایک دن بھی میں پرانی کتابوں کی دکان پر نہ گیا تو کوئی نہ کوئی اہم پرانی کتاب خصوصاً کسی کی یادداشت‘ مجھ سے چھوٹ جائے گی۔ اگر میں اپنی زندگی میں خود کو کسی حوالے سے خودغرض سمجھتا ہوں تو وہ کتابیں ہیں۔ اس طرح کی خودغرضی میں نے اگر کسی اور میں دیکھی تو وہ میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ آپ ان سے کوئی بھی چیز مانگ سکتے تھے‘ انکار کرنا ان کے مزاج میں نہ تھا لیکن اگر کوئی کتاب مانگتا تو وہ صاف انکار کر دیتے تھے۔ بھائی جان! یہ نہیں ہوگا۔ چہرے پر مایوسی دیکھ کر کہتے: ہاں‘ ایک راستہ ہے۔ اس کی کاپی کرا لیتے ہیں۔ میں خوش ہو جاتا کہ چلیں دیں‘ میں کاپی کرا کے واپس کر دوں گا۔ وہ ہنس کر کہتے: بھائی جان کتاب آپ کو کاپی ہو کر ملے گی اور وہ خود جا کر خوبصورت کاپی کرا کے کتابی شکل میں مجھے پیش کرتے۔
مجھے پرانی کتابوں کی دکانوں سے بڑی نایاب کتابیں ملی ہیں۔ سات سال تک بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے سیکرٹری رہنے والے افسر نے ان پر جو کتاب لکھی وہ پڑھ کر میں دو سال بعد بھی اس کے سحر میں مبتلا ہوں۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ اس کا اردو ترجمہ کر کے چھپوائوں‘ جس میں ایوب‘ شاستری تاشقند معاہدے کی اتنی تفصیل ہے کہ میں نے پہلے کبھی نہیں پڑھی تھی۔ اور تو اور شاستری صاحب کے آخری لمحات کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اپنی جگہ کمال ہے۔ اس طرح ایک پاکستانی سفارتکار کی پرانی یادداشتوں پر مبنی جو خاکے پڑھے‘ وہ اپنی جگہ کلاسک ہیں۔ خصوصاً بھٹو صاحب کے بارے میں اہم باتیں کی گئی ہیں۔
اب یہی کتاب Neither Roses, Nor Thrones دیکھ لیں جو پرانی کتابوں کی دکان سے لی ہے۔ ہنس راج کھنہ امرتسر میں 1912ء میں پیدا ہوئے تھے اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی یادداشتیں لکھی ہیں۔ کھنہ صاحب وہی مشہور جج ہیں جو اندرا گاندھی کو ٹکر گئے تھے جب انہوں نے بھارت میں ایمرجنسی لگائی اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ وہاں دیگر ججوں نے اندرا گاندھی کے اس ایمرجنسی آرڈر کو لیگل کور دے کر قانونی قرار دیا لیکن جسٹس کھنہ نے اس آرڈر کو غیر قانونی قرار دے کر اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔ یہ اُس دور میں ان کی بہادری تھی جب پورا بھارت اندرا گاندھی کی آمرانہ سوچ کے نیچے دبا ہوا تھا اور کسی ادارے میں جرأت نہیں تھی کہ وہ کھڑا ہو سکے۔ جو کھڑا ہوا اسے سیدھا جیل میں ڈال دیا گیا۔ جسٹس کھنہ سے اندرا گاندھی نے بدلہ اس طرح لیا کہ انہیں سپر سیڈ کر دیا گیا اور وہ چیف جسٹس نہ بن سکے۔ خیر یہ ایک الگ طویل داستان ہے۔ اس وقت میں جسٹس کھنہ کی نانی پر لکھنا چاہتا ہوں۔
چاہے وہ اردو ادب ہو یا انگریزی‘ بہت کم لکھاری‘ ادیب یا مشہور شخصیات اپنی کسی کتاب کا انتساب اپنے دادی‘ دادا یا نانا‘ نانی کے نام کرتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے صرف دو تین انگلش ادیبوں کی کتابوں میں انتساب پڑھا: In memory of my loving grandparents۔ مجھے حیرانی ہوئی جسٹس کھنہ کی کتاب کا انتساب دیکھ کر کہ انہوں نے اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں‘ سب کو چھوڑ کر اپنی نانی کے نام ہی انتساب کیوں کیا۔ اس سوال کا جواب مجھے اُس باب میں ملا جو جسٹس کھنہ نے اپنی نانی پر لکھا ہے۔ کتاب کا پہلا باب ان کے والد پر ہے اور دوسرا باب نانی پر۔ اس ایک باب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ نانی اور دادی اپنے پوتوں‘ نواسوں کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔
جسٹس کھنہ تین بھائی اور چھ بہنیں تھیں۔ ابھی ہنس راج کھنہ بارہ سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں جبکہ گھر کا سب سے چھوٹا بچہ ابھی آٹھ ماہ کا تھا۔ ماں کو جگر کا کینسر ہوا اور وہ دیکھتے دیکھتے چند ماہ میں چل بسیں۔ جب ماں آخری سانسیں لے رہی تھی تو بارہ سالہ کھنہ گھر کی اوپر والی منزل پر سو رہا تھا۔ بہن بھاگ کر گئی اور اسے اٹھا کر لائی کہ ماں بلا رہی ہے۔ ماں نے ہنس راج کھنہ کو دیکھا تو اس میں کچھ حرکت پیدا ہوئی‘ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن بولنے سے پہلے ہی روح پرواز کر گئی۔ سب بہن بھائی ماں کی میت دیکھ کر زور زور سے رونے لگے۔ایک خوشحال گھرانہ ایک لمحے میں ماں سے محروم ہو گیا۔جسٹس کھنہ کی ماں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کا باپ بھی جلدی فوت ہو گیا تھا۔ نانی اکیلی تھیں‘ لہٰذا وہ بھی اپنی بیٹی (جسٹس کھنہ کی ماں) کے پاس ہی رہتی تھیں۔ حالانکہ ان کا اپنا بھی ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ نانی بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ وہ بہت خوبصورت‘ دراز قد اور اچھی شخصیت کی مالک تھیں۔ جوانی میں بیوہ ہو گئیں‘ اس لیے اب اپنی بیٹی اور نواسے؍ نواسیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ جسٹس کھنہ ان کے ساتھ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل یا ستلہ مندر جاتے تھے۔ ہر اتوار کو نانی اپنے نواسے کو ایک روپیہ دیتی تھیں جو وہ پتنگ خرید کر اڑانے میں خرچ کر دیتے۔ ماں کی وفات کے بعد اس گھرانے کی ساری ذمہ داری نانی پر آن پڑی تھی اور نانی بھی ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں کہ اب میں نے ان بچوں کو پالنا ہے۔
جسٹس کھنہ کا باپ ایک مشہور لیکن مصروف وکیل تھا لہٰذا اس کے پاس گھر کے لیے اتنا وقت نہ تھا۔ اگرچہ گھر میں کافی نوکر تھے لیکن گھر کے افراد خود جا کر مارکیٹ سے خریداری کرتے تھے۔ جب بھی گھر میں کوئی بچہ بیمار ہوتا تو اس کا سارا خیال نانی رکھتیں۔ پوری رات جاگ جاگ کر اس کے ساتھ رہتیں۔ وہ خود کبھی بیمار نہ ہوئیں اور ہر وقت کام کرتی پائی جاتیں تاکہ بچے سکھی رہیں۔ وہ اتنے کام کرتیں اور ان میں اتنی ہمت اور طاقت تھی کہ یہ دیکھ کر سب بچے شرمندہ ہو جاتے کہ نانی اتنے کام کرتی ہیں اور وہ آرام سے رہتے ہیں۔ جب بھی جسٹس کھنہ کی شادی شدہ بہنیں بیمار ہوتیں تو نانی ان کے گھر بھی جاتیں‘ چاہے لاہور ہو یا لائل پور‘ اور پھر ان کو تندرست کر کے واپس امرتسر آ جاتیں۔ نانی کی سوچ عملی تھی۔ اگرچہ وہ گولڈن ٹیمپل جاتی تھیں لیکن کبھی برہمن‘ سادھو پنڈت کے رعب دبدبے میں نہیں آتی تھیں نہ ان سے متاثر تھیں۔ نانی کی اپنی سخت رائے تھی اور مجال ہے کوئی اسے تبدیل کر سکے۔ نانی انکسار پسند اور عاجز خاتون تھیں۔ اگرچہ وہ کبھی کبھار گھر کے کسی ملازم پر غصہ کرتی تھیں لیکن سب بچوں کو علم ہوتا کہ نانی غصہ کرنے کی اداکاری کر رہی ہیں ورنہ وہ غصیلی طبیعت والی نہیں تھیں۔ نہ وہ کبھی جذباتی ہوتیں اور نہ ہی عملی زندگی کے پہلوئوں کو نظر انداز کرتیں۔ نانی نے اپنی آنجہانی بیٹی کے نو بچوں کو بہت پیار‘ محبت اور توجہ سے پالا۔ دکھ کی گھڑی میں انہوں نے سب کو سنبھالا۔ اس سب کے بدلے انہوں نے کبھی کسی سے کوئی توقع نہ رکھی‘ نہ کبھی کسی سے کچھ مانگا۔ وہ ایک ایسی خاتون تھیں جس نے عمر بھر قربانیاں دیں۔ جب 98 برس کی عمر میں نانی کی وفات ہوئی تو کھنہ خاندان کے نو بچوں کو لگا کہ ان کی اصل ماں تو آج مری ہے۔
یہ سب پڑھ کر مجھے اپنی نانی یاد آ گئیں جن کے پندرہ بیس پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے نواسیاں تھیں۔ میں اس وقت چھوٹا تھا۔ نانی کو پتا تھا کہ مجھے میٹھا پسند ہے۔ جب بھی گائوں میں نانی کے گھر جاتا تو وہ چپکے سے مجھے کوئی میٹھی چیز پکڑا دیتیں اور کہتیں دوسروں کو نہ بتانا۔ شاید باقی بچوں کو بھی وہ خفیہ طور پر ان کی پسندیدہ چیزیں دیتی ہوں گی اور منع کرتی ہوں گی کہ دوسروں کو نہ بتانا۔
نانی کتنی پیاری ہستی ہے‘ شاید بعض دفعہ ماں سے بھی زیادہ۔ جیسے جسٹس کھنہ نے لکھا کہ جس دن ہماری نانی فوت ہوئی اس دن ہمیں لگا ہمارا گھر آج خالی ہوا ہے۔ ہماری نانی سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں