"RS" (space) message & send to 7575

افغانستان میں موجود امریکی اسلحے کا خطرہ

اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد چھوڑا جانے والا اربوں ڈالرز مالیت کا اسلحہ پاکستان کے لیے سنگین سکیورٹی چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان نے بارہا اس تشویش کا اظہار کیا کہ یہ ہتھیار دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں میں پہنچ کر ملک میں عدم استحکام اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر عالمی سطح پر اس مسئلے کو وہ سنجیدگی حاصل نہ ہو سکی جس کا پاکستان تقاضا کر رہا تھا لیکن جب سکیورٹی اداروں نے ٹھوس شواہد پیش کر دیے تو عالمی برادری بشمول سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس حقیقت کا ادراک ہوا۔ ٹرمپ کا یہ اعتراف کہ افغانستان میں سات ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ موجود ہے اور اسے واپس لینے کے عزم کا اظہار پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے۔ حال ہی میں اس دیرینہ مسئلے کے حل کی جانب ایک اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی جب اسحاق ڈار اور امریکی وزارتِ خارجہ کے درمیان اس پر اتفاقِ رائے پیدا ہوا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ کے مابین ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں اس مسئلے پر تبادلہ خیال ہوا‘ جس میں امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جاری کوششوں کو سراہا اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں باہمی تعاون کو مضبوط کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس سے قبل امریکہ کی جانب سے داعش کے ایک اہم کمانڈر کی گرفتاری اور حوالگی پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنا بھی دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد اور مشترکہ سکیورٹی مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔
افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد یہ خدشہ سر اٹھانے لگا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی طویل اور صبر آزما جنگ میں تنہا رہ جائے گا۔ پاکستانی حکام نے کئی بار اس خدشے کا اظہار بھی کیا۔ افغانستان سے ہونے والے حملوں نے اس تشویش کو مزید گہرا کر دیا تھا تاہم امریکی حکام کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف اور اس جنگ میں تعاون کی یقین دہانی ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ اس اعتراف اور تعاون کے وعدے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اب اس کٹھن محاذ پر تنہا نہیں ہے۔ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ قریب آ رہے ہیں بلکہ معاشی تعلقات بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد میں منرلز انویسٹمنٹ فورم میں امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار ایرک میئر کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے پاکستان کے معدنی ذخائر کے وسیع امکانات کو تسلیم کرتے ہوئے اسے نہ صرف ملکی معیشت کی ترقی کے لیے ایک کلیدی عنصر قرار دیا بلکہ امریکہ کے جدید تکنیکی شعبوں کے لیے بھی ایک اہم اور قابلِ اعتماد ذریعہ قرار دیا۔ ایرک میئر نے واضح کیا کہ اگر پاکستان اپنی معدنی دولت کو شفاف‘ پائیدار اور ذمہ دارانہ انداز میں استعمال کرے تو یہ دونوں ممالک کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اکیسویں صدی کی جدید دنیا میں معدنیات کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز‘ صاف توانائی کے حصول اور جدید دفاعی نظاموں کی تیاری میں معدنیات کا ایک بنیادی کردار ہے۔ ہمارے لیے یہ پلس پوائنٹ ہے کہ دنیا کو جدید ٹیکنالوجی کیلئے جو معدنیات درکار ہیں وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے پہاڑوں میں موجود ہیں۔ اس لیے پاکستان اپنے قدرتی وسائل کی بدولت عالمی منظرنامے میں ایک اہم ملک کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ اس اعتبار سے منرلز انویسٹمنٹ فورم نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون کے امکانات کو اجاگر کیا ہے اور امریکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے‘ مگر معدنیات سے مستفید ہونے کیلئے علاقائی امن نہایت ضروری ہے۔
افغانستان میں موجود نیٹو اسلحہ پاکستان کیلئے سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ دہشت گرد یہ اسلحہ استعمال کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں موجود اسلحے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔اگرچہ امریکہ بھی اب پاکستان کا ہم آواز بن گیا ہے مگر اس اسلحے کا خاتمہ کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ اس پر طالبان کا کنٹرول ہے جسے دوبارہ حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ طالبان کی حکومت بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں ہے‘ طالبان اس اسلحے کو اپنی ملکیت گردانتے ہیں اور اسے واپس کرنے کے مطالبے کو رد کر چکے ہیں۔ بگرام ایئربیس کو امریکی تحویل میں دینے کے حوالے سے بھی طالبان تردید کر چکے ہیں۔ طالبان کے عدم تعاون اور اس وسیع اور متنوع اسلحے کی شناخت اور بازیابی میں پیش آنے والی تکنیکی مشکلات بھی اس عمل کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں‘ لہٰذا ان حالات میں جب امریکی اسلحے کے شدت پسند عناصر تک پہنچنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے‘ اس کی بازیابی ایک بڑا چیلنج ہے اور توجہ اس بات پر مرکوز کرنا زیادہ حقیقت پسندانہ ہے کہ اس اسلحے کے پھیلاؤ کو کیسے روکا جائے اور اس کے علاقائی سلامتی پر منفی اثرات کو کیسے کم کیا جائے۔
جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوا تو پاک امریکہ تعلقات میں کسی قدر سردمہری آ گئی تھی‘ خدشہ تھا کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوں گے تو تعلقات میں مزید اتار چڑھاؤ آئے گا‘لیکن توقعات کے برعکس پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان کے معدنی ذخائر میں امریکہ کی دلچسپی اور دہشت گردی کے خلاف تعاون میں حالیہ اضافہ دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کی اقتصادی صلاحیت اور سکیورٹی کی اہمیت کو تسلیم کرنا ایک اہم پیش رفت ہے۔صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لاگو کیے گئے 29فیصد ٹیرف کے معاملے پر پاکستانی وفد کو امریکہ بھیجنے کا فیصلہ بھی اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اپنی اہم ترین برآمدی منڈی کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے۔ پاک امریکہ تعلقات جہاں ہمارے لیے اشد ضرورت ہیں وہاں خارجہ پالیسی میں توازن رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے‘ جس میں چین کے ساتھ دیرینہ اور مضبوط تعلقات بھی شامل ہیں۔ چین پر امریکی ٹیرف برقرار رہنے کے باوجود پاکستان کے چین کے ساتھ اقتصادی اور تزویراتی روابط اپنی جگہ موجود ہیں۔ امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے۔ اپنی معیشت کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون اہم ہے تو چین کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا پاکستان کی علاقائی تزویراتی اہمیت اور اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔چین کے ساتھ ہمارا معاشی مستقبل جڑا ہوا ہے‘ پاکستان اور چین کا اقتصادی تعاون اور سکیورٹی کے مشترکہ مفادات ہیں۔ پاک امریکہ بڑھتی قربتوں کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو ترک کر رہا ہے بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کثیر الجہت رہے گی‘ جس میں مختلف طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مکمل طور پر امریکی بلاک میں جانے کے بجائے قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا ہی دانشمندی ہو گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں